سرینگر//بھارتی سیاستدانوں اور منصوبہ سازوں سے بیدار ہونے کی اپیل کرتے ہوئے عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ اور ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے کہا ہے کہ بھارت کے مختلف علاقوں میں ملک کی کئی اہم اور تاریخی شخصیات کے مجسموں کو گرائے جانے سے بھارتی سماج میں بڑھتی ہوئی بنیاد پرستی اور عدم برداشت کو بری طرح بے نقاب کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مختلف گروہوں کی طرفسے محض نظریاتی اختلاف کی وجہ سے لینن سے لیکر امبیدکر اور دیگر راہنماؤں تک کے مجسموں کو تباہ اور انکی تذؒیل کرنا افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ ان حالات سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کے اندر مختلف مکتبہ ہائے فکر کے مابین مذہبی،سماجی اور سیاسی اختلافات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں اور ان طبقات میں بہت بڑا فاصلہ بڑھ گیا ہے۔انجینئر رشید نے کہا کہ مسلمانوں،باالخصوص کشمیریوں، کو بنیاد پرستی کے طعنے دینے اور پھر برداشت بڑھانے کی نصیحتیں دینے والے بری طرح بے نقاب ہوچکے ہیں اور انہیں تریپورہ سے لیکر کولکتہ تک اور کرناٹکہ سے لیکر یوپی تک کے حالات پر توجہ کرنی چاہیئے۔انہوں نے کہا ’’حالانکہ مسلمان اور دلت عرصہ سے انکے ساتھ ہورہی ناانصافی اور امتیازی سلوک کا رونا روتے آرہے ہیں لیکن انہیں سننے والا کوئی نہیں ہے بلکہ انکے تئیں منظم طریقے سے جاری مذہبی عدم برداشت کو ’’بھارت دیش کے خلاف پروپیگنڈہ‘‘کا نام دیکر نظرانداز کیا جاتا رہا ہے تاہم اب جبکہ خود بھارت کے کئی معماروں اور راہنماؤں کے مجسمے محض اس لئے تباہ کئے جانے لگے ہیں کیونکہ کچھ لوگ انکے فلسفہ سے متفق نہیں ہیں تو یہ بات سمجھنا آسان ہوگیا ہے کہ بھارت اصل میں کہاں کی جانب بڑھ رہا ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ آج کے حالات دیکھ کر یہ سوال پوچھنے کا سب کے پاس حق ہے کہ اگر طالبان کی جانب سے بتوں کی تباہی کی اوروں کے ساتھ ساتھ بھارتیوں نے بھی تھو تھو کی تھی اور اسکے لئے افغانیوں پر طالبانیت اور نہ جانے کیا کیا طعنے کسے تھے تو آج جبکہ کرناٹک سے کولکتہ اور میرٹھ تک ایسے ہی حالات ہیں تو انہیں کیا نام دیا جانا چاہیئے۔