سرینگر //ریاستی وومنز کمیشن سال 2016کے دوران پیلٹ گن کا شکار ہوکر آنکھوں کی بینائی کھونے والی خواتین کی اصل تعداد سے ناواقف ہے۔ سرینگر کے صدر اسپتال کے اعدادوشمار کے مطابق 6 ماہ کے نامساعدحالات کے دوران 21 خواتین کی بینائی پیلٹ لگنے سے متاثر ہوئی تھی مگر ریاستی سرکار کی جانب سے صرف چند ہی خواتین کی باز آباد کاری کیلئے اقدامات کئیگئے تاہم ریاستی کمیشن برائے خواتین کا کہنا ہے کہ پیلٹ متاثرین کی باز آباد کاری کیلئے ایک جامع پالیسی مرتب کی جارہی ہے۔ سال 2016کے نامساعد حالات کے دوران جہاں ریاستی سرکار کے اعدادوشمار کے مطابق 6ماہ کے دوران زخمی ہونے والے افراد کی تعداد 9ہزار سے زائد ہے وہیں ان زخمی افراد میں 1021افراد کی بینائی پیلٹ لگنے کی وجہ سے متاثر ہوئی تھی جن میں 5سال سے لیکر 60سال کی عمر تک کی خواتین شامل ہے۔ سال 2016کے دوران آہنی چھروں سے جن خواتین کی بینائی متاثر ہوئی تھی ان میں 5خواتین کی دائیں آنکھ،14خواتین کی بائیں آنکھ متاثر ہوئی تھی جبکہ انشاء مشتاق اور بارہمولہ کی رہنے والی شاہینہ کی دونوں آنکھوں میں پیلٹ لگے تھے تاہم رریاستی سرکار کی جانب سے چند ہی خواتین کی باز آباد کاری کیلئے اقدامات اٹھائے گئے ۔ جموں و کشمیر میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے قائم ریاستی وومنز کمیشن بھی سال 2016کے دوران پیلٹ لگنے سے آنکھوں کی بینائی کھونے والی خواتین کی اصل تعداد کا پتا نہیں لگا سکا ہے کیونکہ کمیشن کو پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں سے جانکاری حاصل کرنی پڑتی ہے۔ پیلٹ متاثرین کی باز آباد کاری کیلئے کام کرنے والے ریاستی وومنز کمیشن کی خاتون چیرپرسن نعیمہ مہجور نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ سال 2016کے دوران آنکھوں کی بینائی کھونے والی خواتین کیلئے ریاستی وومنز کمیشن نے ریاستی سرکار کو مذکورہ خواتین کو مفت تعلیم فراہم کرنے کے علاوہ انہیں مالی امداد بھی فراہم کرنے پر زور دیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پیلٹ سے متاثر ہونے والی خواتین میں زیادہ تعداد طالبات کی تھی تو ہم نے حکومت پر زور دیا ہے کہ بینائی کھونے والی کوئی بھی لڑکی تعلیم سے محروم نہ رہے۔ انہوں نے کہا ’’ ہم نے ریاستی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ اگر ایسے طالبات کی پڑھائی کیلئے بیرون ریاست سے ماہرین کو بلانا پڑے تو انہیں فوراًبلاکر ایسی لڑکیوں کی تعلیم کو پھر سے شروع کرایا جائے۔‘‘ نعیمہ مہجور نے کہا ’’ خواتین کسی پر منحصرنہ رہیں اور اسلئے ہم نے انہیں خودکفیل بنانے کیلئے بھی ریاستی سرکار کو مشورے دئے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ انشاء مشتاق کو جس طریقے سے باز یاب کیا گیا ہے ، اسی طریقے سے دوسری خواتین کو بھی بازیاب کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ زخمی خواتین کی فہرست ابھی مکمل طور پر تیار نہیں ہے کیونکہ کمیشن کو پولیس سے زخمی ہونے والے خواتین کی تفاصیل جمع کرنی پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا ’’پولیس کو ہمیں یہ تفاصیل بھی دینی ہوتی ہے کہ خواتین کن حالات میں زخمی ہوئی ہیں کیونکہ ہمیں انہیں اقتصادی طور خودکفیل بنانے کے علاوہ پر اعتماد بھی بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے انہیں ہدایت دی ہے کہ تفاصیل جمع کی جائیں کہ پیلٹ سے متاثرہ خواتین کے علاج و معالجہ پر کتنا خرچہ آیا ہے کیونکہ حکومت نے کمیشن کے کہنے پر ہی پیلٹ سے متاثرہ خواتین کو مفت علاج و معالجہ فراہم کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ خواتین کیلئے محکمہ سوشل ویلفئیر نے بھی چند اسکیموں کے تحت مالی معاونت فراہم کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تمام ڈی سی صاحبان سے زخمی خواتین کے بارے میں تفصیلات طلب کی ہے تاکہ انکی بازیابی کیلئے ایک جامع منصوبہ ترتیب دیا جائے۔