Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

نظام الدّین سحر ؔکی سحر انگیزی

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: March 11, 2018 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
11 Min Read
SHARE
نظام الدّین سحرؔ اب اس دنیا میں نہیں ہیں ۔انھیں اس جہان فانی سے رخصت ہوئے تقریباً ڈیڑھ برس کا عرصہ ہوچکا ہے ۔  ان کا تعلق وادی کشمیر سے تھا ۔کشمیری میں  شاعری کرتے تھے لیکن اردو کی ادبی محفلوں میں ان کی شرکت نے انھیں اردو کی طرف مائل کیا اور اس طرح اردو میں بھی تا دم آخر شعر وشاعری کرتے رہے۔’’نداے سحر‘‘کے نام سے ان کا کشمیری مجموعہ کلام 2002میں چھپااور ’’صداے سحر ‘‘ان کا اردو مجموعہ کلام ہے جو2013میں اشاعت پذیر ہوا ہے۔’’صداے سحر‘‘176صفحات پہ مشتمل ہے،جس میں نظام الدّین سحرؔکی نظمیں کم اور غزلیں زیادہ شامل ہیں ۔موضوعات،فکریات اور خیالات کے اعتبار سے یہ تمام نظمیں اور غزلیں اپنے اندر احساس کے طہارت اور زماں ومکاں کی ناخوشگواری کے ساتھ ساتھ لمحہ بہ لمحہ بدلتے حالات میں شاعر کے داخلی درد وکرب کو آشکار کرتی ہیں ۔اس شعری مجموعے میں حسن وعشق،رقص وسرود،جام ومینا،محبوبہ کے لب ورخسار اور اس کی ذلف پیچاں کا کہیں بھی ذکر نہیں ملتا۔بس پاکیزہ خیالات کی ایک ایسی روداد ہے جس کا مطالعہ آج کل کے دور میں ناگزیر ہے کیونکہ شعر وادب کو جب تک اعلیٰ انسانی کردار سازی کے لیے برتا نہیں جاتا تب تک ادب کی معنویت اور اس کا افادی پہلو پھُسپھُسا  ہوکے رہ جاتا ہے۔نظام الدّین سحر نے اپنی شاعری میں اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ کوئی بھی شعر،چاہے وہ نظمیہ ہو یا غزلیہ،مخرب اخلاق کا سبب نہ بنے۔انھوں نے کلاسیکی شعراکی طرح اپنے مجموعہ کلام کی شروعات حمدیہ اور نعتیہ اشعار سے کی ہے جو اس بات کا اعتراف ہے کہ ان میں عشق الٰہی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جذ بہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ان کی شاعری کے امتیازات پر پروفیسر قدوس جاوید نے بڑی پتے کی بات کہی ہے ۔وہ لکھتے ہیں:
’’نظام الدّین سحرؔکی اردو شاعری کے امتیاز ات کئی ہیں لیکن سب سے بڑی بات یہ کہ ان کی اردو شاعری موضوع اور خیال کے اعتبا ر سے خواہ کسی بھی شکل میں کیوں نہ سامنے آئے شعریت ہرحال میں موجود رہتی ہے اور اس حقیقت کے باوجود کہ سحر ؔنے اردو اور کشمیری کے قدیم اور کلاسیکی شعرا کی طرح اپنے شعری مجموعے کے آغاز میں حمدیہ اور نعتیہ اشعار شامل کرنے کی سعادت حاصل کرنے میں کسی تساہل سے کام نہیں لیا ہے اور پھر سحرؔکے حمدیہ اور نعتیہ اشعار میں جوجدت اور ندرت ہے وہ ایک طرف تو ان کے ایمان وایقان کے مظہر ہیں وہیں دوسری جانب ان کی قوت اظہار کی دلیل بھی‘‘
(مشمولہ۔’’صداے سحر‘‘کریسنٹ ہاوس پبلی کیشنزجموں 2013ص26,27)
نظام الدّین سحرؔ نے موضوعاتی اعتبار سے اپنی شاعری میں تنّوع پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔اپنے سماج یعنی کشمیر میں بگڑتے حالات،ظلم واستبداد اور معاشرتی خرابیوں اور غیر حقیقی مسائل ومعاملات پر ان کا شاعرانہ اظہار دراصل ہمیں ایک خاص طرح کا پیغام دیتا ہے اور وہ پیغام ہے ہماری بے فکری،بے حسی اور غیر سنجیدگی کو ترک کردینے کا۔گویا ان کی نظر میں ہماری معاشرتی صورت حال انتہائی مایوس کن اور دل سوز ہے ۔مثلاًان کے مندرجہ ذیل اشعار پورے طنزیہ ورمزیہ انداز میں ہمیں کچھ اچھا کر گزرنے کی تلقین کرتے معلوم ہوتے ہیں :
بوحلم وحیا کی ہو تو نادان کہیں  لوگ
حد سے ہوں جو مکار تو لقمان کہیں لوگ
جھوٹے کی دغاباز کی اوقات بہت ہے
حق گو جو کوئی ہو اسے شیطان کہیں لوگ
حیوان سے بدتر ہوں خصائل جوکسی کے
محفل میں اسے صاحب ایمان کہیں لوگ
۔۔۔
بیٹی کا بیاہ اب بڑ ا دشوار ہو ا ہے
ہے ڈاوری کا روگ لگا پریم نگر کو
۔۔۔
پھیلایئے  الحاد  اجازت ہے وطن میں  
اقدار ہوں برباد اجازت ہے وطن  میں 
ابلیس  کے  چیلوں کو میسر  ہے رعایت 
اللہ کے بندوں سے عداوت ہے  وطن میں 
۔۔۔
ہے  قصۂ پارینہ محبت کی روایت 
اخلاص ،اخوت کی مروت کی روایت
اب بخل وشقاوت میں گرفتار سبھی ہیں 
معدوم ہے بستی میں سخاوت کی روایت
رشتوں سے سبھی لذتیں مفقود ہوئی ہیں
باقی نہیں ہے رحم و صلابت کی روایت
۔۔۔
نظام الدّین سحرؔکی نظموں میں ہمیں ان کے عہد کی زبوں حالی کا تذکرہ ملتا ہے کہ جس میں اخلاقی  وروحانی اور سماجی اقدار کا فقدان ہے اور جس پر ان کا شعری مکالمہ ایک طرح کا نوحہ بن کے رہ گیا ہے۔نظمیہ حصے میں بہت سی نظمیں ایسی ہیں جو ان کے داخلی درد وکرب ،عقیدت واحترام ،علمی وادبی دانش گاہوں کی عظمت اور کشمیر کی بزرگ ہستیوں سے ان کی والہانہ محبت کا اظہار معلوم ہوتی ہیں ۔مثلاً ’’علامہ اقبال کی خدمت میں ‘‘شاعر اور نالئہ ماور‘‘سرسید ماور غلام حسن مخدومی کا مرثیہ‘‘ترانہ دانش گاہ نسواں سوپور‘‘اور’’مرحومہ رفیقئہ حیات شریف النّسا‘‘کو اسی زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔میرا یہ ماننا ہے کہ شاعری میں شعریت اور ادب میں ادبیت نہ ہو تو سب بیکار ہے ۔اسی کے ساتھ ساتھ میں اس بات کا بھی قائل ہوں بلکہ زور دیتا ہوں کہ ایک بڑے ادیب وشاعر میں اوصاف حمیدہ کا پایا جانا نہایت ضروری ہے۔اسی بات کو طول نہ دیتے ہوئے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک اچھے ادیب وشاعرکو اپنی عملی زندگی میں اچھا ہونا چاہیے۔اس اعتبار سے دیکھیں تو نظام الدّین سحرؔ اپنی پوری مومنانہ وضع قطع اور شریفانہ مزاج میں ان کے معاصرین کو نظر آتے رہے ہیں۔یعنی ان کے قول وفعل میں کوئی تضاد نہیں رہا ہے۔ہر دور کا شعر وادب چونکہ اپنے عہد اور سماج کا عکس ہوتا ہی ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ اس سے ادیب وشاعر کی داخلی کائنات بھی منعکس ہوتی رہتی ہے۔نظام الدّین سحرؔ اپنے شاعرانہ لب ولہجے اور فکر وخیال کے  اعتبار سے اللہ والے معلوم ہوتے ہیں ۔۔ان کے بہت سے اشعار اس بات کی تصدیق ہیں کہ وہ شرافت ،دیانتداری،خوش اخلاقی اور منکسرالمزاجی کو عزیز رکھتے ہیں ۔وقت کی نزاکت کو جانتے ہیں اور ان کا متصوفانہ مزاج ان سے اس طرح کے اشعار کہلواتا ہے:
جسے وہ دے اسے روکے نہ کوئی
جسے روکے اسے ملتا نہیں ہے
۔۔۔
اسی کی حکمرانی  حق  بجانب
وہی تو ایک رب العالمین ہے
اسی میں ہے سحر ؔراہ  ہدایت 
جو تیرے پاس قرآن مبین ہے
۔۔۔
مرے اسلاف پیکر تھے وفا  کے
میرے دل میں وہی اخلاص بھردے
یہ گردن خم نہ ہو باطل کے آگے
مرے ہاتھوں میں گر شمس و قمر دے
۔۔۔
جہاں تک نظام الدّین سحرؔکی غزلیہ شاعری کا تعلق ہے ۔اس میں بھی ہمیں ان کی مدرسانہ ذہنیت کار فرما نظرآتی ہے۔ان کے بہت سے اشعار ہمیں غور وتدبر کی دعوت دینے کے ساتھ حقیقت حیا ت وکائنات سے باخبر کرتے ہیں ۔ کچھ اشعار میں جدید شاعری کی خُوبُو نظر آتی ہے اور کچھ اشعار ایسے بھی پڑھنے کو ملے جو پند ونصائح سے تعلق رکھتے ہیں یا جن میں ضرب المثل کا سا طمطراق موجود ہے۔نمونے کے طور پر نظام الدّین سحرؔکے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ کیجیے:
جو اولادوں کی خاطر عاقبت کو
کرے برباد  وہ کوتاہ نظر  ہے
جو ظالم کی اطاعت پر ہو راضی
وہ انساں بھی تو مثل گاو خر ہے
۔۔۔
نہ کیوں اس پیڑ کو جڑ سے اکھاڑوں 
یہاں  جو مدتوں سے  بے ثمر ہے
۔۔۔
کوئی جیتا ہے کام کی خاطر 
کوئی مرتا ہے نام کی خاطر
۔۔۔
حسن رنگیں ادا پہ مت پھولو
صبح ہوتی ہے شام کی خاطر
۔۔۔
دوسروں کے گھر بناتا ہے جو جسم وجان سے
راہ پر سوتا ہے وہ فاقوں کا مارا دوستو
۔۔۔
بے لباسی پہ تُلی ہے تیری دنیا  یا رب
راستہ چلنا  ہے نظروں کوبچائیں  کیسے
چشم نمناک ہے گریہ سے بھی عاجز لیکن 
سوزش دل کوبجھائیں تو بجھائیں کیسے
۔۔۔
تقدیر بنانے میں بڑی دیر لگے گی
خوشیوں کے گھر آنے میں بڑی دیر لگے گی
۔۔۔
مر کے واپس کوئی نہیں آتا
ماہ آتے ہیں سالِ نہیں آتا 
خود فریبی خدا فریبی ہے
آدمی کو وبال آتا ہے
۔۔۔
 
مندرجہ بالا اشعار کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا یقین کرنا پڑے گا کہ نظام الدّین سحرؔ کی شاعری عرفان وآگہی کی شاعری ہے ۔تشبیہات واستعارات ،رمز وکنایے اور شعری صنعتیں اپنے اپنے انداز میں شاعری میں جان ڈال دیتی ہیں ۔سحر ؔکی غزلوں اور نظموں میں کسی حد تک ان تمام شعری زیورات کا التزام کہیں نہ کہیں ضرور نظر آتا ہے ۔انھوں نے شعری زبان اور بالخصوص مناسب لفظیات کو استعمال کرنے کی شعوری کوشش کی ہے۔ شاعری میں وزن وبحور اور آہنگ یہ تمام باتیں لازمی اور بنیادی ہیں ۔شاعری کی باریکیاں جاننا ایک شعری ذوق رکھنے والے شخص کے لیے نہایت ضروری ہے ۔خیال کو جب تک صحیح اور مناسب بلکہ پُر لطف انداز بیان نہیں ملتا تب تک کوئی بھی فن پارہ معراج کمال کو نہیں پہنچ سکتا۔نظام الدّین سحرؔ کو اللہ جنت نصیب کرے ۔انھوں نے محنت ولگن اور ذوق وشوق سے ’’صداے سحر‘‘دی ہے جو انشااللہ ریاست کے شعری حلقوں میں شوق سے سنی جائے گی۔
۔۔۔۔تمام شد۔۔۔۔
 
رابطہ؛9419336120
اسسٹنٹ پروفیسر شعبئہ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

کپواڑہ میں حزب کمانڈر کی جائیداد قرق: پولیس
تازہ ترین
صدرِ جمہوریہ نے لداخ ایل جی کو ’گروپ اے‘سول سروس عہدوں پرتقرری کا اختیار دیا چیف سیکرٹری اور ڈی جی پی کی تقرری کے لیے مرکزی حکومت کی منظوری بدستور لازمی
تازہ ترین
پونچھ ضلع جیل میں جھگڑے میں  قیدی زخمی
پیر پنچال
جموں و کشمیر میں موسلا دھار بارشیں، محکمہ موسمیات نے الرٹ جاری کیا
تازہ ترین

Related

ادب نامافسانے

ابرار کی آنکھیں کھل گئیں افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

جب نَفَس تھم جائے افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

یہ تیرا گھر یہ میرا گھر کہانی

June 28, 2025

ایک کہانی بلا عنوان افسانہ

June 28, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?