ہر گزرتے لمحے کے ساتھ انتظار کی گھڑیاں بڑھتی جا رہی تھی۔دن بہ دن طاہر کی زندگی میں طوفان کی کیفیت برپا ہوتی جارہی تھی۔طاہر کئی مہینوں سے الفت کی ایک دید کو ترس رہا تھا۔ دونوں آپس میں ہم جماعت تھے اور سرمائی تعطیلات میں ان کو ایک دوسرے سے دور ہونا پڑا اور یہ دوری جیسے اب طول پکڑتی جارہی تھی۔ طاہر الفت سے بے انتہا محبت کرتا تھا اور اسے ہر پل الفت کی کمی شدت کے ساتھ محسوس ہو رہی تھی لیکن نہ جانے کیوں الفت کی محبت میں اسے کمی محسوس ہونے لگی تھی کئی مہینوں سے نہ ملے تھے اور نہ کھبی بات ہوئی تھی۔ انتظار کا عالم تھا کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ رفتہ رفتہ ہجر کی گھڑیاں اُسے اندر ہی اندر ڈسنے لگیں۔ وہ من ہی من میں سوچ رہا تھا کہ کب یہ ایام فراق گزر جائیں اور الفت سے ملنے کا موقع ملے۔ اب اسکے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔ آج الفت کی یاد اسے بہت بے چین کر گئی اور اس نے بنا سوچے سمجھے فون نکال کر ڈرتے ڈرتے الفت کا نمبر ڈائل کیا۔ فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ وہ ڈر گیا اور فون کاٹ دیا۔ وہ الفت کی یادوں کے سمندر میں غوطے لگانے لگا۔ وہ ابھی یادوں کے سمندر میں غوطے ہی لگا رہا تھا کہ فون کی گھنٹی نے اسے چونکا دیا۔ وہ سنبھلا اور فون ہاتھ میں لیا۔ الفت کا نام سکرین پر عیاں تھا۔ اسکی خوشی کی انتہا نہ رہی۔۔اور جلدی سے فون اٹھایا۔ طاہر بات کرتا کہ اس سے پہلے ہی وہاں سے آہ وزاری اور ماتم کی آوازیں آنے لگی۔ وہ ڈر گیا اور آوازیں دینے لگا۔
" ہیلو۔۔ کون ہے۔۔ کیا ہوا۔۔۔ ہیلو۔۔۔ہیلو"
کچھ دیر اسی طرح رہا۔۔ پھر سسکیوں اور آہوں بھرے لہجے میں کسی نے پوچھا۔۔" آپ کون اور کس سے بات کرنی ہے "
طاہر نے جواب دیا۔ " میں طاہر ہوں۔۔ الفت ہے کیا؟"
طاہر نے ابھی بات پوری ہی کی تھی کہ سسکیاں نالوں میں بدل گئیں اور جواب ملا۔۔۔
" الفت اب اس دنیا میں نہیں مل سکتی "
اور فون کٹ گیا۔۔ طاہر ہکا بکا رہ گیا اور کچھ دیر عجب کشمکش میں رہنے کے بعد بے ہوش ہوگیا۔۔ اور الفت کی تصویر فون کی سکرین پر اسے دیکھتی رہی۔۔
بارہمولہ ،شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی
موبائل نمبر؛9622587348