یہ اکیسویں صدی کی جہالت کاطرہ امتیازہے کہ آج بھی کرہ ارضی پر کئی ایسے خطہ ہائے جات پائے جاتے ہیں کہ ماضی بعیدکی طرح جہاں ابوجہل جیسے ظالم وجابرحکمرانوں کے ہاتھوں خواتین کی جان ومال ،عزت وآبروپامال ہے۔ حالانکہ یوم حقوق نسواں کے تحفظ کاڈھنڈوراخوب پیٹاجارہاہے ۔عالمی یوم خواتین کے حوالے سے پہلی عالمی کانفرنس میکسیکو میں 1975میں منعقد ہوئی، اس کانفرنس کے بعد دنیا کے مختلف ملکوں میں کانفرنسوں کا انعقاد عمل میں آیا، پھر 1977 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یہ بل پاس کیا کہ خواتین کا بین الاقوامی دن ہر سال 8 مارچ کو باقاعدہ طورپرمنایا جائے گا۔دسمبر1979 میں حقوق نسواں کے لیے ایک عالمی معاہدے کا مسودہ تیار کیا گیا،جس کا عنوان) Convention on the Elimination of Discrimination Against Women) رکھاگیا ۔ اس معاہدے میں لگ بھگ تیس دفعات ہیں، ان میں سے سولہ دفعات خواتین کے مختلف حقوق سے تعلق رکھتی ہیں۔تب سے تحریکِ حقوق ِنسواں، اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے ہر سال عورت پر جسمانی تشدد، نفسیاتی استحصال، غصب شدہ حقوق اور صنفی عصبیت کا نگر نگر واویلا کرتی ہے ۔فائیو اسٹارہوٹلوں میں پرتکلف سیمینارز کا انعقاد، کانفرنسوں،ٹی وی پروگرامزکے ٹاک شووز اور سمپوزیم میں بے نتیجہ مباحثے اور پھر سے ہر سال نئی قراردادوں کے لیے سفارشات اس عالمی دن کی لاحاصل روایات و رسومات اورمبہم توجہیہ کا حصہ ہیں۔ ایک بھانڈ نے دوسرے سے پوچھا کہ تمہاری تعلیم کتنی ہے؟ اس نے جواب دیا ''نو بوریاں، تیرہ توڑے … ہم بھانڈ کے پاس علم کی فراوانی سے بہت متاثر ہوئے یعنی اقوام متحدہ جوکہہ رہی ہے ہم مان لیتے ہیں کہ سب سچ ہے جبکہ صورتحال اسکے علی ٰالرغم ہے۔
سوال یہ ہے کہ جوعالمی ادارہ ،اقوام متحدہ ہمیں خواتین کے حقوق کی پاسداری کاسبق پڑھاتا ہے کیااس کے دل میں مسلم خواتین کے کرب کاکوئی احساس ہے ۔8مارچ کوحقوق نسواں کے حوالے سے سیمینارز، کانفرنسیں منعقدہوتی ہیں، قراردادیں، سفارشات پیش کی جاتی ہیںشرق وغرب خواتین کے حقوق کیلئے ایک ہی قسم کا شور برپاہوجاتاہے لیکن دنیامیں بے بس کشمیری ، فلسطینی ،افغانی ،مصری اورشامی خواتین کی درماندگی ،لاچارگی ،بے بسی،بدستوراپنی جگہ برقرارہے۔ان بے چاری معصوم خواتین کو پتہ ہی نہیں کہ ان کے حقوق کیلئے بھی کوئی دن متعین ہے۔اس صورتحال میں یہ سوال پھن پھیلائے کھڑاہوجاتاہے کہ آیایہ دن پھرکن عورتوں کے مفادات سے وابستہ ہے؟عالمی یوم خواتین کی مناسبت سے جہاں دنیا بھر میں خواتین کے حقوق اور ان کی حفاظت کیلئے اقدامات زیر بحث ہیں ،وہیں وادی کشمیر میں خواتین کے حقوق اور ان کے تحفظ کی بحث کجا ،یہاں پر جاری متشدد صورت حال میں خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں ۔صرف ایک برس کے عرصے میں ایک کمسن بچی سمیت8خواتین گولیوں کی زد میں آکر جاں بحق ہوئی ہیں اور اس سنگین انسانی معاملے پر ہر سو سرد مہری چھائی ہوئی ہے ۔مارچ 2017سے اب تک وادی میں جہاں70کے قریب عام شہری بندوق اور بارود کا نشانہ بن گئے وہی ان میں8خواتین بھی شامل ہے۔جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں اور پلوامہ کے علاوہ اسلام آباد میں7خواتین جبکہ سرحدی ضلع کپوارہ میں ایک 6سالہ کمسن بچی بندوق کا نشانہ بن کر لقمہ اجل بن گئی۔اس دوران درجنوں خواتین مختلف واقعات کے دوران زخمی بھی ہوئیں۔
کشمیرکی سرسبز وادی میںمسلمان خواتین کی آنکھوں کو اس دن کا انتظار ہے جب ان کے دورظلمت کا خاتمہ ہو گا، ان کی نہ ختم ہونے والی مشکلات رک جائیں گی؟ سوال یہ ہے کہ کیا ان کا انتظار کبھی ختم ہوگا یا ان کی زندگیاں ختم ہو جائیں گی اور وہ اندھیروں میں ڈوب جائیں گی، یاان کی پتھرائی آنکھیں بند ہو جائیں گی اور ان کا کوئی نشان نظر نہیں آئے گا۔یہ حالت ہے کشمیرکی مسلم خواتین کی بے چارگی کی۔ عالمی ادارے ان کی مرتی ہوئی آواز کو روزانہ سنتے ہیں اور ان کی آنکھوں کو اندھا ہوتے دیکھتے ہیں۔ روزانہ ان پر ڈھائے جانے مظالم سے چیخ وپکارکاشورسنتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ سلسلہ کبھی رُکے گا؟ کیا ان کے دکھوں کا مداوا ہو گا یا ہمیشہ کی طرح ان پر ظم کے پہاڑ ٹوٹتے رہیں گے؟ خواتین کے حقوق کے جھوٹے دعوے مسلمان خواتین کی نظروں میں محض لالچی سیاسی مصلحتوں کے سواکچھ اورنہیں۔ کیااقوام متحدہ کی اسمبلی یااسکے سیکورٹی کونسل کے اجلاسوں کے دوران امریکہ میں پابندسلاسل ڈاکٹرعافیہ کی حالت زارپر رحم نے انگڑائی لی ۔ سوال یہ ہے کہ اس دن ڈاکٹرعافیہ صدیقی کے حق میں عالمی سطح پرکوئی آوازاٹھ رہی ہے ۔ کیاعالمی میڈیا ان سانحات کا تجزیہ کرنے پر آمادہ ہے؟کیا ماہرین نفسیات، ماہرین سماجیات، دنیابھرکی نام نہاد سول سوسائیٹزاورنام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں خیمہ گاڑکرعافیہ صدیقی کے بشمول دنیابھرکی مظلوم اوربے بس خواتین کی رہائی کے لئے کوئی معتبراحتجاج کرتی نظرآرہی ہیں کہ جس سے ظالموں کے زرخاب خیمے پھٹ جاتے، بلاشبہ ہم نے آٹھ مارچ کوکبھی ایساہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔البتہ یہ ضروردیکھاہے کہ اس دن ڈنراورلنچ ،شراب وشباب ،ہنسی ومذاق کی محفلیں منعقدہوتی ہیں اورخوب کیف وسرورحاصل کیاجاتاہے ۔یہ عورتوں کی حالات بدپررحم کرنے کے لئے نہیں بلکہ یہ دراصل مسلمان عورت کومادرپدرآزاد تہذیب فراہم کرکے اس کو ایک کاروباری شو پیس بناکر پیش کئے جانے کاایک سوچاسمجھامنصوبہ ہے۔المیہ یہ ہے کہ مغرب جوسامنے لایا ہم مغرب کی اندھی تقلید کرکے اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیںحالانکہ اسے حزم و احتیاط لازم تھامگرکسے کہیں کون سمجھے؟
دراصل یہ ساری کہانی اس ایجنڈے کے گرد گھومتی ہے کہ جس کے تحت عورت کو آزادانہ روش اختیار کرنے کی ترغیب دلا کر اسے چراغ خانہ سے چراغ محفل بنایا جا چکا ہے۔آج کی عورت اپنے حقوق کی آواز بلند کر رہی ہے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس نے اسلام کی پناہ گاہ کو جھٹک کر اپنے آپ کو ذلیل اور ارزاں کر لیا ہے -تہذیبوں کی کشمکش نے اس کو ایک دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔عورت کی نسوانی حیا اور وقار کی توہین و تذلیل ۔عزت نفس کی پامالی ،جگہ جگہ مختلف اشتہارات کے ذریعے عورت کی رسوائی۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا آج کی عورت کو حقوق نسواںکے نام نہاد علمبردارعورت کے مقام اس کی عزت اوروقار تحفظ کے لئے کمربستہ ہیں یااس کی تذلیل ، تضحیک اورتمسخرکے لئے ۔یوم خواتین دراصل بے بس اورمظلوم خواتین کے حقوق کے لئے نہیں بلکہ مغربی تہذیب کا یہ فلسفہ کہ عورت کو گھر سے نکالو،آدھی آبادی گھر میں بیکار پڑی ہے اہل مغرب کی شاطرانہ پالیسی کاحصہ ہے -وہ مغرب اوروہ امریکہ کیاخاک جان سکے کہ عورت کامقام کیاہے جس میں یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ عورت محض جنسی ہوس اوراس قسم کے خواہشات کوپوراکرنے کے لئے پیداہوئی ہے ہر 2 منٹ کے بعد امریکا میں عورت جنسی حملہ کا شکار ہوتی ہے ہر چار میں سے 3 خاندانوں کے جو افراد تشدد کا شکار ہیں وہ عورتیں ہیں۔مغرب کی غلاظت سے توبہ تائب ہوکر دنیائے مغرب سے تعلق رکھنے والی خواتین جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہورہی ہیںمغرب میں پلی بڑھی ان نومسلم پاکبازخواتین سے بڑھ کریہ کون سمجھ سکتاہے کہ حقیقی طورپر خواتین کے معاملے میںمغرب اندرسے کتناتاریک تر ہے جبکہ اسلام سراسر رحمت کا دین ہے۔مغرب کی نظر میں عورت کی آزادی کا یہ مطلب ہے کہ وہ کپڑے اتارکرمکمل برہنہ یا نیم برہنہ ہو کر سیاحتی مقامات ،بازاروں اورسڑکوں پر گھومے پھرے، آزادی کا حقیقی مفہوم یہ نہیں ہے، اسلام نے عورت کو مکمل آزادی عطا کی ہے اسے مکمل لباس کے ساتھ ساتھ حجاب اور پردہ عطاکرکے اس کے مقام کی اہمیت کادوبالاکردیا ہے ۔اس پس منظرمیں8مارچ کی مناسبت کے حوالے سے تجزیہ کریں تو مایوسی کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔اس دن کی مناسبت سے دنیابھرکے میڈیا خواتین پرہورہے ظلم وتشددکی رپورٹس شائع ہوتی ہیں جس سے پتہ چلتاہے کہ ہرریاست کہیں نہ کہیں خواتین پرہورہے جبرپرملوث ہے ۔
ہرسال 8 مارچ یوم خواتین کے موقع پر اپنوں کے ہاتھوں غیروں کے سپرد کی جانے والی امریکا کے مظالم کا شکار ڈاکٹر عافیہ اپنے اوپر ہونے والی بربریت پر نوحہ کناں ہے ۔واضح رہے مسلمان ممالک میں یہ پہلا واقعہ رونماہوا ہے کہ جب ایک مسلمان حاکم نے اپنی مملکت کی مسلمان بیٹی کوغیر مسلموں کے سپردکردی ہے ۔ برسر اقتدارآنے سے قبل اورپھرسریر اقتدارہونے کے ابتدائی چندہفتوں میں میاں نوازشریف نے ڈاکٹرعافیہ کی آزادی کے لئے بڑے مژدے سنائے اوراس سلسلے میںوزارت داخلہ کاکہناتھا کہ امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پاکستان لانے کے لیے وفاقی کابینہ امریکا کے ساتھ معاہدے کی منظوری دے چکی ہے۔ وزارت داخلہ کے حکام نے یہ بھی بتایاتھا کہ امریکا نے تین سال پہلے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کے ممکنہ امکانات تجویز کئے تھے۔امریکہ سے اس حوالے سے معاہدے کی بات بھی کی گئی تھی اوریہ بھی کہاگیا تھا کہ معاہدے پر دستخط کے تین ماہ بعد اس پر عملدرآمد شروع ہوگا۔لیکن اہل پاکستان کی آنکھیں تک رہی ہیں پرعافیہ کاکوئی پرسان حال نظرنہیں آرہااور ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی دلدوزصدائیں صدابصحراثابت ہورہی ہیں۔دنیا بھر میں8مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کے دوران اس بات کا تجدید عہدکیا جاتا ہے کہ خواتین کے حقوق کا تحفظ ہر صورت میں عمل میں لایا جائے گالیکن تمام عالمی ادارے پرڈاکٹرعافیہ سے صرف اس لئے کدرکھتے ہیں کہ جسے اپنے حکمرانوں نے ہی چھوڑدیاہواسکی بات کیا کرنی ہے ۔ اپنوں کے ہاتھوں غیروں کے سپرد کی جانے والی امریکا کے مظالم کا شکار ڈاکٹر عافیہ اپنے اوپر ہونے والی بربریت پر نوحہ کناں ہے ۔واضح رہے مسلمان ممالک میں یہ پہلا واقعہ رونماہوا ہے کہ جب ایک مسلمان حاکم نے اپنی مملکت کی مسلمان بیٹی کوغیر مسلموں کے سپردکردی ہے ۔ حالانکہ محمدبن قاسم صرف ایک عورت کی مظلومانہ فریادکی دادرسی کے لئے سمندرکاسینہ چیرکرہندکی سرزمین پرراجہ داہرسے نمٹنے کے لئے تشریف لائے تھے ۔البتہ مشرف کی دخترفروشی ایک ایساموضوع ہے کہ جس پردل خون کے آنسوں بہانے پرمجبورہے۔ ریاست میں یوم خواتین منانے والوں کو اگر واقعی کشمیر کی بیٹی آصفہ کا دکھ اور اس کے بے نوا والدین کا درد یاد آیا، اگر انہیں آصفہ کے ساتھ پہلے اجتماعی زیادتی کر نے والے اور بعد میں اسے قتل کر نے وردی پوشوںا ور ان کی پشت پر ایک ننگ انسانیت بیروکریٹ کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کر وانے کی توفیق ملی ، اگر وہ اعدائے انسانیت کواپنے کئے کی ایک سبق آموز سزا د لانے میں کا میاب ہو گئے ، اگر کنن پوش پورہ کی عفت مآب خواتین کی ساتھناقبال بیان سلوک کرانے والے فوجیوں کے خلاف قانونی کاروائی کروانے میں حقوق النساء پر تقریریں کرنے اور بیانات جاری کر نے والے عملی کاوشوں کے محاذ پر فیصلہ کن انداز میں کمر بستہ ہیں تو ان لوگوں کو مر حبا اور داد ملنی چاہیے کیونکہ یہ کام سر انجام دینے سے ہی یہ افراد اور ادارے خواتین کی عزت وتکریم کر نے و الا قرار پا سکتے ہیں اور یوم خواتین کے تقاضوں پر پورا اُترنے والے کہلاسکتے ہیں لیکن اگر خدا نخواستہ حقیقت حال اس کے علی الر غم ہو تو یہ لوگ چاہیے اپنی منافقت کو خالی خولی نعروں اور خوش نما وعددں کی جھوٹی جنت میں کتنا بھی چھپا دیں، بہر حال ان کی تمام کاوشیں رائیگاں جائیں گی اور تاریخ انہیں ہمیشہ دھتکارے گی ۔ وادی ٔ کشمیر گزشتہ اٹھائیس برس سے سماج کے تام طبقات کو ناگفتہ بہ حالات کا سامنا رہا، ان کو ہر طرح سے حالات کی سولی پر چڑھایا گیا، یہاں کے پیروجوان کے ساتھ انتہائی اذیت ناک سلوک روا رکھا گیا لیکن کشمیر کی عصری تاریخ کایہ سیاہ باب ہمیشہ ہمیش انسانی ضمیروں کوجھنجوڑتارہے گا کہ کشمیر کی بیتوں کو نامساعد حالات کی مار کچھ زیادہ ہی تیکھے انداز میں بھگتنا پڑی، ان کی کریک ڈاؤنوں کے بہانے عزت پامال کی گئی ، انہیں سرراہ قتل کیا گیا ،ان کی چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا گیا ، ان کے بیٹوں ، بھائیوں ، باپوں اور خاوندوں کو زیر حراست غائب کر کے ہر ممکن طریقے سے ستایاگیا ، انہیں بیوگی اور نیم بیوگی کے داغ سہنا پڑے ، انہیں اسیری کے جاں گسل مراحل سے گزرنا پڑا ، انہیں اپنے بھائیوں اور بیٹی بیٹیوں کا جنازے اٹھتے دیکھنا پڑے ،انہیں اپنے آشیانوں کو جلتے ہوئے دیکھنا پڑا، غرض وہ کون سی تکلیف اور اذیت ہے جس کا مز انہیں نہ چھکنا پڑا ، لیخنا نہوں نے ان تمام سنگین صورت حال کا مقابلہ مردانہ وار کر کے عظیم المرتبت اور نابغہ ٔ روزگاراخواتین ا سلام کی یادیں تازہ کیں ۔ ۸ مارچ کے دن اگر بہ حیثیت مجموعی ہم نے اپنے اپنے دائرہ اثر میں کشمیر کی مایہ ناز بیٹیوں کے کردار کو یاد کر کے ان کے تئیں واقعی عقیدتوں کا خراج پیش کرنے کا حق اداکیا تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ریاست میں خواتین کا عزت واحترام ایک مسلمہ حقیقت ہے، لیکن اگر بات اس کے برخلاف ہو توخواتین کے حقو ق کے بارے میں دھوئیں دارتقریروںا ور لفاطیت سے عبارت بیانوں کی بھرمار سے یہی اخذ ہوگا کہ یوم خواتین کے نام پر کشمیر کی ماں بہن بیٹی کے ساتھ ایک کڑواا مذاق کیا گیا اور بس ۔