ڈاکٹر عبدلاحد گورو 24 نومبر1939 ء کو دوآبگاہ سوپور کے حاجی عبدلستار کے ہاں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی گورو صاحب کافی ذہین تھے اور اس کا یہ ثبوت ہے انہوں نے ہونہارڈاکٹر بن کے دکھایا۔ انہوں نے اپنی ذہانت کا لوہا بین لاقوامی سطح پر بھی منوایا۔گورو صاحب نامور جراح کے ساتھ ساتھ حقوق ا لبشر کے علمبردار بھی تھے۔ انہوں نے مسلح جدوجہد شروع ہوتے ہیوادی میں ہو رہیں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کو اقوام عالم تک پہنچایا۔ جیمز بیکر نے 1991 ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو کشمیریوں پر ہو رہی زیادتیوں سے آگاہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ بیکر کو یہ سارا مواد گورو صاحب نے ہی فراہم کیا تھا۔ گورو صاحب اس کے علاوہ جے کے ایل ایف سے بھی وابستہ تھے۔ ان کے قریبی واقف کاروں کا ماننا ہے کہ وہ جے کے ایل ایف کی سپریم کونسل کے ممبر تھے۔ گورو صاحب کی ان سرگرمیوں نے انہیں حکام خاص کر پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کا ہدف بنادیا۔ڈاکٹر فاروق عشائی کی شہادت کے فوراً بعد ان کو کچھ دیر کے لئے ہجرت کرنے کا مشورہ دیا گیا لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے صاف انکار کیا۔ ان کے مطابق یہ ہجرت نہیں بلکہ فرار ہوگا۔ الغرض عشائی صاحب کی شہادت نے گورو صاحب کے ارادوں کو اور بھی مضبوط کیا ۔ وہ آخری دم تک اپنا کام کرتے رہے۔ خفیہ ایجنسیوں نے ان کی تحریک نوازی کو مشکوک بنانے کی کوشش بھی کی لیکن گورو صاحب نے جھکنے کے بجائے کٹنے کو ترجیح دی ۔
31 مارچ 1993ء کی دوپہر کو گورو صاحب اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ صورہ ہسپتال سے نکلے۔ کچھ ہی دیر بعد ان کی گاڑی کو ایک آدمی نے جس نے رنگ دار چشمہ پہنا تھا، روکا۔ گورو صاحب نے اس آدمی کو اپنی گاڑی میں بٹھانے سے صاف انکار کردیا لیکن کافی حجت کے بعد وہ اگلی سیٹ پر بیٹھا۔ اس دوران اس کا دوسرا ساتھی پچھلی سیٹ پر جا دھمکا۔گا ڑی چلی لیکن گورو صاحب نے ڈرائیور کو نو شہرہ کے قریب رُکنے کو کہا۔ اگلی سیٹ پر بیٹھا آدمی اس پر غصے سے جیسے پاگل ہوگیا ۔ وہ گا ڑی کو اور آگے لے جانا چاہتا تھا۔ وہ گورو صاحب کو کچھ مریضوں کا معاینہ کرنے کے بہانے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے مسلسل انکار کے بعد اس نے بندوق نکالی اور گورو صاحب کو ساتھ آنے کو کہا۔ آخر وہ ان کے ساتھ جانے کو مجبور ہوگئے۔ ایک گلی میں گاڑی کو روکا گیا اور گوروصاحب کو ایک آٹو میں بٹھا کر اغواء کیا گیا۔ اغوا ء کاروں نے گورو صاحب کے سہمے ساتھیوں سے کہا کہ وہ یعنی گورو صاحب دس یا پندرہ منٹ میں لوٹ کر آیں گے۔ انہوں نے گھنٹوں انتظار کیا لیکن گورو صاحب نہ آئے۔ اگلی صبح گورو صاحب کو صورہ کے قریب مردہ حالت میں دیکھا گیا۔ ان کے جلوس جنازہ میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی لیکن اپنی رہائش گاہ کے باہر پولیس نے جلوس کو روکا اور گولی چلائی جس سے گورو صاحب کے برادر نسبتی شہید ہوئے۔ گورو صاحب کو مزار شہدا میں سپرد خاک کیا گیا۔
جے کے ایل ایک کے سربراہ یٰسین ملک کے مطابق گورو صاحب بھارتی جمہوریت کو بے نقاب کرنے کے علاوہ وہ اس پرپگنڈے کی نفی بھی کرتے تھے کہ موجودہ تحریک بے روزگار اور چند سرفرے جوانوں کی کارستانی ہے۔ گورو صاحب کے قاتل شاید کبھی بے نقا ب نہ ہوتے اگر وجاہت حبیب اللہ اپنی کتاب میں اس قتل کا راز فاش نہ کرتے۔ انکے مطابق گورو صاحب حکام کی آنکھوں میں کٹھکتے تھے۔ چناچہ زلقرنین نامی بندوق بردار کو رہا کیا گیا جس نے 31مارچ 1993کو گورو صاحب کو اغوا کر کے قتل کردیا۔ وہ پولیس کو گورو صاحب کے قتل کا مزہدار مانتے ہیں۔ زلقرنین کو کچھ دن کی عیاشی کے بعد موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں
فون نمبر9419009648