ہمارا دل خون کو پمپ کر کے اسے چھوٹی چھوٹی رگوں کے ذریعے سارے جسم میں پہنچا دیتا ہے۔ خون کے دورہ سے رگوں پر ایک دباؤ بنا رہتا ہے جسے فشارِ خون یا بلڈ پریشر کہتے ہیں۔ہمارا دل ایک پل دھڑکتا ہے اور ایک پل آرام کرتا ہے جس کو ہم کسی کے سینے پر کان رکھ کر یا اپنا نبض دیکھ کر محسوس کر سکتے ہیں۔ بلڈ پیشر دو عددوں سے ناپا جاتا ہے۔ایک جب دل پمب کرکے صاف خون کو سارے جسم میں پہنچا دیتا ہے اور دوسرا جب دل آرام کرتا ہے او بدن سے آیا ہوا گندہ خون ہمارے دل میں چلا جاتا ہے۔خون کا پریشر سیماب پر چلنے والے ایک آلہ سے ناپا جاتا ہے جسے فشار پیما کہتے ہیں۔صحت مند انسانوں کا بلڈ پریشر ۸۰ ؍ ۱۲۰ یا اس سے کم ہوتا ہے۔لیکن اگر آرام کی صورت میں بلڈ پریشرلگاتار اور متواتر بُلند ہو تو اسے ہائی بلڈ پریشر یا ہائیپر ٹینشن کہتے ہیں۔ نومبر ۲۰۱۷ ء کو امریکن ہارٹ ایسوسیشن اور امریکن کالج آف کاڑیالجی کی طرف سے جاری ہونے والی ہدایات کے مطابق جوں ہی بلڈ پریشر ۸۰ ؍ ۱۳۰ سے تجاوز کرے تو اسے ہائی بلڈ پریشر ٹصوّر کرنا چاہئے۔یاد رہے کہ اس سے پہلے ۹۰؍۱۴۰ سےزیادہ پریشر کو ہائی بلڈ پریشر تصور کیا جاتا تھا۔ہائی بلڈ پریشر کی وجوہات ابھی پوری طرح سے معلوم نہیں البتہ سائنسدان اس پر شدومد سے تحقیق کر رہے ہیں۔
۹۰ سے ۹۵ فیصد مریضوں کے ہائی پریشر ہونے کی وجوہات نامعلوم ہوتی ہیں۔بلڈ پریشر زیادہ ہونے کی کوئی واضع علامات نہیںہوتیں۔ اسی لئے صحتمند لوگوں کوسال میں کم از کم ایک دو بار بلڈ پریشر چیک کرنا چاہئے۔خاص طور پر وہ لوگ جن کے والدین بلڈ پریشر کے مریض ہیں کیونکہ ہائی بلڈ پریشر مورثی ہے۔ کچھ لوگ اس بات سے بہت دیر تک غافل ہوتے ہیں کہ وہ ہائی بلڈ پریشر کے مریض ہیں۔ البتہ بلڈ پریشر کافی زیادہ ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ سرکا درد یا چکّر محسوس کرتے ہیںجبکہ کچھ لوگوں کی ناک سے خون بہتا ہے۔ہائی بلڈ پریشر کو ٹالنا اور اس کی طرف غور نہ کرنا صحت کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ہائی بلڈ پریشر کو ’’ خاموش قاتل‘ ‘بھی کہا جاتا ہے کیونکہ کسی بڑی علامت کے بغیر یہ بدن میںکئی خرابیاں پیدا کرتا ہے جن کی وجہ سے دل کا دورہ (ہارٹ اٹیک)، فالج (اسٹروک) ، گردوں کی بیماری وغیرہ ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔
اگر آپ کا بلڈ پریشر متواتر طور پر ذیادہ ہے اور ڈاکٹری تشخیص کے بعدآپ بلڈ پریشر کے مریض قرار پاتے ہیں تو اس میںپریشان ہونے کی نہیں بلکہ اس کو قابو میں رکھنے کیلئے تدابیر کرنے کی ضرورت ہے ۔بلڈ پریشر کے مریضوں کو جان لینا چاہئے کہ بلڈ پریشر ایک بار ہو جائے تو عمر بھر آپ کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔ البتہ ڈاکٹری مشوروں اور دوائیوں کے لگاتار استعمال سے اس مرض کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے اور صحت مندانہ زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ڈاکٹر عام طور پر بیٹا بلاکرز کو بطور دوا تجویز کرتے ہیں۔ دوائیوں کے استعمال سے پریشر قابو میں آتا ہے ٹھیک نہیں ہوتا۔جوں ہی آپ دوایئوں کا استعمال بند کریں گے آپ کا بلڈ پریشر پھر سے بلند ہوگا۔
بلڈ پریشر کو قابو میں رکھنے کے کئی طریقے ہیں۔ڈاکٹر کی طرف سے تجویز شدہ دوائی کو بنا کسی روکاوٹ کے زندگی بھر کھاتے رہنا چاہئے۔دوائی ترک کرنے سے آپ کی صحت پر صرف برا اثر پڑ سکتا ہے اور بلڈ پریشر کو مزیدابتر کر سکتا ہے۔ بلڈ پریشر کے مریضوں کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو ہمیشہ فعال اور سرگرم رکھیں۔ چہل قدمی ، دوڑنے، کھیل کود کرنے، تیراکی کرنے یا ورزش کرنے سے بلڈ پریشر میں واضع کمی ہوتی ہے۔صبح یا شام کو سیرپر نکلنے کو ایک عادت بنانا چاہئے۔چونکہ ہم بہت نمک کھانے والے لوگ ہیں اور زیادہ نمک کھانے سے بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے اس لئے چاہئے کہ غذا میں نمک کو کم کرنا چاہئے ۔ نمکین چائے کو ترک کر کے الوداع کہنا چاہئے۔تازہ پھلوں اور سلاد کو اپنے خوراک کا حصہ بنانا چاہئے۔دہی، کیلوں، انار، خوبانی، پالک اور سفید دالوں میں کافی پوٹیشم ہوتا ہے جس سے بلڈ پریشر میںکمی واقع ہوتی ہے۔ البتہ شلغم یا کوک و سوڈا سے پرہیز کرنا بہتر ہے کیونکہ ان میں سوڈیم کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جس سے بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے۔
زیادہ وذن ہونے سے بلڈ پریشر بھی ذیادہ ہو سکتا ہے۔اس لئے چاہئے کہ وزن کو کم کرنے کی کوشش کریں۔ چاول اور روغنی غذاؤں کو کم کرنے اور ورزش کرنے سے کافی حد تک وزن کو کم کیا جاسکتا ہے۔ البتہ فاقے دینا مطلوب نہیں ہے جس سے صحت پر بُرا اور منفی اثر پڑتا ہے۔
اسی طرح تمباکو یا سگریٹ نوشی سے بھی بلڈ پریشر میںاضافہ ہوتا ہے۔ہم نے اسی اخبار کے ان ہے کالموں میں سگریٹ نوشی کے صحت پر مضر اثرات کو تفصیلاً بیان کیا ہے۔ اس لئے تمباکو یا سگریٹ نوشی کو ترک کرنا چاہئے اور صحت مندانہ زندگی گزارنی چاہئے۔آج کل کی تیز ترین زندگی میںمسلسل ذہنی دباؤ یا پریشانی ایک معمول بن گیا ہے جو کہ بلڈ پریشر میں زیادتی کا ایک سبب ہے۔کوشش کرنی چاہئے کہ پریشان کرنے والی چیزوں سے دور رہیں۔خوش رہنا چاہئے۔اللہ تعالیٰ نے جو دیا ہے اس پر مطمئن رہنا چاہئے۔دنیوی چیزوں کو چند لمحوں کیلئے بھلا کر ذکر خداوندی میں مشغول ہونا چاہئے۔اس سے ذہنی پریشانیوں میں کمی آتی ہے۔
مختصراً یہ کہ بیس سال کی عمر کے بعد ہی بلڈ پریشر چک کرتے رہنا چاہئے اور اگر آپ بلڈ پریشر کے مریض ہیں تو دوائیوں کے ساتھ ساتھ اپنی طرز زندگی اور معمولات میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔
نوٹ: مضمون نگار ریسرچ کے سلسلے میں امر یکہ میں مقیم ہیں۔
(مضمون نگارکشمیر یونورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں اور آج کل امریکہ کی ایک یونورسٹی میںایک محقق ہیں۔ان کا ای میل [email protected] ہے۔)