بک سٹالوں اور ریلوے ا سٹیشنوں پر جس طرح کا مک بکس(Comic Books) اور جوک بکس(Joke Books) چٹکلوں اور لطیفوں کے مجموعے بچوں اور بڑوں کو یکساں طو ر پر ہنسانے، اُن کی تفنن طبع کے لئے وافر مقدار میں اور تین زبانوں(انگریزی ، اردو اور ہندی) میں دستیاب ہوتے ہیں، اسی طرح ایک زمانے میں دیگر کتابوں اور قصہ کہانیوں کے ہمراہ شیخ چلی کی کہانیاں، شیخ چلی کے لطیفے وغیرہ عنوانات کے تحت کتابیں بازار میں بکا کرتی تھیں۔ موجودہ وقتوں میں اگر چہ مذکورہ کتب بازار میںنظر سے نہیں گذرتیں کیونکہ مذاق اور مزاج بدل گئے اور ٹیسٹ(Taste) تبدیل ہوگیا ہے مگر شیخ چلی سے متعلق کچھ کہانیاں اور چٹکلے بڑی عمر کے لوگ آج بھی کبھی کبھی بچوں کو بہلانے کیلئے اور اپنی عمر رفتہ کو آواز دینے کے لئے سناتے رہتے ہیں۔ شیخ چلی سے متعلق ایک کہاوت یہ بھی ہے کہ وہ ایک بار کسی درخت کی اُسی شاخ کو کاٹ رہا تھا جس پر وہ خود کھڑا تھا۔ وہاں سے ایک راہ گیر کا گذر ہوا تو اُس نے یہ احمقانہ صورت حال دیکھ کر شیخ چلی کو خبرد ار کیا: بھٔی! اُسی شاخ کو کاٹ رہے ہو جس پر خود کھڑے ہو۔ شاخ کٹتے ہی تم نیچے گر جائو گے۔ جب اُس نے کوئی توجہ نہیں کی تو راہ گیر اپنے رستے پر ہولیا۔ ابھی وہ چند قدم ہی چلا تھا کہ پیچھے سے شیخ چلی دوڑتا، ہانپتا پہنچ گیا اور اُس شخص سے کہنے لگا تم جانتے تھے کہ میں گرنے والا ہوں، اس لئے تم کو غیب کی باتیں معلوم ہیں،مجھے بھی میرے سوالوں کا جواب چاہئے۔ وہ شخص حیران ہر گیا اور شیخ چلیؔ کی عقلی سطح کو سمجھ گیا ۔ اُس نے مقدور بھر شیخ چلی کو سمجھایا :’’اس میں غیب والا کوئی معاملہ نہیں بلکہ یہ عقل او ر سمجھ کی بات ہے‘‘۔ جو بدقسمتی سے شیخ چلی کے پاس نہیں تھی۔ بقول ذوقؔ۔ع
کتنا طوطے کو پڑھایا پروہ حیواں ہی رہا
یقین مانئے اسی طرح بلکہ ایسا ہی شیخ چلیؔ ہر باشندہ ٔ کشمیر نے، یعنی ہم سب نے، اپنے آپ کو ثابت کر دیا ۔ اچھی اور بُری بات میں، صحیح اور غلط میں ہم تمیز نہیں کرتے۔ سمجھانے پر سمجھتے نہیں ہیں اور خود غرض بلکہ من موجی بن کر اُسی شاخ کو کاٹنے لگے ہیں جس پر خود ہمارے پائوں دھر ے ہوں۔ اس ’’ اپنے پائوں پر خود کلہاڑی مارنے‘‘ کے ضمن میں کچھ اشارے دوں گا ۔ شاید۔۔۔۔ ع
شایدکہ میرے ہم وطن کے دل پر اثر کر جائے میری بات
آپ اُن تمام زیادتیوں سے واقف ہیں جو ہم سب سے سرزد ہوتی رہی ہیں بلکہ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہ ہوگا کہ ہم نے اپنے آپ کو شیخ چلیؔ کا باپ ثابت کر دیا ہے ہم واقعی بلا کسی وہم اور شک و تردد کے اُن شاخ تراشوں میں سے ہیں جو اُسی ڈالی کو کاٹتے ہیں جس پر خود کھڑے ہوتے ہیں۔ ویسے ماشااللہ آپ خود سمجھ دار ہیں، میں صرف توجہ دلانے کی کوشش کروں گا۔ اگر آپ ذاتی طور پر، انفرادی یا اجتماعی حیثیت میں خود بھی کسی نہ کسی صورت میں ملوث ہیں یا اُس حدث کا صرف ایک حصہ ہیں تو بھی میری یاد دہانی سے یا میری گذارشات سے مجھے یقین ہے کہ آپ کے کانوں پر جوں تک نہ رینگے گی، کیونکہ بدقسمتی سے ہم سب کو مجموعی طور پر یعنی من حیث قوم ِصمؔعم بکم ہو گیا ہے۔ اب اس کا کیا علاج ہے؟
اب اسی بات کو لے لیجئے کہ ڈل جھیل بحیثیت ایک کشمیری ہمارے لئے کیا حیثیت و وقعت رکھتا تھا۔ اُس کا صاف و شفاف حیات بخش پانی نہ صرف پرندے، ڈھورڈ نگر بلکہ سب سے زیادہ انسان ہی استعمال کرتے تھے۔ گائوں دیہات اور قصبوں کے لوگ ندی، نالوں اور خاص کر چشموں کا پانی استعمال کیا کرتے تھے۔ ویسے شہر سرینگر میں بھی سن1892 ء تک پانی کے نلوںکا دستور نہیں تھا۔ ڈل نہ صرف شہر کو پینے، نہانے، دھونے کیلئے پانی فراہم کرتا تھا بلکہ باغوں، کھیتوں، کچن گارڈنوں اور لانوں کیلئے بھی پانی فراہم کرتا تھا۔ اسی ڈل سے جانوروں کیلئے چارہ اور انسان کیلئے طرح طرح کی سبزی ترکاری اور مچھلی مرغابی بھی دستیاب ہوتی تھی ۔ کشمیری دسترخواں کا ایک مرغوب سالن، ہر ایک کا من پسندآیوڈین سے پھر پور ندرو کے ساتھ ساتھ کئی اوشدھیاں بھی اُدھر سے نکلتی تھیں۔ اس جھیل کی افادیت و اہمیت کو ہم نے کبھی نہیں جانا۔
یہ ڈل مانجھیوں کو روزگار، مچھیرں کو روزی، کام گاروں کو کام، مزدورں کو مزدوری، شکاریوں کو گیم، سیاحوں کو تفریح، عاشقوں کو اطمینان، معشوتوں کو صبر، زاہدوں کو عجز، عابدوں کو عرفان، شاعروں کو خیال، ادیبوں کو مضمون، موسیقاروں کو تان، گائیکوں کو ساز، دل جلوں کو سوز، چترکاروں کو کنواس، دست کاروں کو ڈیزاین، سنگتراشوں کو جلاّ، ماہر تعمیرات کو خطوط، کاشت کا روں کو تحریک، پھیری والوں کو خریدار، ہوس بوٹوں کو رونق، پھول والوں کو قدردان،گلزاروں کو رعنائی بیماروں کو دوا، پیاسوں کو پانی، پکھیشوں کو غذا، پن ڈوبیوں کو شکار، مہجوروں کو قرار، لہروں کو روانی، موجوں کو وقار، کنولوں کو رنگینی اور بنت ڈل کو لالی دیتا تھا مگر۔۔۔۔
مگر ہم نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ جتنا بھی نہانے ، دھونے کا مستعمل پانی،گندگی غلاظت، کوڑا کرکٹ ، اس کے آس پاس گھروں، ہوٹلوں اور ہائوس بوٹوں سے نکلتا ہے، اسے تلف نہیں کیا جاتا، جلایا نہیں جاتا، کسی گڈھے میں نہیں ڈالا جاتا بلکہ ڈل کے مظلوم سینے پر ہی تھوپ دیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ڈل کو طرح طرح کی بیماریاں لگی ہیں اور پانی ناقابل استعمال اور زہر یلا ہو کے رہ گیا ہے۔ گر چہ اس کی عظمت ِرفتہ بحال کرنے اور اسے صاف و شفاف رکھنے کی جان توڑ کوششیں کی گئیں مگر اس کے موجودہ حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ حالانکہ ریاستی حکومت نے بلکہ مرکزی حکومت نے بھی اس کے دوا دارو اور علاج ومعالجہ کیلئے سابقہ بیس برسوںمیں ہزاروں لاکھوں نہیںبلکہ کروڑوں اربوں روپے مختص کئے مگر اس کا کچھ بھی مداوا نہ ہوسکا کیونکہ زیادہ تر رقومات جھیل کے نیولے ہڑپ کر گئے۔ اس پر جو کچھ صرف ہوا وہ اکارت گیا۔ اگر بددیانت لوگ اس کی بحالی اور تحفظ میں ذر اسا بھی دلچسپی لیتے تو کچھ نہ کچھ مداوا ضرور ہو چکا ہوتا مگر انہوں نے وہی کیا جو میں ابتداء میں عرض کر چکا ہوں، یعنی اُسی ٹہنی کو کاٹ ڈالا جس کا سہارا وہ لئے ہوئے تھے۔ افسوس۔۔۔۔ افسوس۔۔۔ افسوس۔۔۔ہم نے وراثت ِ آب کی قدر نہ کی۔ وراثت ہی نہیں بلکہ اُس ثمر دار درخت کی جڑیں کھوکھلی کر دیں جو ایک نہیں انیک طرح کے پھل ہماری جھولی میں ڈالتا تھا۔ یہ نامعلوم تاریخ کی پُر کھوں کی جائیداد ہم نے اپنی لمحاتی آسائش یالالچ کی پوجا میں چند پیسوں کی خاطر بہت سستے میں فروخت کر ڈالی۔ افسوس صدا فسوس!
(باقی آئندہ ان شاء اللہ )
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995