انسانی جانوں کا زیاں بن رہی نستہ چھن گلی پر ٹنل کی تعمیر کا معاملہ ہر گزرتے وقت کے ساتھ طول پکڑتا جا رہا ہے اور گذشتہ ماہ اس درے پر پیش آئے دلدوز حادثہ میں جب کرناہ کے دس افراد برفانی تودے کی زد میں آئے اُس کے بعد سے علاقے میں ہر ہفتے لوگ سڑکوں پر ہوتے ہیں صرف یہی مطالبہ ہے کہ علاقے کو پورے سال آواجاہی کیلئے کھلا رکھنے اور حادثات کی روکتھام کیلئے چھوٹی سی ٹنل تعمیر کی جائے لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک ایسے دورمیں جب پہاڑوں اوردروں کو چیر پھاڑ کر ہر گائوںاورعلاقے تک سڑک رابطے قائم کئے جاچکے ہیں ، وہیںکرناہ کے لوگوں کو بقیہ دنیا تک پہنچنے کیلئے زندگی کی جنگ لڑناپڑتی ہے ۔ کچھ اس جنگ میں ہار جاتے ہیں تو کچھ کامیابی حاصل کرلیتے ہیں ۔ کرناہ کی عوام کو اس بات کا بہت ہی افسوس ہے کہ اگر پوری دنیا میں انسانی قربانی دینے پر پابندی عائدہے توانہیں کیونکر ہر سال قربانی کے دشوار گزار مراحل سے گزرناپڑتاہے ۔ایسا کوئی سال نہیں گزرتا جب سردیوں میں نستہ چھن گلی پر کوئی نہ کوئی انسان برفانی تودے کی زد میں آکر اپنی جان نہ گنوادیتا ہوجب کہ موسم گرما میں بھی یہاں سڑک حادثات رونما ہوتے ہی رہتے ہیں ۔ اہالیان کرناہ کی طرف سے دی جارہی قربانیوں کی چیخ و پکار سننے والا کوئی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہر نئے سال انہیں نئی قربانی دیناپڑتی ہے ۔ علاقے کے لوگوں کی دہائیوںسے یہ مانگ رہی ہے کہ نستہ چھن گلی پر ایک ٹنل تعمیر کیا جائے تاکہ نہ صرف کرناہ کے لوگ ہر موسم میں اپنے گھر آجاسکیں بلکہ ان کا یہ سفر بغیرخوف و خطر انجام کو بھی پہنچے تاہم حکمرانوں نے آج تک اس طرف کوئی توجہ نہیں دی اور کرناہ کے لوگ قربانیاں دیتے ہی جارہے ہیں ،لیکن اب کرناہ میں شروع ہوئی عوامی لہر نے سرکار کی نیندیں بھی حرام کر دی کیونکہ علاقے کے مردزن اور بچے سڑکوں پر ہیں وہیں سرکار اورحزب اقتداد میں بیٹھے مقامی لیڈران کی نیندیں بھی حرام ہو چکی ہیں مقامی لیڈران نے اگرچہ جموں میں منعقد ہوئے حالیہ بجٹ اجلاس کے دوران اسمبلی کے اندر اور باہر احتجاج کیا وہیں سرکار نے اُنہیں یقین بھی دلایا کہ کرنا ہ کپوارہ شاہراہ پر ٹنل کی تعمیر کا معاملہ مرکزی سرکار کے ساتھ زور وشور کے ساتھ آٹھایا جائے گا۔ مقامی لیڈران نے اس دوران جہاں اس مطالبہ کو لیکر دلی جانے کا فیصلہ کر لیا ہے وہیں مقامی لوگ کہتے ہیں ہم نے بہت سی قربانیاں دے دی ہیں اگر ہندستان کے ساتھ رہنے کا انہیں صلاح قربانیاں دینا ہے تو وہ اب اس کیلئے تیار نہیں ہیں ،جہاں علاقے کی سیول سوسائٹی اور مقامی لیڈران 1947کی تقسیم کو غلط قرار دے کر یہ کہتے ہیں کہ اگر اُس وقت یہ تقسیم نہ ہوئی ہوتی تو ہم نہ کٹ جاتے اور نہ روزانہ مرتے آج بھی جب سردیوں کے موسم میں کرناہ کی 80ہزار آبادی پوری دنیا سے کئی کئی ماہ کیلئے کٹ کر رہ جاتی ہے۔ اس دوران لوگوں کو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ علاقے کے بیمار طبی سہولیات نہ ملنے کی وجہ سے ایڑھیا ں رگڑ رگڑ کر ہسپتال میں دم توڑ دیتے ہیں۔بیماروں کو سرینگر نہیں پہنچایاجا سکتا ہے اور نہ ہی طلباء امتحانات دینے کیلئے وادی پہنچ سکتے ہیں جس کے نتیجہ میں ان کامستقبل مخدوش بن جاتاہے ۔علاقے میں اشیائے خوردونوش کی شدید قلت پیدا ہو جاتی ہے جبکہ دیگر ضروریات زندگی بھی دستیاب نہیں رہتی۔ایسے حالات میں لوگوں کوبعض اوقات مجبوراًزندگی سے کھیل کر پیدل سفر کرناپڑجاتاہے اور اسی دوران کئی لوگ یہ جنگ ہار جاتے ہیں تو کئی کٹھن مراحل سے گزرنے کے بعد اپنی منزل پالیتے ہیں ۔سردیوں کے ایام میں کرناہ کی عوام کی مشکلات ان گنت ہوتی ہیں تاہم ان کا پرسان حال کوئی نہیں ہوتا۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ تقسیم سے قبل آر پار لوگ آیا جایا کرتے تھے جب کرناہ کپوارہ شاہراہ سردیوں میں گاڑیوں کی آمد ورفت کیلئے بند ہو جاتی تھی تو لوگ تجارت کرنے اور اپنے لئے اشیاء خردنوش مظفرآباد سے لاتے تھے ،لوگوں کو ایک راستہ بند ہونے سے دوسرا راستہ کھلا رہنے کی اُمید سی رہتی تھی لیکن 47کے بعد جہاں علاقے کی اقتصادی پوزیشن کمزور ہو گئی وہیں لوگ بھی گھروں میں گھٹ گھٹ کر مر رہے تھے۔ایسا ہ نہیں بلکہ کرناہ کپوارہ خونین شاہراہ پر ہر ماہ ہونے والے حادثات نے بھی لوگوں کے جزبات کو مجرو کر دیا ہے۔جنوری 2018میں اس خونین شاہراہ پر 10شہریوں کے برفانی تودوں کی زد میں آکر ہلاک ہونے کے بعد علاقے میں ابھی تک 10احتجاج ہوئے ہیں جبکہ کئی ایک لوگوں نے سرحد پر پہنچ کر بھی اس ٹنل کا مطالبہ بھارت کی سرکار سے کیا اور نعرہ بازی بھی کی لوگ کہتے ہیں کہ کرناہ کا عوام صرف بھارت ملک سے ایک ہی مطالبہ کر رہا ہے کہ اُن کیلئے ایک چھوڑی سی ٹنل تعمیر کی جائے کیونکہ اتنے بڑے ملک کیلئے ٹنل تعمیر کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔ مقامی لوگوں کا یہ پرزور مطالبہ ہے کہ نستہ چھن پر ٹنل تعمیر کرنے سے نہ صرف ڈفنس کو فائدہ ہو گا بلکہ 1947سے اس سے متاثر ہوئے لوگوں کو اس کا فائدہ ہو گا ۔واضح رہے کہ کرناہ کی ایک طرف پاکستان کی سرحد ہے اور دوسری طرف خونین نستہ چھن گلی اور یہی گلی ہمیں وادی کے ساتھ ملاتی ہے لیکن 1947کے بعد سے آب تک اس گلی پرہر سال 10سے 20لوگ یا تو حادثات کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں یا پھر برف کے نتیجے دب جاتے ہیں ۔ 1996سے لے کر اب تک کے جتنے بھی انتخابات ہوئے ، چاہے وہ پارلیمنٹ ہوں یا پھر اسمبلی الیکشن ،ہر ایک سیاسی جماعت نے کرناہ کے لوگوں سے وعدہ کیاکہ حکومت بننے کے بعد وادی کے ساتھ رابطہ آسان بنانے کے لئے 12ہزار فٹ بلندی پر واقع نستہ چھن گلی پر ٹنل تعمیر کی جائے گی مگر حکومت قائم ہونے کے ساتھ ہی تمام جماعتیں اپنے اس وعدے کو ایسے بھول جاتی ہیں جیسے انہیں پھر سے کرناہ کا منہ کبھی دیکھنا ہی نہیں پڑے گا۔تشویش ناک امرہے کہ گذشتہ کئی برسوں کے دوران اس نستہ چھن کے درے پر سینکڑوں لوگ سڑک حادثات اور برفانی تودوں کی زد میں آکر اپنی جانیں گنوابیٹھے ہیں۔ اگر نستہ چھن پر ٹنل کی تعمیرکاخوا ب شرمندہ تعبیر ہوجائے تواس سے علاقے کا فاصلہ بھی ضلع ہیڈکوارٹر سے بہت کم رہ جائے گا اور پھر انسانی جانوں کاضیاں ہونے سے بھی بچ جائے گا۔کرناہ سے تعلق رکھنے والے کئی ایک لوگ جو اس درے پر اپنی جانوں کو گنوا بیٹھے ہیں، کی کہانی سن کر آنسو نکل آتے ہیں۔5جنوری 2018کو علاقے کے دس افراد اس شاہراہ پر برفانی تودے کی زد میں آکر ہلاک ہو گے یہ لوگ کپوارہ سے اپنے گھر جا رہے تھے ہلاک ہونے والوں میں شکیلہ بیگم زوجہ عبدالرحیم پرے ساکن سلیمان ٹنگڈار، فرید حسین شاہ ولد محمود شاہ ساکن چھمکوٹ ، اسکی بیوی چپن النساء، فاضل حسین شاہ ولد سرور حسین شاہ چھمکوٹ، محمد الطاف چک ولد سمندر چک نوپورہ ٹنگڈار، ماسٹر عبدالرشید جو، غلام حسن شاہ ولد میر احمد شاہ چچھکوٹ، شفقت بیگم زوجہ مقبول حسین ساکن سعیداں گنڈی کرناہ، اس کی ایک سالہ بیٹی امینہ مقبول گنڈی سعیداں اور ناہیدہ بیگم کشامل تھیں۔جبکہ اس سے قبل ہی اس شاہراہ پر دو آلٹو گاڑیاں بھی حادثہ کا شکار ہوئی جس میں قریب 5افراد لقمہ اجل بنیں اتنا ہی نہیں بلکہ2 سال قبل اس درے پر ایک رینج افسر جو اپنے کنبے کے ہمرہ اپنی گاڑی میں کپوارہ آرہا تھا، کو نستہ چھن گلی کے نزدیک دوب کے مقام پر حادثہ پیش آیا جس میں گھر کے تمام افراد سمیت ڈرائیور بھی لقمہ اجل بن گیا۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس حادثہ کے بارے میں اُن کے لواحقین کو 8دن بعد پتہ چلااوران کی لاشیں ایک ہفتے تک خونی نالہ میں پڑی رہیں ۔علاقے میں موبائل سہولیات کا کوئی بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے کسی کو ان لاشوں کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل پارہاتھا ۔ جہاں گھر والے اس وہم و گمان میں تھے کہ ان کے پیارے سرینگر پہنچ گئے ہوںگے وہیں سرینگر میں انتظار کرنے والے لوگوں کو یہ گمان تھاکہ رینج افسر ابھی کرناہ میں ہی اپنے گھر میںآرام کررہے ہوںگے ۔تاہم جب لینڈ لائن فون کے ذریعہ رینج افسر کے کرناہ سے سرینگر جانے کی اطلاع ملی تو لواحقین نے ان کی تلاش شروع کی اور پھر وہ تو زندہ نہیں ملے پر ان کی لاشیں ضرور ملیں ۔اس حادثہ میں فارسٹر کفیل احمد، اُس کی اہلیہ، بچہ اور ڈرائیور منشا لقمہ اجل بنے تھے۔اسی طرح کے حادثات میں کئی لوگ اس درے میں لقمہ اجل بن چکے ہیں جن کی لاشوں کو کئی کئی دنوں بعد نکالا گیا۔ ابھی حالیہ دنوں ہی میںدو نوجوان صدام اور شریف برفانی تودے کی زد میں آگئے جن کے بارے میں بھی کئی دنوں تک ان کے گھروالوں کو کوئی پتہ نہیں چلا اور پھر تلا ش بسیار کے بعددونوں کڑیل جوانوں کی لاشیں 5روز بعد برف سے نکالا گیا ۔2سال قبل ہی ایک سڑک حادثے میں دوسگی بہنیں لقمہ اجل بن گئیں۔ یہ حادثہ بھی برف میں پھسلن کی وجہ سے پیش آیا۔ گاڑی میں نہچیاں کرناہ سے تعلق رکھنے والے تین بہن بھائی سوار تھے جن میں سے 11جماعت میں زیر تعلیم عظمت بانو دختر غلام ربانی زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسی جب کہ مقدس ربانی نامی دوسری بہن صورہ ہسپتال میں موت وحیات کی کشمکش میں زیر علاج رہنے کے بعد دم توڑ گئی۔ایسے ہی کئی افراد اور بھی ہیں جنہوں نے اس علاقے میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔لونٹھا کرناہ کے فاروق احمد چک ، ، محمد صادق لون ساکن سلمان ، راجہ اشرف خان ساکن کنڈی ، قاضی نصیر احمد ساکن کنڈی اُن کی اہلیہ سکینہ بیگم محمد سکندر شیح ساکن کھوڑپارہ بھی اس درے پر اپنی جانیں گنوانے والوں میں سے ہیں۔نستہ چھن پر ٹنل کی تعمیر سے پورے علاقے کی آبادی کو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن نہ جانے کیوں اس علاقے کو مرکزی اور ریاستی سرکاروں نے آج تک نظر انداز کیا ۔ سال 2010میں عمر عبداللہ حکومت کے دور اقتدارمیںرازدان ٹاپ، نستہ چھن اور زوجیلا میں ٹنل کی منظوری کا اعلان کیا گیا اوربتایاگیا کہ یہ معاملہ مرکزی سرکار کے ساتھ اٹھایا جا چکا ہے،پھر سال 2011میں اگرچہ ان علاقوں میں ٹنل تعمیر کرنے کیلئے سروے کی جانی تھی لیکن نستہ چھن ٹنل کا نہ ہی سروے کیا گیا اور نہ ہی عملی طور پر اس پر کوئی کام ہوا۔ اب نظریں موجودہ حکومت کی کرم فرمائی پر مر کوز ہیں ۔
نوٹ : مضمون نگار ’’کشمیر عظمیٰ‘‘ سے وابستہ ہیں
فون نمبر 9419333695
ای میل [email protected]