سرینگر//سینئر پی ڈی پی لیڈر ڈاکٹر حسیب درابو نے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی طرف سے انہیں وزیر خزانہ کی ذمہ داریوں سے فارغ کرنے کا فیصلہ انکے لئے انتہائی حیران کن تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ جس انداز میں انہیں اسکی اطلاع دی گئی وہ صدمہ سے کم نہیں رہی۔درابو نے کہا ہے کہ انہیں اس بات کا موقعہ ہی فراہم نہیں کیا گیا کہ وہ اپنا دفاع کرے،اور انہیں پارٹی کے فیصلے کا میڈیا کے توسط سے آگاہی ملی‘،تاہم انکے ذہن میں کسی کیخلاف بھی کوئی کدورت نہیں ہے‘‘۔انہوں نے کہا ہے ’’ کہ وزارتی کونسل سے انہیں ڈراپ کرنے کا فیصلہ انکے لئے واقعی حیران کن تھا، لیکن سب سے زیادہ صدمے کی بات انہیں اطلاع فراہم کرنیکا طریقہ کار رہا‘‘۔ڈاکٹر درابو نے کہا ’’ اگر چہ میں یہ بیان جاری کر رہا ہوں،تاہم سرکار یا پارٹی کی طرف سے مجھے انفرادی یا رسمی طور پر یہ اطلاع نہیں دی گئی کہ مجھے12 مارچ کو کابینہ سے فارغ کیا گیا،جبکہ میڈیا کی طرف سے پہلے قیاس آرائی اور بعد میں حقیقت کی اطلاع ملی‘‘۔درابو نے اپنے طویل بیان میں کہا کہ پی ایچ ڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹر میں خطاب کے دوران9 مارچ 2018 کو میں نے اس سوچ پر توجہ دی،جو میرے ذہن میں تھا،اور وہ یہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں سیول سوسائٹی کا کردار تھا۔ بیان کے مطابق منتخب سفارتکاروں اور صنعت کاروں،جو جموں کشمیر میں قیام امن میں ممکنہ طور پر شامل ہوسکتے ہیں،میں نے یہ نکتہ ابھارنے کی کوشش کی کہ’’ کشمیر نہ صرف سیاسی مسئلہ ہے،جس کو حکومت ہند اور مسلسل حکومتوںکو حل کرنا ہے،بلکہ ایک سماجی مسئلہ بھی ہے جس کو سیول سوسائٹی سطح پر حل کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ یہ بیان وسیع تناظر میں دیا گیا کہ ہمارا سماج کس طرح تباہ ہوگیا اور اس سے کسی طرح ہماری حقیقی زندگی کی صورتحال اور نوجونوں کی سوچ خراب ہوئی۔بیان کے مطابق’’ وہاں پر موجود سفارتکاروں کے مطابقت، میں نے کئی ملکوں کی طرف سے سفری مشارکی(ٹرائیول ایڈویزری) کی مثال اس تناظر میں پیش کی کہ،جس کی سیاسی طور پر حوصلہ افزئی ہوسکتی ہے،تاہم زمینی سطح پر یہ کشمیر کو سماجی بائیکاٹ کے طور پر متاثر کر رہی ہے‘‘۔بیان کے مطابق ’’ تقریر میں،میں نے صاف کیا کہ سیول سوسائٹی اداروں کو ضرورت ہے کہ وہ ا پنے اپنے علاقوں میں مداخلت کریں،اور یہ سماجی مسئلہ حل کریں جو ہمارے سماج کو در پیش ہے۔بیان میں ڈاکٹر درابو نے کہا’’اس بات کا اشارہ دیا جا رہا ہے کہ میں نے یہ کہا،یا میں نے یہ ایک در پردہ مقاصد کیلئے کہا،تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک طویل مدتی اعتقاد ہے،اور میں یہ متواتر کہتا رہوں گا کہ کشمیر میں کئی سطحوں پر جڑنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ جب میں جموں کشمیر بنک کا چیئرمین تھا،تو مجھے پتہ چلا کہ بنک کے40فیصد حصص غیر ملکی سرمایہ اداروں کے پاس ہیں،جبکہ بھارت کا ایک بھی ادارہ جموں کشمیر بنک میں سرمایہ کاری نہیں کر رہا تھا،اور14جون2014کو سرینگر میں،میں نے انہی خطوط پر کلیدی خطبہ دیا تھا۔سابق وزیر خزانہ نے اپنے طویل بیان میں کہا’’کچھ دنوں کے بعد میں نے انڈئن اکنو میٹرک کانفرنس‘‘ میں بھی تقریر کی اور محققین سے کہا تھا کہ وہ ایک تحقیق دکھائے،جو انہوں نے جموں کشمیر میں کی ہو۔انہوں نے کہا میں نے اس کو‘‘تعلیمی اداروں کی بے حسی‘‘ کہا تھا،اور یہی انفرادی ،تجارتی،حرفت اور دانشورانہ سطح پرمصروفیت یا سرگرمیوں کے اعتبار سے حقیقت ہے۔درابو نے کہا’’جن لوگوں نے میری تقریر سنی یا غیر جانبدارنہ طور پڑھنے کی زحمت گوارہ کرنا چاہتے ہیں،اس بات سے آشنا ہونگے کہ،جب میں ہمارے احساسات اور از خود دریافتوں کی بات کر رہا تھا،تو میں منتخب سامعین کے سامنے پی ڈی پی کے موقف کو حقیقی معنوں میں اسی کے انداز میں پیش کر رہا تھا۔انکا کہنا تھا’’میری سمجھ اور معلومات کے مطابق ،یہ کسی بھی صورت میں پی ڈی پی کی بیان کردہ سیاسی پوزیشن سے متضاد نہیں ہے اور نہ ہی اسکی شبیہ کو متاثر کرتاہے ،یہ در حقیقت پی ڈی پی کے سیاسی فلسفے اور مفاہمتی ایجنڈا کا ہی حصہ ہے ‘‘۔درابو کے مطابق ’’پی ڈی پی کی سیاسی آئیڈیالوجی کے حوالے سے میری سمجھ کے مطابق ،یہ میرے تحریر کردہ کئی انتخابی منشور ،حوصلہ بخش ایجنڈا اور اہم سیلف رول دستاویز کی بنیاد ہے ،جو مفتی مرحوم نے لکھنے کیلئے شامل کیا ۔درحقیقت انہی کی رہنمائی میں پی ڈی پی۔بی جے پی الائنس کے خد وخال تیار کرنے میں انہی شرائط کو درج کیا گیا ‘‘۔
پارٹی کے بیانات اور کارروائی
واقعات کی ترتیب جس طرح سے سامنے آئی: میں نے اپنی تقریر پی ایچ ڈی سی سی آئی کی تقریب میں 9مارچ کی شام کو کی ۔11مارچ کو دلی سے میری واپسی پر ،میں نے نائب صدر سرتاج مدنی کا ایک پریس بیان دیکھا ،جس میں کہا گیا تھا کہ جموں وکشمیر کے سیاسی مسئلے کا حل پی ڈی پی کا بنیادی ایجنڈا ہے اور مجھ سے کہا گیاکہ وہ دلی میں دئے گئے بیان سے منحرف ہوجائیں ۔12مارچ کی شام کو پارٹی کی انضباطی کمیٹی کے چیئرمین عبدالرحمان ویری کا ایک خط مجھے ملا جس میں مجھے اپنے اس بیان کی وضاحت کیلئے کہا گیا تھا جس کی وجہ سے بقول ان کے پارٹی کی شبیہ کو شدید نقصا ن پہنچا ہے‘۔میں نے ویری صاحب کو فون کیا لیکن وہ مصروف رہنے کی وجہ سے میرا فون اٹھا نہ سکے بعد میں میں نے ان کی ایک مسڈ کال دیکھی اور فون پر بات نہ ہوسکی ۔دوسرے روز صبح کو میں نے ویری صاحب سے بات کی ۔انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں پارٹی صدر اور وزیراعلیٰ سے بات کروں ۔میں نے وزیراعلیٰ کی دلی رہائش پر کال کی جہاں مجھے بتایا گیا کہ وزیراعلیٰ مصروف ہیں اور10منٹ میں مجھے کال کریں گی لیکن وہ کال ابھی تک نہیں آئی ۔دوپہر کے وقت میں نے وزیراعلیٰ کی رہائش گاہ فون کیا اور ایک ملاقات کیلئے وقت مانگا۔حالانکہ میں ان کے جواب کا انتظار کرتا رہا کہ گریٹر کشمیر کی ویب سائٹ پر یہ خبر آئی کہ وزیراعلی نے مجھے وزارتی کونسل سے فارغ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے لئے گورنر کو لکھا ہے ۔بہر حال مجھے وزیراعلیٰ سے ملنے کیلئے7;15شام کو ملاقات کیلئے طلب کیا گیا ۔مجھے وزارتی کونسل سے برطرف کرنے کا فیصلہ میرے لئے باعث حیرت تھا لیکن اس کیلئے جو طریقہ اور وطیرہ اپنایا گیا وہ باعث تکلیف تھا ۔حالانکہ میں اپنی پارٹی کا فیصلہ سمجھتے ہوئے قبول کرتا لیکن مجھ سے پہلے میڈیا سے بات کیا جانا تکلیف دہ امر ہے ۔مجھے اپنی تقریر کی تفصیل اور حقیقت پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا ۔اس کے بائوجود بھی میں مرحوم مفتی سعید اور محبوبہ باجی کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے موقع دیا کہ میں کسی بھی طریقے سے جموں و کشمیر میں سنگین صورتحال کے دوران کو بدلنے کے خواب ،جسکی وجہ سے سیکورٹی ، امن اور لوگوں کی خوشحالی خطرے میں پڑی تھی ،کو بہتربنانے اور برصغیر میں استحکام قائم کرنے کی خوب کو پورا کیا جاسکے۔ پی ڈی پی کے ساتھ ان دنوں سے جڑا ہوں جب میں رسمی طور پر سیاست میں نہیں آیا تھا اور جو سپورٹ مجھے مرحوم مفتی محمد سعید نے دیا اسکو میں زندگی بھر بول نہیں سکتا ہوں، جو نہ ہلنے والا اعتماد اور بھروسہ مجھے ان سے ملا ہے وہ مجھے ان حالات سے لڑنے کی طاقت عطا فرمائے گا۔ صرف مجھ پر بی جے پی کے ساتھ بات چیت کرنے پر ہی بھروسہ نہیں جتایا گیا بلکہ میں نے ہی پی جے پی کے ساتھ ایجنڈا آف ایلائنس تیار کیا جو بعد میں محبوبہ مفتی نے جاری رکھا ہے۔ ہر ایک میٹنگ ، بات چیت اور بحث و مباحثے پارٹی سربراہ اور صدر کے مشورے کے بعد ہی کی گئی۔ اگر میں نے کشمیر میں اپنے سیاسی مستقبل کے دوران کبھی فخر محسوس کیا تو وہ یہ تھا کہ میں مرحوم مفتی سعید کا وزیر خزانہ تھا۔ میرے تعلقات مفتی صاحب سے سال 2003سے تھے جب انہوں نے مجھے اپنی سرکار کا اقتصادی مشیر مقرر کیا اور یہ مفتی صاحب ہی تھے جنہوں نے مجھے سیاست میں آنے کیلئے تیار کیا اور میری حوصلہ افزائی کی کیونکہ مرحوم مفتی سعید کے مطابق سیاست ہی لوگوں کی بہتر خدمت اور انکی زندگی بدلنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔جب پارٹی صدر نے مجھے سال 2014میں راجپورہ سے انتخابات لڑنے کا موقع فراہم کیا تو یہ میرے لئے فخر کا مقام تھا۔ میں اسوقت کافی خوش تھا جب سال 2014میں لوگوں نے پی ڈی پی کے ترقیاتی منصوبوں کا بھرپور ساتھ دیا جسکے نتیجے میں پہلی بار علاقے کا ایم ایل ائے بنا۔ میں لوگوں کو یقین دلانا چاہتاہوں کہ میں ان کیلئے کام کرتا رہوں گا ۔ میں لوگوں کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے پیا ر اور محبت دی ہے۔ میں محبوبہ جی کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتاہوں جنہوں نے مجھ پر بھروسہ کیا اور جسکی وجہ سے کئی کام سر انجام دئے جاسکے مثلا ًسرکاری اخراجات کا نظام بہتر بنایا اور اقتصادیات میں ترقی کرنا بھی شامل ہے۔ میرے دل میں کسی کیلئے کوئی بھی دکھ نہیں ہے کیونکہ وہ میرا طریقہ نہیں ہے۔میں لوگوں کیلئے ہر ممکن کام کرنے کو تیار ہوں جو میرے حد اختیار میں ہوگا۔ میرے اور میرے اہلخانہ کیلئے یہ ایک ذاتی دھچکہ ہے مگر خدا ہمیشہ سے ہی میرے اوپر مہربان رہا ہے اور اسلئے کوئی بات نہیں ہے کہ میں اسکے انصاف پر بھروسہ نہ کروں۔ میں خود اپنے فیصلہ لیتا ہوں چاہئے وہ سیاسی ہو یا اور کوئی فیصلہ ہو۔ مجھے پورا یقین ہے کہ خدا بہتر جانتا ہے۔