ایک غیر مسلم بزرگ میرے پاس آئے اور کہا ڈاکٹر صاحب ! میں کچھ پڑھ رہا ہوں۔ سنیے اور دیکھٔے کیا میں صحیح پڑھ رہا ہوں۔جہاں جہاں غلطی ہو اس کی تصحیح بھی کیجیے۔ میں نے کہا پڑھیے کیا پڑھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے پڑھنا شروع کیا۔’’ لا الہ الا اللہ ،محمدرسول اللہ‘‘۔ محمد اور رسول اللہ میں وہ غلطی کررہے تھے۔ میں نے ان کی تصحیح کی اور تلفظ درست کرایا۔ جب وہ پڑھ چکے تو مجھ سے پوچھا کیا میں مسلمان ہوگیا؟ میں نے کہا کیا اس کے مفہوم پر آپ کا ایمان ویقین ہے؟ انہوں نے کہا نہیں۔ میں نے کہا نہیں۔ آپ بالکل مسلمان نہیں ہوئے۔ مسلمان اس کا نام نہیں ہے کہ عربی کا یہ جملہ زبان سے ادا کرلیا جائے بلکہ اس کے مفہوم کی دل سے تصدیق کرنے اوراس پر عمل سے انسان مسلمان ہوتا ہے۔
آج ہمارے یہاں بچوں کو بڑے اہتمام سے کلمہ یاد کرایا جاتا ہے۔ ان سے سنا جاتا ہے۔اور پوچھا جاتا ہے کتنے کلمے یاد ہیں۔پہلے کلمے سے لے کرچھٹے کلمے تک یا کم از کم تین تو یاد ہونا چاہیے۔انہیں ایمان مجمل اور ایمان مفصل کی بھی عبارت یاد کرائی جاتی ہے۔ کچھ لوگ تو مفصل (بہ تشدید صاد) کی طرح مجمل (بسکون الجیم وفتح المیم الثانی) کو مجمل ـ(بفتح الجیم وتشدید وکسر المیم الثانی) بولتے ہیں۔ اگر کسی مسلمان کودو تین کلمے نہ یاد ہوں تو اسے بڑے عار اور شرم کا باعث سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے عجیب مسلمان ہے کلمہ تک یاد نہیں۔
در اصل کلمہ پڑھنے کا مفہوم یہ ہے کہ پڑھنے والے کو اس کا معنی ومطلب معلوم ہو۔ یہ کلمہ جن باتوںکا متقاضی ہے ان پر اسے یقین ہو۔زبان کے ساتھ ساتھ دل سے اس کا اقرار واعتراف ہو۔اس پر پورے اخلاص، صداقت اور محبت کے ساتھ پر عمل ہو۔
کلمے کا تقاضہ ہے کہ ہمیں معلوم ہو کہ اللہ کیا ہے؟ کہاں ہے؟ س کی ذات کیا ہے؟ اس کی صفات کیا ہیں؟کیا وہ پہلے نہیں تھا اور کب وجود میں آیاہے ؟کیاوہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا؟ اگر ازل سے نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ وجود میں آیا اوروجود میں آنے کا مطلب ہے کہ وہ حادث ہے اور حادث کا مطلب ہے کہ اس کو فنالازم ہے یعنی ایسی صورت میں معاذاللہ، اللہ کو بھی فنا لاحق ہوگا۔کلمے کا تقاضا ہے کہ ہمیں معلوم ہو کہ اللہ کی ربوبیت کا مطلب کیا ہے۔ اس کی الوہیت کا مطلب کیا ہے؟ اس کے اسمائے حسنیٰ اور صفات عُلیا پر ایمان لانے کا مطلب کیاہے؟ یہ ساری تفصیلات جاننے اور ان تمام تفصیلات پر دل سے ایمان لانے اور ان پر عمل کرنے کو ایمان کہتے ہیںیعنی اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ ایمان ہونا چاہیے کہ اللہ تعالی ازل سے ہے ،ہمیشہ سے ہے اور ابد تک یعنی ہمیشہ رہے گا۔اللہ کی ربوبیت کا مطلب یہ ہے کہ ا للہ تعالی ہی اس کائنات کا خالق ہے،مالک ہے اور رازق ہے۔ کفار مکہ بھی اس توحید کے قائل تھے اور اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ اللہ تعالی اس کائنات کا خالق ہے لیکن وہ پھر بھی مسلمان نہیں ٹھہرے کیونکہ اللہ تعالی کی الوہیت کے اعتقاد میں ان کے یہاں خلل تھا۔ اللہ تعالی کی الوہیت کا مطلب یہ ہے کہ عبادت کے لائق صرف اللہ رب العالمین کی ذات واحد ہے۔ کسی طرح کی عبادت میں اس کا ’’کوئی‘‘ بھی شریک نہیں ۔ قرآن سے یہ بات بہت وضاحت کے ساتھ ثابت ہے کہ کفار مکہ ربوبیت الہٰی کے معترف تو تھے مگر اللہ کی الوہیت میں بتوں کو شریک ٹھہراتے تھے اور انہیں عبادت کے لائق سمجھتے تھے۔ اسی لیے وہ کافر اور مشرک ٹھہرے۔ اللہ کے اسمیٰ اور صفات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یا اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے لیے جتنے ناموں کا ذکر کیا ہے ان پر ایمان لایا جائے اور اس بات کا اعتقاد رکھا جائے کہ وہ اللہ تعالی کے لیے خاص ہیں۔ایک حدیث میں آیا کہ اللہ تعالی کے ننانوے نام ہیں۔ جس نے انہیں گن لیا وہ جنت کا مستحق ہوگیا۔ اس حدیث کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ کلمہ کی طرح اللہ کے ناموں کو گن کریاد کرلینے سے بندہ جنت کا مستحق ہوجاتا ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس بات پر ایمان ہو کہ اللہ کے جتنے نام ہیں وہ خاص ہیں اللہ تعالی کے لیے۔ ان کے معانی خاص ہیں اللہ تعالی کے لیے۔ اسی طرح اللہ تعالی کی جتنی صفات ہیں وہ سب کی سب اللہ تعالی کے لیے خاص ہیں۔ ان میں اللہ کے ساتھ کوئی بھی بندہ شریک نہیں ہوسکتا۔ اس کائنات کی کوئی اور شئے اللہ کی طرح نہیں ہے۔ اگر کوئی مسلمان یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ کی کسی صفت میں کوئی شریک ہے تو یہ شرک فی الصفات ہوا۔ اگر یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ کی عبادت میں کوئی شریک ہے تو یہ شرک فی الالوہیت ہوا۔ اسی طرح یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ کے ساتھ اس کائنات کا کوئی اور خالق ہے یا یہ کائنات از خود وجودپذیر ہوگئی ہے تو یہ شرک فی الربوبیت ہے۔یہ ہوا لا الہ الا اللہ کا مفہوم۔
اسی طرح کلمے کے دوسرے جزء یعنی محمد رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم کا مطلب ہے۔ حضرت محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف اللہ تعالی کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اگر ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور کو بھی نبی مانتے ہیں تو یہ بات کلمے کے مفہوم کے تقاضے کے خلاف اور ایمان کے نقائض میں شمار کی جائے گی اور ایمان میں خلل واقع ہوگا یعنی یہ ایمان رکھنا واجب ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کائنات کے آخری رسول ہیں۔ رہتی دنیا تک کے لیے نبی اور رسول ؐہیں۔ آپ ؐکے بعد اب کوئی اور نبی اور رسول آنے والا نہیں۔
اس کے بعد اگر ہم ایمان مفصل کی بات کریں تو اس کے مطابق اللہ تعالی کے ساتھ اللہ کے فرشتوں، اللہ کی نازل کردہ کتابوں، اللہ کے دیگررسولوں، یوم آخرت اور تقدیر پر ایمان لانے کو ایمان مفصل کہتے ہیں۔
اللہ تعالی پر، اس کی ذات باری پر، اس کی ربوبیت پر ، اس کی الوہیت پر، اس کے اسماء وصفات پر ایمان لانے کے بعد ہر مسلمان کے لیے اس بات پر ایمان لانا واجب ہے کہ اللہ تعالی نے تین طرح کی مخلوقات بنائی ہیں۔ انس وجن اور ملائکہ جنہیں ہم فرشتے کہتے ہیں۔ انسان کو مٹی سے، جنات کو آگ سے اور فرشتوں کو نور سے پیدا کیاگیاہے۔ فرشتوں پر ایمان لانے کا مطلب ہے کہ ہمارا ایمان ہو کہ ایک ایسی نوری مخلوق ہے جسے ہم فرشتے کہتے ہیں۔اللہ تعالی نے فرشتوں کوبے پایاں طاقت سے نوازا ہے اوروہ ہمہ وقت اللہ تعالی کی عبادت اور اس کے حکم کو بجالانے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ ان میں کچھ خاص فرشتے ہیں۔ اور کچھ عام۔ خاص فرشتوں میں حضرت جبریل علیہ السلام فرشتوں کے سرداریعنی سید الملائکہ ہیں۔
اللہ تعالی کی کتابوں مثلاتوریت، زبور، انجیل اور ابراہیم اور موسی علیہما السلام کے صحیفوں پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ یہ ساری کی ساری کتابیں اللہ تعالی کی نازل کردہ ہیں۔ان میں جو کلام ہے وہ اللہ کا کلام ہے۔ان محرف کتابوں پر اگرچہ اجمالاً وتفصیلا ایمان اور عمل واجب ہے مگر اب نزول قرآن کے یہ متروک العمل ہیںاور قرآن ہی مسلمان کے لئے واحد ہدایت نامۂ خداوندی ہے ۔
انبیاء پر ایمان کا مطلب یہ ہے اللہ تعالی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ بہت ساے نبی اور رسول مبعوث کیے جنہوں نے اپنی اپنی قوموں میں اپنی اپنی شریعتوں کی تبلیغ کافریضہ انجام دیا۔ان تمام نبیوں اور رسولوں علیہم السلام پر ایمان واجب ہے اور ان کا انکار موجب کفر۔یہ اعتقاد رکھنا جزوایمان ہے کہ تمام انبیاء ؑ بشر تھے اور معصوم عن الخطاء بھی۔ ان میں سے کچھ کا ذکر قرآن میں آیا ہے اور کچھ کا نہیں آیا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا کے آخری رسولؐ ہیں۔ آپ ؐکے بعد کوئی اور نبی یا رسول مبعوث نہیں کیاجائے گا۔
لفظ نبی اور رسول میں ادنی سا فرق ہے۔ جب یہ دونوں الفاظ ایک ساتھ ذکر کیے جائیں تو ان کا معنی مختلف ہوتاہے اورجب الگ الگ ذکر کیے جاتے ہیں تو یہ مترادف ہوتے ہیں۔ رسول اس شخص کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالی نے نئی شریعت کے ساتھ بھیجا ہو اور پوری امت میں اس کی تبلیغ کا حکم دیا ہو۔ نبی اس شخص کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالی نے سابقہ رسول کی شریعت کی تبلیغ کے لیے مبعوث کیا ہو۔ جیسے کہ بنی اسرائیل میں حضرت موسی علیہ السلام کے بعد کئی انبیاء آئے اور انہوں نے حضرت موسی کی توریت اور شریعت کی تبلیغ کی۔یعنی رسول عام ہے نبی خاص ہے۔ اسی لیے اللہ تعالی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا(ترجمہ :محمدتم سے مردوں کے باپ نہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں ۔احزاب ۴۰ ) نبیوں کے خاتم کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے بعد رسول تو کیا نبی بھی نہیں آئے گا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری رسول اور آخری نبی ہیں۔
یوم آخرت پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ کائنات ایک دن ختم ہوگی۔ قیامت آئے گی۔ اللہ تعالی قیامت کے دن سب کو اٹھائے گا، حساب کتاب کرے گا اور حسب اعمال ہمیشہ کے لیے جنت وجہنم کا فیصلہ کیا جائے گا۔
تقدیر پر ایمان لانے کا مفہوم یہ ہے کہ کائنات میں جو کچھ بھی ہورہا ہے۔ خیر یا شر سب اللہ کا مقدر کیا ہوا ہے اور اس پر ایمان واجب ہے۔وہ تقدیر جس کا تعلق خیر سے ہے اس کامطلب تو واضح ہے۔ شر کو مقدر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شر کا تعلق عمل تخلیق شر سے نہیں بلکہ اس شر کے موجبات و مستوجبات سے ہے۔ یعنی مثال کے طور پر اللہ تعالی نے سانپ بچھو، درندوں کے علاوہ بہت ساری بیماریاں، فقر وفاقہ وغیرہ پیدا کیے ہیں ۔ ان کی تخلیق کا عمل فی نفسہ شر نہیں ہے بلکہ یہ چیزیں انسان کے لیے شر ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالی نے بہت سارے گناہ فسق وفجور وغیرہ بھی پیدا کیے ہیں جو کہ شر ہیں لیکن اس کی نسبت اللہ کی طرف از راہ شر نہیں از راہ خیر ہیں کیونکہ اللہ نے ان کو کسی حکمت کے تحت پیدا کیا ہے۔ کئی ایسے شر ہیںجو فی نفسہ شر ہیں لیکن ان میں خیر کا بھی پہلو ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا (ترجمہ: بحر وبر میں فساد پھیلنے کا انجام یہ ہے کہ اس سے لوگ اللہ کی طرف رجوع کریں۔الروم ۴۱) ۔ یعنی بحر وبر میںخرابی شر ہے لیکن اس شر کا نتیجہ اچھا ہے۔ یعنی یہ شرحقیقی نہیں اضافی ہے۔اسی طرح بہت سارے گناہوں کی سزا دنیا ہی میں مقرر کی گئی ہے۔ یہ سزائیںانسان کے لیے شریعنی باعث تکلیف ہیں لیکن وہ اس طرح خیر ہیں کہ اس سے بندے کے گناہ دھو جاتے ہیں۔
یہ ہے کلمہ ـ ٔ طیبہ اور ایمان مجمل ومفصل کا مفہوم ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف زبان سے کلمہ پڑھ لینا، یا اس کا ورد کرلینا ایمان کے لیے کافی نہیں۔ بلکہ اس کی جزئیات کی تصدیق کے ساتھ ان کے لوازمات پر عمل جزء ایمان ہے۔ یعنی
زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل ونگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
رابطہ:صدرشعبۂ عربی باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری