سرینگر//ریاست میں سبز سونے کے کٹائو کے گراف میں تیزی سے اضافہ کی وجہ سے جہاں ماہرین ما حولیات کو سخت تشویش ہو رہی ہے،وہیں جنگلات کا صفایا،سیلاب کے خطرے میں اضافہ کر رہا ہے۔بین الاقوامی یومِ جنگلات ہر سال عالمی سطح پر21 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد انسانی زندگی میں جنگلات کی اہمیت کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے امسال ’’جنگلات اور پائیدار شہر،اپنے شہروں کو سرسبز،صحت مند اور خوشحال رہنے کی جگہ بنائیں‘‘ کا موضوع مقرر کیا گیا ہے۔ماہرین جنگلات کے مطابق جموں و کشمیر کے جنگلات جو کبھی انتہائی گھنے ہوا کرتے تھے حفاظتی تدابیر کئے جانے والے کافی اخراجات کے باوجود تیزی سے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ماہرین اس کی سب سے اہم ترین وجہ مختلف شہروں کا پھیلاؤ ہے،اورہ دیہات کو شہر بنانے کا عمل بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دوسری وجوہات میں بدعنوانی، جنگلات میں لگنے والی آگ اور جنگلاتی منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ایس کے یونیورسٹی آف اگریکلچر سائنسس اینڈ ٹیکنالوجی جموں کے محکمہ جنگلات کے سابق سربراہ ایس کے گْپتا کہتے ہیں’’ سیلاب اور جنگلات کی صفائی یا کٹائوسے سیلاب کا امکان بڑھ جاتا ہے، ایک عمل دوسرے کا سبب بنتا ہے‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ درخت مٹی اور پانی کے درمیان اسفنج کا کردار ادا کرتے ہیں اور یہ سیلاب کو روکنے میں بھی غیر معمولی کردار ادا کرتے ہیں۔ جب درخت ناپید ہونا شروع ہوجائیں تو مٹی کی اوپری سطح بہہ کر دریائی گزرگاہ بن جاتی ہے اور پانی کو روکنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگلات کی صفائی ناگہانی آفات میں مزید مشکلات کا سبب بن رہی ہے۔بیرون ریاست یونیورسٹی میں سرگرم عمل محقق ڈاکٹر شبیر احمد راتھر کا کہنا ہے اس علاقے کا اب سب سے بڑا مسئلہ غذا، چارہ اور ٹمبر یا لکڑی کی بڑھتی ہوء مانگ ہے۔پلوامہ کے بڈدلو م کے رہائشی نذیر احمد بجاڑ کا کہنا ہے’’ ماضی میں یہاں کے بالائی علاقوں میں بہت سے درخت ہوا کرتے تھے تاہم اب یہاں کے پہاڑ ننگے ہو گئے ہیں۔ دریا کے کنارے جو درخت موجود تھے اور سیلاب کی روک تھام کیا کرتے تھے، اب ناپید ہوچْکے ہیں اور ان کی جگہ اب مشکل سے ہی کوئی نیا درخت نظر آتا ہے‘‘۔عبدالرحمان کھاری کا کہنا ہے کہ اب جب بھی بارش ہوتی ہے اور کئی دنوں تک جاری رہے تو سیلاب کی سی صورت پیدا ہو جاتی ہے جس میں زرعی کھیت بہہ جاتے ہیں۔محقق ڈاکٹر شبیر کے مطابق بھارت کی قومی جنگلاتی پالیسی پہاڑی علاقوں کے جنگلات کا66 فیصد برقرار رکھنے کا ہدف طے کیے ہوئے ہے۔ تاہم انڈئن اسٹیٹ آف فارسٹ رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر میں اب 16 فیصد سے بھی کم درخت باقی رہ گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ 2003 اور 2012 کے درمیان جنگلاتی زمین کا دیگر مقاصد کے لیے استعمال88 فیصد تک بڑھ چْکا ہے۔ ادھر ایک اور محقق ڈاکٹر اعجاز ڈار کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں جنگلات زیادہ ہوتے ہیں وہاں بارشیں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ بارش کا پانی جنگلات میں قدرتی طور پر تیار ہونے والی کھاد کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا اور میدانوں میں بکھیر دیتا ہے جس سے میدانی علاقوں کی زمین زرخیز ہو جاتی ہے اور زرعی پیداوار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ زیادہ درختوں والے علاقوں میں بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ہونے والی تباہی کے خطرات بھی کم ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ڈار کا کہنا تھا’’ درخت زمین کو کٹائو سے روکتے اور سیلابی پانی کو کنٹرول کر کے تباہی سے بچاتے ہیں،جبکہ ہر ملک کے کم از کم 25سے40 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے کہاجنگلات کے کٹائوکی وجہ سے جنگلی حیات بھی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق کئی قیمتی اور نایاب جانوروں کی تعداد میں واضح کمی آئی ہے اور بعض جانوروں کی نسلیں تو بالکل ناپید ہونے کے قریب ہیں۔ ماہرین کے مطابق درختوں کی مسلسل کٹائی کے باعث پچھلی دہائی میں ضائع کئے گئے درختوں کا متبادل حاصل کرنے کے لئے بیشمار پودے لگانے کی ضرورت ہے۔