تریپورہ میں بھاری اکثریت سے بی جے پی کی حکومت تشکیل دینے کی خوشی ابھی ماند بھی نہیں پڑی تھی کہ اُتر پردیش اور بہار کے ضمنی انتخابات کے نتائج نے اُن کے ہوش اُڑا دئے۔شمال مشرقی ریاستوں کی جیت نے بی جے پی کے کارکنان میں ایک عجیب سی رعونت پیدا کر دی تھی جس کے زیر اثر خاص طور پرتریپورہ میں لا قونونیت کا جو ننگا ناچ بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگوں نے ناچا اُس کی نظیر شمال مشرقی ہند وستان میں نہیں ملتی۔سی پی ایم کے لوگ اس قدر سہمے ہوئے ہیں کہ انہوں نے ۶۰؍ویں اسمبلی سیٹ کے لئے ہونے والے انتخاب سے اپنے امیدوار کو ہٹا لیا۔واضح رہے کہ سی پی ایم کے امیدوار کی موت کے بعد مذکورہ سیٹ پر انتخاب نہیں ہو سکا تھا۔یہ اُس جگہ اور ریاست کا عالم ہے جہاں پر کمیونسٹوں نے لگاتار ۲۵؍برس جمہوری طریقے سے حکومت کی ہے اور ابھی کی بی جے پی کی حکومت بھی جمہوری ہے!اِن تین شمال مشرقی ریاستوں کے انتخابات کے نتائج کو قومی میڈیا نے اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور بی جے پی کی کامیابی کو بے مثال کامیابی سے نہ صرف موسوم کیا بلکہ تمام شمال مشرقی ریاستوں پر بی جے پی اور خاص طور پر مودی جی کے جادو کے اثر کو ہمالیائی بتلایا جب کہ یہ سراسر جھوٹ پر مبنی ڈسکورس تھا۔وہ اس لئے کہ تین ریاستوں کے تقریباً ۱۸۰؍ سیٹوں میں سے بی جے پی کو کُل ۵۶؍سیٹیں ہی مل پائی تھیں یعنی ایک تہائی سیٹیں بھی بی جے پی کو نہیں مل سکیں۔اسے کیوں کر بھرپور جیت یعنی ’’کلین سویپ‘‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جس کا جاپ میڈیا دن رات کرتا رہا اور اس کے بعد یہ بھی پیش گوئی کرنا شروع کر دیا کہ کرناٹک تو اب بی جے پی کی جیب میں ہے اور بی جے پی یہاں بھی کلین سویپ کرے گی۔یاد رہے کہ مودی بھکت میڈیا نے مئی ۲۰۱۶ء میں ہوئے ۵؍ریاستوں آسام(کُل سیٹ:۱۲۶)، بنگال(۲۹۵)، تمل ناڈو(۲۳۴)،کیرلا(۱۴۰) اور پڈوچیری(۳۰) کے انتخابی نتائج کو بی جے پی کے حق میں بتلایا تھا جب کہ حقیقت یہ تھی کہ سوائے آسام کے بی جے پی کو کہیں بھی قابل ذکر سیٹیں نہیں ملی تھیں۔بی جے پی کو بنگال میں ۳؍،کیرلا میں پہلی بار ۱؍،تمل ناڈو اور پڈوچیری میں صفرسیٹیں ملی تھیں یعنی کہ کُل ۸۲۵؍ سیٹوں میں بی جے پی کو صرف ۶۳؍سیٹیں ہی مل سکی تھیں جن میں ۶۰؍اکیلے آسام میں ملی تھیںلیکن میڈیا نے اتنا ہوا بھرا جیسے پورا ہندوستان مودی جادو میں گم ہے۔سارا کرشمہ میڈیا کا ہے۔
تقریباً ۳۰؍برسوں سے گورکھپور کی پارلیمانی سیٹ بی جے پی کے پاس تھی اور ۲۵؍برسوں سے تو موجودہ وزیر اعلیٰ یوگی یہاں کے ممبر آف پارلیمنٹ تھے اور سی ایم بنائے جانے سے پہلے یوگی جی ہی گورکھپور کے ایم پی تھے۔۲۰۱۴ء کے عام چناؤ اور نام نہاد مودی لہر میں یوگی جی نے ۳؍لاکھ سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے یہاں جیت درج کی تھی اور ۵۰؍فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کئے تھے جو سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماجوادی پارٹی دونوں کے ووٹوں فیصد سے بھی زیادہ تھے۔یہی حال پھولپور پارلیمانی حلقے کا تھا جہاں سے موجودہ نائب وزیر اعلیٰ موریہ نے زائد از۳؍لاکھ ووٹوں سے جیت درج کی تھی اور یہاں بھی سماجوادی اور بہوجن دونوں کے ووٹوں کے فیصد ملا کر بھی کم تھے لیکن آج کیا ہوا؟ یوگی جی جس انداز سے ہمیشہ بات کرتے ہیں اُس سے پتہ چلتا ہے کہ اُن کے اندر رعونت کس قدر کوٹ کوٹ کر بھری ہے اور یوپی کے عوام اُن کی جیب میں نہیں بلکہ اُن کے پیروں تلے ہیں ،وہ مسلتے جائیں گے اور ووٹ بھی پاتے جائیں گے۔اسی طرح بہار میں بھی جو نتائج آئے ہیں وہ بی جے پی کے خلاف تو ہیں ہی ،ساتھ ہی نتیش کمار کے لئے کسی تازیانے سے کم نہیں۔راشٹریہ جنتا دل کے سپریمو لالو یادو رانچی کی جیل میں ہیں ،اُس کے باوجود بہار کے عوام نے آر جے ڈی کو گلے لگایا اور بھاری اکثریت (۶۰؍ہزار سے زیادہ ووٹوں سے)کے ساتھ ارریہ پارلیمانی سیٹ سے سرفراز عالم سرخرو ہوئے اور ساتھ ہی جہان آباداسمبلی کی سیٹ بھی لالو بلکہ اُن کے بیٹے تیجسوی یادو کی پارٹی نے جیت لی اور ایک اور جگہ بھبھوا اسمبلی سیٹ پربھی کانگریس نے بی جے پی کو اچھی ٹکر دی۔اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بہار کے عوام اب بھی کافی سمجھ دار ہیں اور اپنی رائے دہی کا استعمال بڑے ہی سوجھ بوجھ کے ساتھ کرتے ہیں۔نتیش کمار تو اب اس پوزیشن میں بھی نہیں ہیں کہ کوئی سبق بھی لے سکیں۔بہار کے عوام کے لئے کرپشن کوئی موضوع نہیں ہے ، البتہ فرقہ واریت مسئلہ ضرور ہے اور وہ یہ نہیں چاہتے کہ بہار فرقہ واریت کے رنگ میںرنگ جائے۔اس لئے اِس بات کا قوی امکان ہے کہ نتیش اور بی جے پی کی جوڑی بہار میں کام نہیں کرے گی۔کبھی کام کیا تھا لیکن فرقہ وارانہ خطوط کو نتیش نے سرے سے منہا کر رکھا تھا۔کوئی لاکھ کہے کہ یوپی اور بہار کے ضمنی انتخابات کے نتائج مودی حکومت کی غلط پالیسیوں کے رد عمل کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا نتیجہ ہیں ،تو اس کی سادگی پہ ایمان لانے کو جی چاہتا ہے۔گورکھپور حلقۂ انتخاب کے شہری علاقوں سے ۳۰؍فیصد لوگوں نے اپنی رائے دہندگی کا استعمال کیا اور یہی حال کم و بیش پھولپور کا بھی ہے۔اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ شہری آبادی جو بی جے پی کو ووٹ دیتی آئی ہے ،وہ اس سے قطعی خوش نہیں ہے کیونکہ بی جے پی کی پالیسیوں نے شہری عوام کا بھی جینا حرام کر رکھا ہے۔دیہی عوام تو بھوکوں مر ہی رہے ہیں اور ان کا پرسانِ حال کوئی بھی نہیں ۔ ان میں کسانوں کی ایک بڑی تعداد مودی جی کی غلط پالیسیوں سے متاثرہ ہے جس کی ایک نادر مثال مہاراشٹر کے ممبئی شہر میں ابھی ابھی لوگوں نے دیکھا ۔پورے ملک میں کم و بیش یہی حالات ہیں اور مودی جی کے بچے ہوئے ۱۳؍ مہینوں میں یہ کسی طور سدھرنے والے نہیں۔اس کے علاوہ آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائڈو نے مرکز سے حمایت واپس لے کر بی جے پی اور خاص طور پر مودی جی کی نیند اُڑا دی ہے ۔ آندھرا پردیش میں اب بی جے پی مخالف ہوا چل پڑی ہے۔یہ رعونت کا ہی شاخسانہ ہے جسے بی جے پی کو اور بھی بھگتنا ہے۔شیو سینا تو پہلے ہی نکل چکی ہے اور اکالی دل بھی خوش نہیں ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ رام ولاس پاسوان نے بھی ڈھکے چھپے انداز میں ایک بیان بی جے پی کے خلاف دے ڈالا ہے۔کہا جاتا ہے کہ رام ولاس پاسوان سیاسی ہوا کا رُخ پڑھ لینے میں ماہر ہیں اور وہ جس طرف جائیں گے بہت حد تک ممکن ہے کہ اسی کی حکومت بنے گی۔یہ آزمائی ہوئی بات بلکہ قاعدۂ کلیہ ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مودی جی کو بچائے گا کون؟ انہیں تو ہر حال میں ۲۰۱۹ء میں چُن کر آنا ہے کیوں کہ انہوں نے تو لوگوں سے ۲۰۲۲ء تک سب کچھ مہیا کرا دینے کا وعدہ کیا ہے اور شریمان ’’اقتدار‘‘ کے بغیر جئیں گے کیسے؟ یہ سو ٹکے کا سوال ہے۔اُن کے پاس ایک ریڈی میڈ بلکہ ٹیلر میڈ فارمولہ تیا ر ہے اور وہ ہے’’ رام جنم بھومی۔۔۔‘‘۔ طلاق ثلاثہ کا حشر دیکھ لیا ہے اور اس لئے یونیفارم سول کوڈ کی یہ بات نہیں کریں گے۔دفعہ ۳۷۰؍ کے لئے بھی حالات موزوں اور مناسب نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے کشمیر کو پہلے ہی بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ایک بات اور بھی سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ ہند و پاک کے درمیان چھوٹے پیمانے کی جنگ کرا دی جائے یا جنگ جیسی صورت حال ہو تاکہ’’ قوم پرستی ‘‘ کا پھر سے استحصال کیا جا سکے جس طرح یوپی اسمبلی الیکشن سے پہلے سرجیکل اسٹرائک کرکے کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ اِی وی ایم مشین بھی ساتھ نبھا سکتی ہے۔یہ سب بھی نہ چلے تو جس طرح گوا، منی پور، میگھالیہ اور کچھ حد تک اروناچل پردیش میں حکومت بنانے کے لئے جو فارمولہ بی جے پی نے اختیار کئے تھے ،وہ آزمائے جائیںیعنی مرکز کوئی بھی جیتے حکومت تو بی جے پی ہی بنائے گی، چاہے اس کے پاس ۲؍سیٹ ہی کیوں نہ رہے!خدشہ اس بات کا ہے کہ جو گٹھ بندھن ۲۰۱۹ء کے لئے وجود میں آئے گا تاکہ بی جے پی سے موثر مقابلہ کیا جا سکے ،اس کی کیا گارنٹی ہے کہ انتخابات کے نتائج کے بعد وہ یک جُٹ رہ سکے؟جو کام نتیش کمار نے انجام دیا ہے وہی مایاوتی ،چندرا نائڈو،رام ولاس ،شرد پوار،اجیت سنگھ،مانجھی وغیرہ کیوں نہیں دے سکتے؟ یہی بات جب میں اپنے ایک دوست سے کہتا ہوں تو وہ مجھے قنوطی یعنی نراشا وادی کہتے ہیں لیکن میرے آشاوادی یا قنوطی ہونے سے کیا ہوتا ہے؟کیا یہ ممکن ہے کہ انتخابات سے پہلے جو گٹھ بندھن وجود میں آئے وہ ایک حلف نامہ بھی تیار کرے کہ کسی قیمت پر وہ بی جے پی کے ساتھ نہیں جائیں گے؟ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو پھر بی جے پی ہی بازی مارے گی۔
……………………..
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو ، نئی ممبئی کے مدیر ہیں؛رابطہ9833999883