دنیا بھر کی موجودہ آبادی کے 23.4 فیصد مسلمان ہیں جو اگلے بیس سال میں 26 فیصد سے تجاوز کرجائیں گے۔ دنیا میں مسلمانوں کی آبادی دیگر مذاہب کے مقابلے میں اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ اس صدی کے اختتام تک اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائےگا۔ دنیا بھر میں مذاہب اور عوامی زندگی پر نظر رکھنے والے امریکی تھنک ٹینک Pew Research Center کے مطابق اس وقت مسلمانوں کی آبادی دنیا کی آبادی کا 23 فیصد ہے جو 2050 تک 30 فیصد تک پہنچ جائے گی اور دنیا میں ہر تیسرا شخص مسلمان ہوگا۔مسلمان ہونے کے ناتے یہ خبر یقینی طور پر ایک ان دیکھی سی تسکین دیتی ہے لیکن یہ حقائق بھی اپنی جگہ تکلیف دہ ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود دنیا میں سب سے زیادہ استحصال اور ظلم کا شکار بھی مسلمان ہی ہیں۔دنیا میں عیسائیوں کی تعداد 2.2 ارب، اور ہندوؤں کی تعداد 1.08 ارب ہے۔ اس کے باوجود دنیا بھر میں مسلمان ہی کیوں تباہی ذلت اور ظلم کا شکار ہے؟ یہ ایک قابل غور سوال ہے۔کچھ روز قبل سوشل میڈیا کی ایک ویب سائٹ پر کچھ سنجیدہ دوست شام کے قتل عام پر پریشان تھے اور اس کا حل اور وجوہ تلاش کرنے کی کوشش کررہے تھے تو اس دوران مجھ پر ایک عجیب انکشاف ہوا، اور وہ یہ کہ ایک صاحب جن کا تعلق اہل تشیع مکتب فکر سے تھا، وہ شام میں ہونے والی خانہ جنگی کو اسرائیل اور امریکا کی سازش قرار دے رہے تھے جب کہ دیگر جن کا تعلق سنی مکتب فکر سے تھا، وہ اسے سنیوں کی نسل کشی ثابت کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ کوئی ایران اور ترکی کو نجات دہندہ کہہ رہا تھا تو کوئی اس کو شیعہ سنی فسادات ثابت کرنے میں سردھڑ کی بازی لگا رہا تھا۔مجھے حیرت پر حیرت مزید ہوتی گئی کہ ان میں سے اکثر لوگ صحافت سے وابستہ اور تعلیم یافتہ تھے لیکن کوئی بھی اس نکتے تک نہ تو پہنچ رہا تھا اور نہ کوشش کررہا تھا کہ یہ سارا مشرقی وسطیٰ پر اپنی حکمرانی کا کھیل ہے جہاں روس، امریکا، ایران، ترکی، سعودی عرب، قطر، اسرائیل اور دیگر ممالک کوششیں کررہے ہیں۔ یاد رکھئے کہ دو قومیں تو دوست ہوسکتی ہیں لیکن دو ملک دوست نہیں ہوسکتے۔ ممالک کے معاملات ہمیشہ قومی مفادات پر بنتے اور بگڑتے ہیں۔ مذہب، رنگ، نسل اور کلچر اس میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا۔شام میں خانہ جنگی کی اصل وجہ جاننے کےلیے ہمیں ماضی میں جانا ضروری ہے۔شرقی وسطیٰ میں کُرد قوم اکثر تنازعات کی وجہ رہے ہیں۔ کردستان مشرق وسطیٰ کے ایک جغرافیائی و ثقافتی خطے کا نام ہے جس میں کرد نسل کے باشندے رہتے ہیں۔ کردستان میں شمالی اور شمال مغربی بین النہرین سے ملحقہ علاقے شامل ہیں۔ پہلی جنگ عظیم سے اب تک کردستان 4 ممالک میں تقسیم ہے جن میں عراق، ترکی، ایران اور شام شامل ہیں۔کرد تین سو سال قبل مسیح سے ایران سے شام تک پھیلے ہوئے ہیں، ساتویں صدی میں کرد مشرف بہ اسلام ہوئے۔پہلی جنگ عظیم سے پہلے کرد اس علاقے میں سلطنت عثمانیہ کے تحت خانہ بدوشوں کی زندگی گزارتے تھے۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مشرق وسطی میں کئی نئی آزاد مملکتیں وجود میں آئیں لیکن آزاد خودمختار مملکت کے بارے میں کردوں کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا حالانکہ 1920 کے سیورے کا معاہدہ (Treaty of Sevres) جنگ عظیم اول کے بعد 10اگست 1920 کو اتحادی قوتوں اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان طے پانے والا امن معاہدہ تھا۔ اس معاہدے پر عثمانی سلطنت نے دستخط کردیئے تھے لیکن اسے ترکی کی جمہوری تحریک نے مسترد کردیا اور اس معاہدے پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔مصطفیٰ کمال اتاترک کی زیر قیادت اس تحریک نے معاہدے کے بعد ترکی کی جنگ آزادی کا اعلان کر دیا اور موجودہ استنبول میں بادشاہت کو ختم کرکے ترکی کو جمہوریہ بنادیا جس کے بعد عراق، شام اور کویت کی آزاد مملکتیں وجود میں آئیں۔ معاہدے کے ختم ہونے پر کردوں کی ایک آزاد مملکت کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن ترکی میں مصطفیٰ کمال اتاترک کے برسرِاقتدار آنے کے بعد ترکی نے اور اس کے ساتھ ایران اور عراق نے کردوں کی آزاد مملکت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ گو کہ شمالی عراق میں کردوں کی آبادی ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہے لیکن سب سے زیادہ تعداد ان کی ترکی میں ہے جہاں یہ ایک کروڑ اسّی لاکھ کے قریب بتائے جاتے ہیں۔ شام میں ان کی تعداد اٹھائیس لاکھ ہے اور ایران میں اڑتالیس لاکھ کے قریب ہیں۔ ایران میں کردوں کی اکثریت آذربائیجان اور ہمدان کے علاقے میں آباد ہے جسے ایرانی کردستان کہا جاتا ہے، کرد اسے مشرقی کردستان کہتے ہیں۔ایران میں کردوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ سترہویں صدی سے شروع ہوا تھا جب شاہ عباس نے کردوں کو بڑے پیمانے پر زبردستی خراسان منتقل کردیا۔ پھر 1946 میں قاضی محمد کی قیادت میں بغاوت ہوئی اور کردوں نے مہا آباد جمہوریہ کے نام سے ایک الگ مملکت قائم کی جو زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔ قاضی محمد کو آخر کار پھانسی دی گئی۔ایران میں رضا شاہ پہلوی کے دور میں کردوں کی زبان پر پابندی عائد کی گئی اور 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد آیت اللہ خمینی نے کردوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اور بڑے پیمانے پر کرد علاقوں میں فوجی کارروائی کی گئی۔ آخرکار کردوں کو حکومتی رٹ تسلیم کرنی پڑی۔ادھر شمالی عراق میں کردوں نے 1960 سے 1975 تک مصطفیٰ برزانی کی قیادت میں بغاوت کی جس کے نتیجے میں انہیں خودمختاری حاصل ہوئی لیکن 1991 میں کردوں کی بغاوت کے بعد صدام حسین کی حکومت نے اس علاقے پر دوبارہ قبضہ کرلیا اور کردوں پر سخت مظالم توڑے۔البتہ عراق میں صدام حسین کے زوال کے بعد کردوں کو نئے آئین کے تحت خودمختاری حاصل ہوگئی تھی اور ان کی علاقائی پارلیمنٹ بھی تسلیم کرلی گئی تھی۔ عراق کی جنگ کے بعد امریکا نے تیل کی دولت سے مالامال کردوں کی ہر فورم پر کھل کر حمایت کی اور اپنے مقاصد پورے ہونے کے بعد منہ موڑلیا۔ گزشتہ کچھ ماہ پہلے کردوں نے اپنی آزاد خودمختار مملکت کے قیام کےلیے ریفرنڈم کا بھی انعقاد کیا تھا جسے عراقی حکومت نے مسترد کر دیا اور فوج کشی کرکے کردوں کی آزادی کے سارے خواب چکنا چور کردیئے۔یہی وجہ ہے کہ کردوں کی تاریخ ایران اور عراق میں بغاوتوں سے عبارت ہے۔ ترکی میں کردوں نے 1925 میں شیخ سعید کی قیادت میں بغاوت کی تھی جس کے بعد ترکی کی حکومت نے کردوں کے خلاف نہایت سخت گیر پالیسی اختیار کی اور ان کی زبان و ثقافت ختم کرکے پہاڑی ترک قرار دیا۔ پہاڑی ترک قرار دے کر انہیں ترک معاشرے میں ضم کرنے کی مہم شروع کردی۔1978 میں ترکی کے کردوں نے جب آزادی اور خودمختاری کی تحریک شروع کی تو بڑے پیمانے پر ترک حکومت اور کردوں کے درمیان معرکہ آرائی کی آگ بھڑک اٹھی۔ یہ تحریک ترکی کی معیشت کےلیے بے حد تباہ کن ثابت ہوئی۔ اس دوران ترکی کی معیشت کو 450 ارب ڈالر کا خسارہ ہوا۔ آخرکار اس تحریک کے قائد عبداللہ اوجلان نے 2015 میں تحریک ختم کرنے کا اعلان کیا اور یہ معرکہ آرائی بھی ختم ہوئی۔کردستان کے علاوہ پوری دنیا میں ایک کروڑ سے زیادہ کرد پھیلے ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر وہ ہیں جنہوں نے ترکی، عراق اور ایران میں حکومتی جبر سے راہ فرار اختیار کی۔یہ ہے وہ مختصر تاریخ جس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں خانہ جنگی کی صورت حال رہی ہے۔
اب شام کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں۔شام میں ہونے والی خانہ جنگی کا تعلق براہ راست مشرق وسطیٰ سے ہے۔ جب 2011 میں تیونس سے تعلق رکھنے والے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے والے محمد بوعزیزی نے ریاستی ناانصافیوں سے تنگ آکر میونسپل آفس کے سامنے خود پر تیل چھڑک کر آگ لگالی۔ عزیزی کے جسم سے اٹھنے والے شعلوں نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا۔ ہرعمر اور جنس کے لاکھوں سینوں میں دفن برسوں کی آگ لئے سڑکوں پر آگئے۔ تیونس کے حکمرانوں کو اپنا عشروں پر محیط اقتدار چھوڑ کر فرار ہونا پڑا۔یہ آگ صرف تیونس تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ اس نے پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مصر، یمن، اردن، الجزائر ہر جگہ پر آمریتوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے اور سالہاسال سے اقتدار پر قابض حکمرانوں کو فرار ہونے پر مجبور کردیا۔ محمد بوعزیزی سے شروع ہونے والی اس تحریک نے بڑھتے ہوئے برسوں سے رائج آمریتوں کا خاتمہ کیا۔ شام میں بھی بہارِ عرب (عرب اسپرنگ) نے برسوں سے سطح کے نیچے موجود مروجہ نظام کے خلاف نفرت کے لاوے کو پھٹنے میں مدد دی اور یوں 2011 میں ایک نوجوان نے اسکول کی دیوار پر ’’بشار الاسد! اب تمہاری باری ہے‘‘ لکھا۔اس جرم کی پاداش میں اس نوجوان کو حکومتی اہلکاروں نے گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جس کے خلاف مارچ 2011 میں شام کے جنوبی شہر میں جمہوریت کے حامیوں نے احتجاج کیا۔ اس پر حکومت نے سختی سے نمٹتے ہوئے احتجاج کو پرتشدد طریقے سے منتشر کردیا۔ اس ریاستی جبر نے عوامی لاوے کو پھاڑ کر ایک انقلاب کا آغاز کیا۔بظاہر احتجاجوں کے مطالبات زیادہ تر سیاسی نوعیت کے تھے لیکن جوں جوں تحریک آگے بڑھتی گئی تو معاشی و سماجی مطالبات کے ساتھ پورے نظامِ کو چیلنج کرنے لگی۔ اب سوال یہ ہے کہ شامی اپنی حکومت کے خلاف کیوں کھڑے ہوئے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
(بقیہ سوموار کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)