جُھنجُھنو راجستھان کا ایک مشہور ٹاؤن ہے، وہاں کا ستی مندر مشہور ہے۔ حکیم یوسف قریشی جھنجھو کے مشہورشاعر ہی نہیں معزز شخص بھی تھے، ان کی تکریم وتعظیم اہل ہنود میں مثالی تھی ،وہ ہمیں ستی مندر دِکھانے لےگئے ،وہاں جتنے مہنت تھے وہ حکیم یوسف قریشی کا جس درجہ احترام کر رہے تھے، ہم نے کہیں اورکسی مسلمان کی ایسی عزت نہیں دیکھی۔ممبئی کے ممبا دیوی کے علاقے میں ہندی کے ایک شاعر نیرو ؔکے نام سے ایک گلی واقع ہے، وہاں چالیس برس قبل ہر اتوار کی شام بلا تفریق زبان و بھاشا ،ایک شعری نشست (کویتا گوشٹی) منعقدہواکرتی تھی ۔اس نشست کی ایک بات یہ بھی یاد ہے کہ وہاں قوم و مذہب کا بھید بھاؤ نہیں تھا۔ سیٹھ بنواری لعل اتوار کی شام اپنے گھر( سانتا کروز) سے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں حاضر ہوتے اور اپنے سورگ باشی کوی دوست نیرو ؔکی یاد میں اس نشست کا چراغ روشن کرتے تھے۔ واضح رہے کہ سیٹھ بنواری لعل کیلئے کویتا پاٹھ یا سخن گوئی کوئی معنی نہیں رکھتی تھی مگر نشست کے اخیر تک وہ جمے رہتے تھے اور تمام شرکا کی چائے وغیرہ سے خاطرتواضع کرتے تھے۔ یہ عمل برسہا برس تک چلتا رہا۔ اسی نشست کے ایک اور بزرگ بھی ہمارےدِل میں اپنے خلوص کے ساتھ دھڑکتے محسوس ہوتے ہیں، داؤ دَت جی کا تعلق بھی متھرا سے تھا وہ جگر(مرادآبادی) اور اُس زمانے کے اکثر اُردو شعرا کے صحبت یافتہ تھے، تھے تو وہ ہندی ہی کے آدمی مگر اُن کو اُردو تہذیب ، ادب و آداب اَزبر تھے۔ ہمیںاُن کی آنکھوں میں شفقت کی ایک دلکش روشنی نظر آتی تھی، وہ ہماری طرف نگاہ کرتے ہوئے مرزاغالبؔ کے مشہور شعر کا صرف ایک مصرع ع غالب ندیم ِ دوست سے آتی ہے بوئے دوست
ضرور پڑھتے اور’’ پھر کچھ سناؤ بھئی ندیم سناؤ‘‘کی تکرار اُن کا تکیہ کلام تھا۔ چھوٹوں سے ان کی شفقت اور محبت اس قدر تھی کہ اس نشست کا ہر شخص اُن کے پیر چھونے میں ہر دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش کرتا تھا اورہمیں ہمارا دِین اس عمل سے روکتا تھا مگر سچ یہ بھی ہے کہ تصور میں ہمارے قلب و نگاہ ان کےقدموں میں محسوس ہوتےتھے۔بھیونڈی میں ہمارے جانی دوست نصیر مومن کے وا لدمحترم (غلام رسول سیٹھ )کے ایک دوست شریمان بھارت چھَ وَر جنہیں مومن خاندان کا ہرفرد بابو جی جیسے کلمہ ٔتکریم سے یاد کرتا تھا اور جب مومن خاندان میں کوئی شادی وغیرہ کی تقریب ہوتی تو وہ اپنے وطن گوالیار سے بھیونڈی بہ نفسِ نفیس آتے اور مومن خاندان کے ایک بزرگ اور پوروَج کی طرح شادی کی تمام ذمے داری میں پیش پیش رہتے تھے۔ہمارے ایک ماموں کے تجارتی شرکت دار رام داس،ہمارےدوسرے ماموں کی شادی میں شرکت کرنے کیلئے شہزاد پور(الہ آباد) گئے اوراُس زمانے میں جب چھوٹے سے گاؤں میں رات بارات نکلی تو دولہے ماموں پراُن کے بھائیوں نے چاندی کے پانی چڑھے سکے لٹائے تھے۔اس عمل میں رام داس ماموں سبقت لے گئے تھے، جیسے وہ دولہا ماموں، وحید احمد ، نثار احمد ہی کا بھائی نہیں رام داس ماموں کا بھی سگا بھائی ہو۔بابری مسجد کی شہادت کے بعد عروس البلاد ممبئی میں جس طرح فساد پھوٹا اور کس کس طرح لوگوں کو شکار کیا گیا ، جنہوں نے وہ منظر دِل خراش دیکھے یا اس کا حصہ رہے ہیں، وہ کیسے فراموش کر سکتے ہیں۔ ہمارے ایک رفیقِ کار باریش کاتب عرفان قاسمی جب شر پسندوں میں ِگھرےتو مشہور کرکٹر سنیل گاؤسکر اُن کو بچانے میں مددگار ہوئے تھے، یقین ہےکہ عرفان قاسمی اسے تا عمر بھلا نہیں پائیں گے۔ہمارے والد نوے برس کی عمر میں بھی اپنے پڑوسی نانا رام پرساد اور ان کے بیٹے ماموں رام بلی کا نام لیتے ہوئے آب دیدہ ہوجاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’’ہمارے بچپن میں مُرصّع پورجیسے چھوٹے سے موضح میں ہندو مسلمان سب شیرو شکر تھے۔نانارام پرساد کی پنساری کی دُکان تھی، ہمارے ابا خلیل احمد رنگو ن میں حصولِ معاش میں مشغول تھے۔ شدید عسرت و غربت کا زمانہ تھا، ایک منظر نہیں بھولتا کہ ایک دن نانا رام پرسادگھر پر آئے اور ہماری امّاں کو مخاطب کرکے کہنے لگے:ننھی! گھر میں کھانے وانے کا سامان تو ہے نا، کوئی ضرورت ہوتو بتاؤ، ہماری اماں نے کوئی جواب نہیں دیا تو انہوں نے اماں کے چہرے پر ایک نگاہ کی اور فوراً اپنی دُکان گئے ،کچھ دیر کے بعد ایک بڑے تھیلے میں گیہوں،دال، چاول اور تیل وغیرہ لے کر آئے اور سب یہ کہہ کر دے گئے :ننھی! یہ سب سامان رکھو اور جب خلیل پیسہ بھجوائے تو دے دینا۔‘‘یہ سارے مناظر کسی فلم یا کسی افسانے کا حصہ نہیں بلکہ چشم دید واقعات ہیں واقعات۔ ہم پھر لکھ رہے ہیں کہ افسانے ، کہانیاں کہیں اور سے نہیں ہمارے معاشرتی حقائق ہی کے بطن سے جنم لیتےہیں۔مشرف عالم ذوقی عہد ِ نوکے ایک ممتاز فکش نگار ہیں ،اُن کی ایک کہانی سولہ برس بعد بھی ذہن میں اسی طرح تازہ ہے جو ایک پنڈت اور مرتضیٰ جیسے پڑوسیوں کے تعلقات کے پس منظر سے بُنی گئی تھی۔ مسلمان مرتضیٰ کی ننھی بیٹی جو ہندو پڑوسی کو بھی اتنی ہی عزیز تھی جتنی اپنے باپ کو، فسادات کا دور تھا بیٹی کے ذہن پر شہر میں ہونے والے فسادات کا اثر ہوگیا ، رات کے وقت وہ خو ف و ہراس کے مارے شدید بخار میں مبتلا ہوگئی، سویرا ہوا تو مرتضیٰ کی بیٹی کو پنڈت دیکھنے اس کے گھر پہنچا، بستر پر بیٹی کو دیکھ کر اُس کا ماتھا ٹھنکا، مرتضیٰ سے پوچھا، جواب ملا کہ رات سے اس کی یہ حالت ہے۔ پنڈت برہم ہوا کہ تم نے مجھ کو رات ہی میں کیوں نہیں بلایا؟ کیوں نہیں بتایا؟ میں اس پر اشلوک پڑھ کر پھونکتاتو بخار بھاگ جاتا۔ پنڈت نے بیٹی کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اُس سے بات کرنے کی کوشش کی مگر ڈرِی سہمی بیٹی کی زبان گنگ تھی، بیٹی کی آنکھوں میں اب بھی کوئی چمک نہیںدکھائی دی۔ اب پنڈت بیٹی سے کہتا ہے:’’ بولے گی نہیں … نہیں بولے گی ! نہیں بولے گی تو یہ شہر چھوڑ کر چلا جاؤں گا ۔ ۔۔ میرا جرم تو بتا دے بیٹی۔۔۔‘ ‘پنڈت جی ، بیٹی کی چپ پر تقریباًروہانسےہوگئے اور چیخ پڑے :’’ سُن ہندو ہوں، مودی نہیں ہوں مَیں‘‘۔بیمار بیٹی اور مرتضیٰ ، حیران ، اُن کا چہرہ دیکھ رہے تھے ۔ دوسرے ہی لمحے بیٹی پنڈت جی کے گلے سے لگ کر زور زور سے روپڑی !۔۔۔ کہانی یہیں ختم ہوکر رہ گئی مگر ہمارے ذہن میں شاید کبھی ختم نہیں ہوگی۔آج جس طرح دھرم اور مذہب کے نام پر ہم کو بانٹ دیا گیا ہے وہ کل ہماری نسلوں کو نہ جانے کس کھائی میں لے جائے گا؟ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ بسا اوقات ہم سوچتے ہیں کہ ہمارا ملک 1947 میں آزاد ہوا تھا یا بربادی کی راہ پر چل پڑا تھا، جس کی منزل ہمارے سامنے ہے۔ کبھی کبھی ہم یہ بھی سوچتے ہیں کہ کیا کل ہندو ، ہندو نہیں تھا کیا کل اس ملک میں مسلم، مسلمان نہیں تھا؟۔۔۔۔ جواباً ضمیر کی آواز گونجتی ہے کہ نہیں کل کا آدمی جو گزر گیا وہ مسلمان یا ہندو تھا یا نہیں مگر وہ خود غرض نہیں تھا۔ ہم تمام حقائق سے منہ پھیرے ہوئے، صرف غرض کے بندے بنے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے اس کفر کا نتیجہ وہی ہوگا جو سامنے ہے۔۔۔ اللہ دلوں کو پھیرنے پر قادر ہے۔ اے کاش ایسا ہوجائے!ورنہ تباہی اور بربادی ہمارا مقدر ہی بنی رہےگی۔