گاہے بگاہے کچھ کلمات یا محاورات دل و دماغ پہ چھا جا تے ہیں اور کسی جادوگرنی یا چڑیل کے تصور کی مانند خوابوں میں بھی پریشانی کا سبب بنتے ہیں۔ ایسے کلمات و محاورات کو دل و دماغ سے نکالنے کیلئے یہ ضروری بن جاتا ہے کہ اُن کے بارے میںبغیر کسی خوف کے اور کھل کے بات کی جائے۔ کئی دنوں سے ایک انگریزی کلمہ tree) میرے ذہنی پریشانی کا سبب بن گیا ہے۔قارئین کی جانکاری کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ کسی بھی زبان کے محاورے کو کسی اور زبان میں ترجمہ نا ممکن ہے، چونکہ یہ اُسی زباں کے ساتھ مخصوص ہوتا ہے جس سے یہ لفظ منسلک ہو (پھر بھی مقالہ نگار کے مذکورہ کلمے کے لفظی معنی’’ غلط درخت پہ چڑھ کے بھونکنا ‘‘ہو سکتا ہے۔آگے اس محاورے کے مفہوم کو جاننے اور اُس سے منسوب فکر و خیال کو جاننے کی کوشش کی جائے گی)۔اس محاوراتی کلمے کی گونج ایک ایسی مجموعے میں سنائی دی جہاں نئی دہلی میں تعینات کئی ممالک کے سفیر موجود تھے ۔نئی دہلی میں خارجی ممالک کے تعینات سفیروں کی مجموعی تعداد میں سے نصف سے زیادہ سفیر اس اجتماع میں موجود تھے۔اس اجتماع کے منتظم (PHD Chamber of Commerce and Industry: پی ایچ ڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز ) کے زعماء تھے۔ ظاہراََ یہ اجتماع’’ کشمیر:آگے کا راستہ ‘‘ جاننے اور پہچاننے کے ضمن میں ترتیب دیا گیا تھا اور اُس کا مدعا اور مقصدکشمیر میں سیاحت کا فروغ اور سرمایہ کاری کو بارآور کرنا رہا۔
اِس اجتماع کے پس پردہ مقاصد کے ساتھ ایک تاریخ وابستہ ہے۔1948 ء سے ہی نئی دہلی نے بہ عرف عام مین اسٹریم یعنی بھارتی قومی دھارے سے وابستہ کشمیری سیاست دانوں کو دنیا کے مختلف ملکوں کے دارلخلافوں میں اپنے نکتہ نظر کی تشہیر کیلئے بھیجا ۔وہ اقوام متحدہ کے صدر دفتر نیو یارک بھی جاتے رہے اور جینوا بھی جہاں حقوق بشر کی کونسل اپنے اجتماعات وقفے وقفے سے ترتیب دیتی رہتی ہے۔ 1993ء میں جب پاکستان نے اقوام متحدہ کے حقوق بشرکے کمیشن (UN Human Rights Commission) کے سامنے حقوق بشر کی خلاف ورزیوں کے ضمن میں ایک قرار داد پیش کی تو مین اسٹریم سیاستداں جو دہلی اور لنڈن میں میں دربدر پھر رہے تھے اپنی صفوں کو پھلانگتے ہوئے سامنے آئے تاکہ مذکورہ قرارداد کو ناکامی سے دو چار کریں۔
ماضی قریب میں دہلی میں جو اجتماع ترتیب دیا گیا اور جس کا مقالے کے آغاز میں ذکر ہوا ہے اپنی طرز کی پہلی سفارتی مشق تھی جو کشمیر کے ضمن میں تشکیل دی گئی اور یہ پہلا ایسا اجتماع تھا جسے ریاستی سرکار کی تحریک پر ترتیب دیا گیا۔ جو پیغام کانفرنس کو دیا گیا اُس کا مقصد یہ باور کرو انا تھا کہ ریاست میں سب ٹھیک ہے جب کہ عالمی لیڈرشپ یہ کہہ چکی ہے کہ امکانی نیوکلیر (ایٹمی) جنگ کے سبب یہ دنیا کی خطر ناک ترین جگہ بن چکی ہے۔ ریاست پچھلی سات دَہائیوں سے سفیروں کی توجہ جلب کئے ہوئے ہے اور یہ بات ایک طفل مکتب بھی جانتا ہے کہ ایک سفیر کا کام اپنے ملک کے تحفظات کی نگہبانی ہے ۔سفیروں کی نگاہ متنازعہ مقامات پہ لگی رہتی ہے خاص کر کشمیر جیسے متنازعہ مقام پر جہاں ہمسایہ ملکوں کے ساتھ کشیدگی ہے۔کشمیر ایک ایسا ہی مقام ہے جس کی سرحدیں پاکستان،چین اور افغانستان سے ملتی ہیں۔ اہم ممالک کے سفیر جن میں یورپی یونین کے ممالک کے سفیر بھی شامل ہیںکا ریاست میں مسلسل آنا جانا لگا رہتا ہے تاکہ اپنے ممالک کو تازہ ترین حالات سے آگاہ رکھیں۔اپنے سفارت خانوں کے مراسلوں پہ ہی یہ ممالک میزبان ملک اور خطے کے بارے میں اپنی پالیسی ترتیب دیتے ہیں۔
نئی دہلی میں سفیروں کے اِس اجتماع میں وزیر خارجہ یا ساوتھ بلاک کا کوئی بڑا عہدہ دار موجود نہیں تھا (قارئین کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ نئی دہلی کے ساوتھ بلاک میں بھارت کی وزارت خارجہ کے دفاتر واقع ہوئے ہیں)بلکہ پی ڈی پی کا ایک منسٹر تھا جس نے ایک ایسے محاورے کا استعمال کیا جس کیلئے اُسے وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے اُسے چلتا کیا۔ چونکہ اس محاوراتی کلمے کو ’’تنظیم کی اصلی پالیسی‘‘ کے منافی قرار دیا گیا۔منسٹر کی ے دخلی پہ تبصرہ کرنا میرا کام نہیں ہے، نہ ہی میں اِس موضوع کو لئے کسی بحث میں شامل ہونا چاہتا ہوںکہ آیا وزیر کی بے طرفی کے پس پردہ پی ڈی پی کی تنظیم کے اندر رسہ کشی تھی یا بیرونی محرکات تھے یا بقول سید میر قاسم کہیں ایسا مرحلہ تو نہیں تھا جہاں نئی دہلی پہ یہ احساس چھا گیا کہ ’’ریس کورس میں لگا ہوا گھوڑا تھک گیا ہے اور ایک تازہ دم تیز رفتار گھوڑے کی ضرورت ہے‘‘۔مجھے یہ نہیں معلوم کہ بر طرف شدہ وزیر کہیں تازہ دم تیز رفتار گھوڑا تو نہیں؟مارلو کے ڈرامائی کردار تمبورلین کی مانند جہاں ڈرامے کا عنواں ’تمبورلین ‘ ہی ہے، نئی دہلی ریاست کی بھاگ ڈور سنبھالنے پہ مامور اہل کاروں کو چابک مارتی رہتی ہے یہ کہتے ہوئے کہ’’ ایشیائی ناز و نعم میں پلے ہوئے نیچ نسل کے گھوڑو !تم دن میںبیس میل سے زیادہ کیا کھنچ سکتے ہو؟‘‘
محاورہ (barking up the wrong tree:غلط درخت پہ چڑھ کے بھونکنا) جسے نئی دہلی میں سفیروں کے اجتماع میں استعمال میں کیا گیا کس منفی انداز سے ریاست کے لوگوںکی اجتماعی فکر کو متاثر کر گیا اُس کیلئے دیکھنا پڑے گا کہ اس محاورے کا استعمال کس ضمن میں کیا گیا۔ سابق وزیرخزانہ حسیب درابووزیر نے سفیروں کے اجتماع میں اپنی تقریر کے دوران کہا’’میں جموں و کشمیر کو ایک متنازعہ ریاست نہیں سمجھتانہ ہی میں اُسے ایک سیاسی قضیہ مانتا ہوں۔یہ ایک ایسا سماج ہے جس کے موجودہ تناظر میں سماجی مسائل ہیں۔ یہ(جموں و کشمیر)جہاں تک مجھے نظر آتا ہے ایک سیاسی مسلٔہ نہیں ہے اور جو پچھلے 50 یا 70 سال سے اُس کو سیاست سے منسوب کرتے ہیں، غلط درخت پہ چڑھ کر بھونک رہے ہیںچونکہ سیاسی حالات کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوئے‘‘۔جتنا بھی اِس محاورے کے بارے میں سوچا جائے یہی نظر آتا ہے کہ یہ نہ صرف اس لئے استعمال میں لایا گیا کہ تحریک کشمیر کے تاریخی تسلسل اور بین الاقوامی طور پہ مانے جانے والے مسلٔہ کشمیر کی نفی ہو بلکہ اس عوامی تحریک کی نفریں کی جائے جو قید و بند اور قربانیوں کی ایک درد ناک داستانِ راستاں ہے۔
سفیروں کے اجتماع میں محاورے کا استعمال کس قدر نقصان دہ ہو سکتا ہے اُس کا اندازہ محاورے میں لفظ ’’بھونکنے‘ ‘اور اِس محاورے کے مفہوم کے ادراک سے ہو سکتا ہے۔ انگریزی لغت’ و بس ٹرسII (Webster's II)‘میں ('bark'بھونکنے) کی تعریف یہ ہوئی ہے کہ ’’یہ کتے کا اچانک اور کرخت آواز میں بھونکنا ہے‘‘ جب کہ لغت’ آکسفورڑ(Oxford)‘ میں اُسے ’’کتے یا لومڑی کے بھونکنے سے تشبیہ دی گئی‘‘ ہے۔جہاں تک محاورے ’غلط درخت پہ چڑھ کر’’ بھونکنے‘ ‘ کے مفہوم کی بات ہے یہ 19ویں صدی میں امریکا میں استعمال میں لایا گیا جب کتوں کے ایک جھنڈ سے شکار کرنے کا شغل عام تھااور ایسے میں چاک و چالاک جانور جن کا شکاری شکار کرنا چاہتے تھے کتوں کو یہ چکمہ دیتے تھے کہ وہ کسی ایک خاص درخت کے اوپر جا چھپے ہیں جب کہ حقیقت میں کہیں اور جا کے چھپ جاتے تھے۔یہ محاورہ پچھلے دو سو سال سے استعمال میں ہے اور محاورے کا مدعا و مفہوم ایک لا حاصل ہدف کی تلاش ہے ۔انگریزی لغت ’’کولنس‘ میںاُس کا مفہوم ــ’’ایک غلط عقیدے کی خاطر ایک ناقص طرز عمل کی پیروی ہے‘‘ ۔ جو بات سفیروں کے اجتماع میں کہی گئی وہ اُس بات سے مطابقت رکھتی ہے جو کہ آر ایس ایس چیف نے پچھلے ہفتے جمعرات کے روز ایک تند و تیز بیان میں کہی اور جس میں کہا گیا کہ ’’مسلٔہ کشمیر کو مسلہ نہیں ماننا چاہیے‘‘(گریٹر کشمیر: 17-3-2018)لیکن سابق وزیر کی مغرورانہ ومفسدانہ تقریر یا کسی اور کی اس بارے میں لب کشائی لوگوں کی ایک مقبول عوامی تحریک یا اُس کی قانونی حیثیت پہ تب تک اثر انداز نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ اپنے سیاسی اہداف حاصل نہ کر لے۔
Feedback on: [email protected]