قدیم دور میں وادی کشمیر کا بیرو نی دنیا کے ساتھ رابطہ صرف دو قد رتی راستوں کے ذریعہ تھا اور کشمیر کی ساری دنیا کے ساتھ تجارت اور کاروبار ان ہی دو راستوں سے ہو تا تھا :ایک سلک روٹ یا شاہراہِ ابریشم تھی، یہ عہد وسطی میں دنیا کی سب سے زیا دہ مشہو ر اور پُر اسرار شا ہراہ تھی ، دنیا کے انتہائی اہمیت کے حامل اور دشوار گذار خطوں سے گذرتی ہو ئی یو رپ کی قدیم سلطنت روما تک جا تی تھی ،جس کا فاصلہ پندرہ ہزار کلو میٹر تھا اور دوسری شاہراہِ نمک تھی جو آج کل مغل روڈ کے نا م سے جا نی جاتی ہے ۔یہ مغر بی پنجاب کے علا قہ گجرات اور جمو ں وکشمیر کی سر حد بھمبر سے شرو ع ہو تی ہے اور بھمبر سے سرینگر تک مسافت تین سو کلو میٹر ہے ۔یہ شا ہراہ ِبھمبر سے شروع ہو کر نو شہر ہ راجوری تھنہ منڈی،بہرام گلہ،اور دوبھجن سے ہوتی ہو ئی کشمیر کی وادی میں داخل ہوتی ہے ۔قدیم دور میں کشمیر وادی میں نمک ایک نا در ونا یا ب چیز ہو تی تھی اور پنجاب کے کھیوڑہ علا قہ کی پتھر کی کانوں کا قدرتی نمک اسی راستے گھوڑو ں و گدھوں اور بار بر داری والے لو گو ں کے ذریعہ وادی میں پہنچتا تھا ۔اس لئے تاریخ میں پہلی دفعہ یہ راستہ شاہراہ نمک کے نا م سے مشہو ر و متعارف ہوا ۔مشہور چینی سیا ح ہیون سانگ 629ءمیں اسی سلک روٹ اور شا ہراہ نمک کے راستہ ایک لمبی اور دشوار گذار مسافت طے کر کے ہندوستان میں داخل ہوا اور پھر 645ئمیں اپنا دورہ مکمل کر کے اسی راستہ چین واپس گیا۔ قدیم دور سے یہ دونوں شاہراہیں کشمیر اور ہندوستان کے ساتھ روابط کارو بار و معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھیں ۔امیر کبیر میر سید علی ہمدانیؒ نے بھی کشمیر میں داخل ہو نے کے لئے پہلی دفعہ سلک روٹ اور دوسری دفعہ مغل رو ڈ کو استعمال کیا ۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں کشمیر اور اس سے ملحقہ خطوں کا سیا سی تاریخ جغرافیہ تبدیل ہو نے کے باعث یہ دو نوں راستے بھی بند ہو گئے ۔اس وجہ سے خطہ پیر پنچال کی معیشت و معاشرت پر منفی اثرات پڑے ۔
1587میں مغل با دشاہ جلا ل الدین اکبر کے جر نیل قاسم خان کابلی کی قیا دت میں جب کشمیر پر قبضہ کر کے اسے مغلیہ سلطنت کا حصہ بنا یا تو اکبر نے تین ہزار سنگ تراش اور دس ہزار کارگذار بھمبر سے سرینگر تک راستے کی ہمواری اور دُرستگی کے لئے روانہ کئے ۔انہوں نے اکبر کی کشمیر آمد سے قبل بڑی محنت و لگن کے ساتھ اس سارے راستہ کو درست کر کے با دشاہ کے قافلہ کی آمد و رفت کے قابل بنا یا۔ اسی مناسبت سے یہ راستہ مغل روڈ کے نا م سے موسوم چلا آرہا ہے ۔ بعد میں اکبر اور دیگر مغل حکمرانو ں نے بھمبر سے سرینگرتک کو ئی ڈیڑھ درجن قلعہ نما سرائیں اور پیر پنچال رینج میں گول قسم کی بر جیا ں تعمیر کروائیں جنہیں اس علاقہ میں مڑھ کا نا م دیا گیا۔ مغل رو ڈ پر تعمیر ہو نے والی ان سرائوں میں شاہی بیگمات کے لئے خصو صی حر م خانے ،چہل قد می کے لئے باغیچے اور ہوا خوری کے لئے ہوا دار بر جیا ں تعمیر کی گئیں، جب کہ مڑھ میں شاہراہ کی حفاظت پر معمور پہرے دار رہا کر تے تھے جو اس شاہراہ پر سفر کر نے والے شاہی قافلوں کی حفاظت اور عام راہگیروں کی نگرانی کر تے تھے ۔ان سرائوں میں بھی خصوصی دستے تعینات تھے جن کا کام اس شا ہراہ کی دیکھ ریکھ اور مر مت کی خدمات انجام دینا تھا۔ یوں انسانی زند گی کے قافلے اور کارو بار سلطنت سے وابستہ لوگ اس طویل بر فانی شاہراہ پر صدیو ں سے رواں دواں رہے لیکن کشمیر اور اس سے ملحقہ خطوں کا سیا سی و جغرافیائی پس منظر تبدیل ہونے کی وجہ سے یہ قدیم شاہراہ بند ہوگئی جس سے کشمیر اور اسے ملحقہ علاقوں کی معیشت و معاشرت اور تہذیب و تمد ن پر غیر معمولی منفی اثرات پڑے ۔ڈوگرہ عہد میں سرینگر راولپنڈی روڈ تعمیر ہوئی جو ریا ست کے شمالی حصہ کے علاوہ ہزارہ ڈویژن کو وادی سے ملا تی تھی، اسی طرح ڈوگرہ عہد میں خطہ پیر پنچال کو ایک چوتھاروٹ بھی وادی سے جوڑتا تھا جو جمو ں سے بھمبر،میر پور،کو ٹلی ،پونچھ اور درہ حاجی پیر سے گذر کر براستہ اوڑی وادی میں داخل ہو تا تھا مگر 1947میں ریاست کی غیر فطری تقسیم اور حد متارکہ کے قیا م کے بعد وہ بھی بند ہو گیا ۔اس وجہ سے خطہ پیر پنچال کے لو گ کنٹرول لائن اور پیر پنچال کی پہاڑیو ں کے درمیان محصور ہو کر رہ گئے اور ان کی معاشی و سماجی زند گی پر بھی منفی اور ما یو س کن اثرات پڑ رہے ہیں ۔
2005میں جب مفتی محمد سعید ریاست کے وزیر اعلی تھے اور نئی دہلی میں بھی ان کی بظاہر بات سنی جا تی تھی تو انہوں نے نہا یت سنجید گی سے مغل شاہر اہ کی تعمیر کا کام ازسرنو شروع کروایا ، دو سال کے قلیل عر صہ میں پیر پنچال کے دشوار گذار اور بر فانی پہاڑوں کو چیر کر سنگل موٹروے کی ایک روڈ تعمیر ہوگئی جو بلا شبہ اکیسویں صدی کا ایک عجوبہ اور خطہ پیر پنچال کے لوگوں کے لئے قیمتی تحفہ تھا۔ اس حقیقت کا اعتراف ضروری ہے کہ مفتی محمد سعید کو خطہ پیر پنچال کے ساتھ غیر معمولی دلچسپی تھی ،اسی لئے انہو ں نے بہت مختصر عر صہ میں اس خطہ کے لئے بابا غلام شاہ یونیو رسٹی اور مغل روڈ تعمیر کر والی ۔ آج یہ وادی کشمیر اور خطہ پیر پنچال کے لو گو ں کے درمیا ن روابط و تعلقات اور کاروبار کا اہم ذریعہ ہیں اور ان منصوبوں کے باعث خطہ پیر پنچال میں ہر سطح پر غیر معمولی تبدیلی آئی ۔ قابل ذکر ہے کہ مغل شاہراہ کی تعمیر میں انجینئر حضرات نے بھی کما ل ِمہا رت ، دل جمعی اور پو ری لگن سے انتھک کا م کیا جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔ اس ضمن میں وقت کے چیف انجینئر شیخ محمد حسین ، انجینئر عبدالغنی جاگل ،محمد یو نس مغل اور اشوک کمار کاچرو وغیر ہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں جب کہ انجینئر محمد یو نس مغل پوشانہ کے مقام پر شو ٹنگ سٹون کی ایک واردات میںاللہ کو پیا رے بھی ہو گئے ۔ راجوری سے سرینگر تک مغل روڈ کی لمبائی ایک سو ساٹھ کلو میٹر ہے اور راجوری سے جموں تک ایک سو پچاس کلو میٹر ہے ۔متحدہ ہندوستان میں راجوری لاہو ر اور سرینگر کے درمیا ن سنٹرل پوائنٹ ہوا کر تا تھا اور آج راجوری جمو ں اور سرینگر کے درمیان مغل روڈ کی تعمیر کے باعث پھر مر کزی مقام بن چکا ہے ۔ یو ں ایک طویل وقفہ کے بعد راجوری کی مر کزیت مغل روڈ کی تعمیر کے پس منظر میں دوبارہ بحال ہو چکی ہے۔ مغل روڈ اگر چہ فی الوقت سال میں زیا دہ سے زیا دہ اوائل مئی سے اواخر دسمبر تک کھلی رہتا ہے اور مو سم سرما کے چار ما ہ بر ف باری کے باعث عمو ما بند ہو جا تا ہے لیکن اس کے باوجو د اس شاہراہ کی وجہ سے خطہ پیر پنچال میں حوصلہ افزاء حد تک دور رس معاشی و سماجی تعلیمی و سیا سی اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ اس شاہراہ کے سبب پیر پنچال کے برفانی پہاڑوں کے آرپار بسنے والے لو گوں کو ایک دوسرے سے قریبی تعلقات میں جڑجانے ، باہم دگر دیکھنے سمجھنے اور معاشی ومعاشر تی قربتیں پیدا کر نے کے مواقع دستیاب ہوئے ہیں ،جو ہما ری خوبصورت ریا ست کی متنوع ثقافت اور کثیر اللسانی تہذیبی شناخت اور وحدت کے تعلق سے ایک خوبصورت نمونہ ٔ اشتراک وانجذاب ہے ۔اس شاہراہ پر تھنہ منڈی سے بفلیاز اور پیر پنچال کے چھتہ پانی سے ززی ناڑ کے درمیانی ٹنل کی تعمیر کا منصوبہ ہے۔ اگر یہ دو ٹنل تعمیر ہو جا تے ہیں تو پھر راجوری اور سرینگر کے درمیان کل فاصلہ ایک سو چالیس کلو میٹر رہ جا ئے گا اور یہ راستہ نہ صرف سال بھر کھلا رہے گا بلکہ جمو ں و سرینگر کے درمیا ن ایک متبادل کے طور پر بھی کا م آسکتا ہے ، نیز جمو ں بانہال روڈپر ٹریفک کا دبائو بھی کم ہو جا ئے گا ۔علا وہ ازیں مغل روڑ کے چاروں اطراف میں قدرت کے دلفریب مناظر ، پیر پنچال کی تیر ہ سو فٹ تک بلند و بالا خوبصورت پہاڑیا ں اور پانی کی صاف ستھر ی جھیلیں و مر غزار ملکی و بیرونی سیا حو ں کے لئے باعث کشش اور مقامی لو گوں کے لئے رو زگار و معاشی خو شحالی کا باعث بنیں گی ۔ بایں وجوہ خطہ پیر پنچال کے لو گو ں کا یہ زور دار مطالبہ ہے کہ مغل شاہراہ پر مجوزہ دو ٹنل تعمیر کی جائیں۔ سچ یہ ہے کہ اسی خواب کو حقیقت میں بدلتے دیکھنے کے لئے اس خطہ کے لو گو ں نے 2014ئکے الیکشن میں مفتی سعید کی پارٹی پی ڈی پی کو بھر پور تعاون دیا تھا ۔اگر مو جو دہ حکو مت یہ ٹنل تعمیر نہ کر سکی تو یہ اس خطہ کے لوگوں کے ساتھ ہی بد ترین نا انصافی نہ ہو گی بلکہ مفتی صاحب کے وژن سے انحراف ہوگا ۔ہر انصاف پسند اور تعمیر ی سوچ رکھنے والے فر د کو اس روڑ کی اہمیت کا پورا پو را احساس ہے، اسی وجہ سے ما رچ 2016ئمیں ریا ستی گو رنر این این ووہرا بشمول ریا ستی حکو مت کے محکمہ تعمیرات عامہ نے جو ن 2016میں مر کزی وزارت برائے ٹرانسپورٹ و ہائے ویز کو مغل روڈ پر ٹنل کی تعمیر اور اسے قو می شا ہراہ کا درجہ دینے کے لئے ایک مفصل رپو رٹ بھیجی تھی لیکن ریا ستی حکو مت کے متعلقہ ذمہ داروں کی بار بارکی کو ششوں اور نئی دہلی کے چکر پر چکر لگانے کے باوجود تاحال اس منصوبے پر کو ئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے کیونکہ جمو ں کا بااثر کارو باری طبقہ اور جموں کی زعفرانی لابی کسی بھی قیمت پر کشمیر اور پیر پنچال خطہ کو براہ راست مغل روڈ کے ذریعہ کشمیر سے جوڑنے حق میں نہ پہلے تھی اور نہ آج ہے ۔ہندوستانی پارلیمنٹ میں اس خطہ کی نما ئند گی کر نے والا اسی زعفرانی لابی کا آدمی ہے اور نئی دہلی بھی اس خطہ میں کوئی بڑا منصوبہ متعلقہ ممبر پارلیمنٹ کے مشورے کے بغیر نہیں عملاتی۔ جب یہ روڈ تعمیر ہو رہی تھی تو اس وقت بھی اس زعفرانی لا بی اور دیگر خفیہ ہاتھوں نے اس کی بھر پور مخالفت کی تھی مگر سپریم کورٹ کے فیصلہ کے باعث یہ کچھ نہ کر سکے ۔اب آج کی تاریخ میں مرکز اور ریاست کی سیاسی صورت حال بالکل مختلف ہے ،اس لئے مو جو دہ حالات میں مغل رو ڈ مخالف لابی اب کچھ بھی کروا سکتی ہے ۔رہے خطہ پیر پنچال کے اراکین قانون سازیہ ، اپوزیشن کے سیاست دان اور سول سو سائٹی والے ، اُن میں اس وقت کو ئی بھی ایک بالغ نظر، دوراندیش، طاقت ور وبا اثر شخص موجودنہیں جو مجوزہ ٹنلوں کی تعمیر یامغل روڑ کو قو می شاہراہ کے زمر ے میں لانے میں کوئی فیصلہ کن رول ادا کر سکے۔ یہاں کے سیاست دانوں کے پاس صرف ایک منصوبہ ہے جس کے ذریعہ وہ الیکشن کے مواقع پر لوگوں میں اثرونفوذ کرکے ان کا صرف سیا سی استحصال کر تے ہیں، و ہ ہے گو جر پہاڑی تقسیم کی نفرت انگیز سیا ست جس کا بدقسمتی سے اس خطہ کے لوگ بآسانی جذباتی طور شکار ہو کے رہ جاتے ہیں۔ اس لئے اس خطہ کے عوام کو یہ بات بڑی سنجید گی سے سمجھنی چاہئے کہ وہ جب تک اس نفرت آمیز تقسیم وانتشار اورمنافرت کن نعروں سے اوپر اُٹھ کر ٹھوس اور تعمیری بنیا دو ں پر یکجا ومتحد نہیں ہوتے، اُس وقت تک ان خود غرض سیاست دانوں کے ہاتھ بار بار ڈسے جاتے رہیں گے ۔ واضح رہے کہ زعفرانی لا بی اور مر کزی سر کار کا امتیازی سلوک صر ف خطہ پیر پنچال کے ساتھ ہے جب کہ حالیہ عر صہ میں ریاست جموں و کشمیر میں اس قسم کے متعدد دیگر پروجیکٹو ںکی منظوری مر کز دے چکا ہے،ان میں ٹھاٹھر ی سے براستہ کلہوتراں و بھلیسہ ہماچل تک اور ادھمپور سدمہا دیوسے براستہ مرمت ڈودھ تک ہائی ویز کو قو می شاہراہ کے زمر ے میں شامل کیا گیا ہے ۔
غور طلب ہے کہ مو جو دہ مخلو ط حکو مت کے قیا م کے بعد سے مغل رو ڈ پر نہ صرف یہ کہ کسی قسم کی تعمیراتی پیش رفت نہیں دیکھی جارہی ہے بلکہ شاہراہ کی منا سب دیکھ ریکھ اور تعمیرومر مت نہ ہو نے کے باعث اس کی حالت پہلے سے بھی بد تر ہو تی جا رہی ہے۔ گذشتہ سال پیر پنچال کے دشوار گذار حصہ میں جو پسیاں گرآئی تھیں و ہ آخر سال تک نہیں ہٹائی گئیں ، مزید برآں جگہ جگہ یہ روڈ ٹو ٹ پھو ٹ کا شکا ر ہو کر کھنڈروں میں تبدیل ہو چکاہے۔ اس لئے وزیرتعمیرات الطاف بخاری صاحب اور دیگر ذمہ دار اگر فوری طور پر اس شاہراہ کی مر مت اور دیکھ ریکھ کے لئے کمر ہمت نہیں باندھ لیتے تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ چند سال بعد خو د ہی مغل روڑ نا قابل استعمال ہو کر رہ جائے گا اور ہم اس کی صرف کہانیاں سنتے رہ جائیں گے ۔ حالات کے اس مایوس کن تناظر میں پیر پنچال کے دونوں اطراف کی سول سوسائٹی اور اراکین قانو ن سازیہ کی یہ قومی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس روڈ پر مجوزہ د ٹنلوں کی فوری تعمیر اور شاہراہ کی منضبط دیکھ ریکھ کے لئے حکو مت کو مجبور کریں تاکہ اس اہم شاہراہ کا تحفظ بھی ممکن ہو اور وہ خواب بھی شر مندہ ٔ تعبیر ہو جواکابر سیاست دانوں نے وادی اور پیر پنچال کو آپس میں جوڑنے کے حوالے سے اخلاص ِ نیت سے دیکھا ہے ۔ اس خواب سے نہ صرف ریاست کی تعمیر وترقی کو چار چاند لگ جائیں گے بلکہ یہ خاص کر پیر پنچال کے دونوں اطراف کے لو گو ں کے کا رو باری ، سماجی اور معاشرتی و ثقافتی رشتوں کو مضبو ط وتوانا کر یں گے ۔
مضمو ن نگار چیر مین الہدی ٹر سٹ راجوری ہے ۔
رابطہ نمبر 7006364495