جموںوکشمیرمیں خون ریزی اور قتل عام سے پوری دنیا واقف ہے۔ ہردن کوئی نہ کوئی واقعہ درپیش آتا رہتا ہے۔کبھی معصوم بچوں کو گولی کانشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی نوجوانوں کی چھاتیوں کو گولی سے چھلنی کیاجاتاہے۔کئی گھراجڑ جاتے ہیںتوکئی خواتین کی عزت کو سرعام نیلام کیا جاتا ہے یعنی پورے کشمیر اور L.O.C.پر رہنے والے ہر فرد کو طرح طرح کی مصیبتیں اور ظلم وستم کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ریاست جموںوکشمیر کے ضلع پونچھ تحصیل مہنڈر(بلاکوٹ) دیوتہ گاؤں میں ایک ہی گھر کے پانچ افراد گولے باری کا شکار بنے۔یہ واقعہ مورخہ 18-03-2018کی صبح 07:40میں اس وقت پیش آیا جب محمد رمضان اور پورا اہلِ خانہ باورچی خانے میں مل بیٹھے ناشتے کی تیاری میں تھے۔جاں بحق ہونے والوں میں محمد رمضان، ملکہ بی زوجہ محمد رمضان، عبدالرحمٰن، محمد رازق،محمد رضوان،محرین رمضان اور امرین رمضان شامل ہیں۔ابھی گھر میں ناشتے کی تیاری ہوہی رہی تھی کہ اچانک سرحد پر ہندوپاک کے درمیان گولہ باری شروع ہوئی، اسی دوران ایک گولہ محمد رمضان کے گھر آلگاجس وجہ سے تمام اہل خانہ کی موت ہوگئی۔
محمد رمضان جوکہ ایک مزدور شخص تھا ۔دن بھر محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کی ہر طرح سے پرورش کرتا تھا۔تعلیمی میدان میں بھی وہ بچے کسی سے کم نہیں تھے۔عبد الرحمٰن کے لیے بتایا جاتا ہے کہ وہ مسلسل تین سال چھٹی ساتویں اورآٹھویںکلاس میں درجہ اول میں آتارہا۔محمد رمضان کی دونوں ننھی ننھی بچیاں بھی تعلیمی میدان میں کسی سے کم نہیں تھیں۔محمد رمضان کی بڑی بچی مہرین رمضان اور چھوٹی بچی امرین رمضان جو حادثے میں شدید طورپر زخمی ہوگئی تھیں جوجموں بخشی نگر ہسپتال میں زیر علاج ہیں، لیکن اپنے ابوامّی اور بھائیوں سے ان کا تعلق قیامت تک ٹوٹ چکا ہے۔محمد رمضان کی جان ،دولت،مکان ،اولاد ہر طرح سے لٹ کر رہ گئی گویا وہ اس دنیا میں تھاہی نہیں۔اس گولے سے صرف محمدرمضان کے کنبے کو نقصان ہی نہیں ہوا بلکہ پوری انسانیت کا نقصان ہوا ہے۔اس حادثے سے پورے گاؤں بلاکوٹ (دیوتہ) میںلوگوں کے اندر خوف تاری ہوگیا۔بچوں بزرگوں کے آنکھوں سے خون کے آنسوں نکل رہے ہیں۔پورا گاؤں دہشت میں مبتلا ہے۔یوں تو L.O.C.کے جتنے بھی گاؤں ہیں جو حد متارکہ کے قریب ہیں وہ کہیں نہ کہیں گولہ باری کا نشانہ ہمیشہ بنے رہتے ہیں۔ ایسے بہت سارے حادثے پہلے سے بھی ہوتے رہے ہیںجن میں اسمیٰ بی زوجہ عبدالرحمٰن،رقیہ بی زوجہ محمد شبیر کا شکار ہو ئی ہیں۔ان کے علاوہ مینڈر کی جامع مسجد کے عقب میں پولیس اسٹیشن کے قریب ڈگری کالج مہنڈر کے طلبہ محمد ارشاد اور اس کے کچھ ساتھیوں کے ساتھ بھی یہ حادثہ پیش آیا اور وہ شدید طورپر زخمی ہوئے تھے ۔ لائین آف کنٹرول کے قریب رہنے والے لوگوں کی زندگی ہمیشہ درہم برہم رہتی ہے،ہمیشہ ان کے دلوں میں خوف بنا رہتا ہے،کئی لوگوں کو مالی نقصان ہوتا ہے اور کئی جانی نقصانات سے دوچار ہوتے ہیں۔غرض ان کی زندگی کے ساتھ ہمیشہ کوئی نہ کوئی مشکلات جڑی رہتی ہے جن سے ان کے یہاںہمیشہ خلل ،بے سکونی اور بے چینی چھائی رہتی ہے۔
L.O.C.کے ناگفتہ بہ حالات کا اندازہ یہاں کے اسکولوں اور ہسپتالوں سے لگایا جاسکتا ہے۔بچوں کی تعلیم کا اہم مسئلہ ہے۔بچے وہاں کے اسکولوں اور مدرسوں میں اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے کیوں کہ وہاں کے اسکول ہفتے یا مہینے میں کبھی کھلتے ہیں اور بچوں پر خوف طاری رہتا ہے۔اگر کوئی شخص گولہ باری میں زخمی ہو تو اس کے لیے ہسپتال کی سہولت بھی نہیں ۔ کسان اپنے کھیتوں میں وقت پر فصل نہیں بو سکتے نہ کاٹ سکتے ہیں۔گورنمنٹ کی طرف سے جو عام آدمی کو راشن ملتا ہے وہ بھی ان تک نہیں پہنچ پاتا۔ کم نصیب کے عوام کے لیے کوئی دوسری جگہ بھی نہیں ہے جہاں وہ پناہ لیں، گورنمنٹ اس اہم انسانی مسئلے کی طرف توجہ نہیں دے رہی ہے ۔ یہ چیزعوام کے ساتھ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔1947ء سے آج تک ہندوستان افواج اور پاکستان کے درمیان یہ رسہ کشی برقرار ہے جس میں صرف اور صرف یہاں کے عوام کی جانیںقربان ہورہی ہیں۔محمدرمضان کے ساتھ پیش آئے اس المیے نے لائین آف کنٹرول کے باسیوں کو خون کے آنسورلادیاہے۔ہر انسان کے رونگٹے کھڑے کر دئیے ہیں۔ جو لوگ حد متارکہ کے قرب وجوار میںبس رہے ہیں وہ اور بھی سختیاں جھیل رہے ہیں مثلاًبجلی،پانی،روڈ،ہسپتال، ٹرانسپورٹ وغیرہ ان کے لئے ندارد ہیں ۔ا ن محرومیوں کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ محمد رمضان اور اس کے اہل خانہ کی لاشوں کو غسل دینے کے لئے پانی بھی کہیں نہ مل پایا،پھر دور دو تین میل سے پانی لایا گیااور غسلِ جنازہ دیا گیا۔ راستوں کا بھی یہی بُرا حال ہے ، یہاں تک کہ جموں وکشمیر کی وزیر اعلیٰ محترمہ محبوبہ مفتی جب اس حادثے پر افسوس جتانے آئیں تو سڑک ٹھیک ٹھاک نہ ہونے کی وجہ سے بھمبر گلی سے ہی واپس لوٹ آئیںاوریہ جگہ دیوتہ سے تین کلو میٹرکی دوری پر ہے۔
محمد رمضان اور اس کے پورے کنبے کو جو نقصان ہوا اس کی تلافی ہندوستان اور پاکستان قیامت تک نہیں کرسکتے۔ پھر بھی ریاستی و مرکزی سرکار سے درخواست ہے کہ ان دو ملکوں کے درمیان جو نفرت و رنجش چل رہی ہے، اس کو ختم کرنے کی سنجیدہ اور ثمر بار سعی کی جائے۔ خطہ پیر پنجال کے لوگوں نے پہلی بار اس اندہ ناک حادثے کی وجہ سے آزادی کے نعرے دئے، ایسا کیوں ہوا…؟ اس بات پر مرکزی اور ریاستی سرکار کو سنجیدگی کے ساتھ سوچ بچار کر نا ہوگا۔اگر حالات کا ہلاکت آفرین رُخ ایسے ہی بنا رہا تو سرحدی عوام کا مستقبل کن اندھیاروں کا شکار ہوکر رہے گا……؟
رابطہ : دھارگلون( کھیت) تحصیل مہنڈر ضلع پونچھ ،جموں کشمیر
موبائل7889566924
ای میل[email protected]