۱۹۴۷ء میں ہندوستان دو لخت ہوکر آزاد ہوا۔پاکستان الگ ملک کی حیثیت سے وجود میں آیا۔دونوں ممالک اپنی آزاد حیثیت سے دنیا کے نقشے پرموجود ہیں۔دونوں ملکوں کے پاس اپنی آزاد حکومت اور دفاع کے لئے فوج ہے ۔ہونا تو یہ چا ہئے تھاکہ دونوں ممالک اب آزاد فضامیں سانس لیتے اور دوسروں کو بھی یہ مواقع فراہم کرتے لیکن افسوس کہ دونوں ملکوں کے کرپٹ اور انسانیت سے عاری لیڈر شپ نے نہ صرف آر پار ملکی عوام کا سکون چھین لیا بلکہ اپنی آزادی حاصل کرتے ہی جموں کشمیر کو جہنم زار بنا ڈالا۔کوئی اس کو اپنا اٹوٹ انگ کہہ رہا ہے تو کوئی شہ رگ ۔اسی مخمصے میں ۱۹۴۷ء سے اب تک کشمیر کے جبل ومیدان میںلاکھوں انسانوں کا خون بے دردی سے بہایا گیا،جنگیں لڑی گئیں ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے کرتب دکھائے گئے مگر کبھی ارض کشمیر کے باشندگان سے یہ پوچھنے کی زحمت گوارا نہ کی گئی کہ آپ اٹوٹ انگ رہنا چاہتے ہو یا شہ رگ بننا چاہتے ہو ۔ مسئلہ آر پار کے نہتے عوام کے لئے درد سربنا ہوا ہے ۔ دنیا اس قضیہ کومسئلہ کشمیر کا نام دیتی ہے لیکن اسے حل نہیں کرواتی بلکہ تماشہ بینی کر تی ہے ۔اس حل طلب مسئلہ کی وجہ سے نہ صرف جموں کشمیر کے لوگوں کاجینا مشکل ہوگیا ہے بلکہ ہندوستان اور پاکستان کے لوگ بھی پسے جا رہے ہیں اور دونوں ملکوں کی بیچ محبت کے بجائے نفرتیں پنپ رہی ہیں جنہیں چالاک سیاست دان ووٹ میں بدل رہے ہیں ۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان ریاست جموں کشمیر کا ہورہاہے ۔آئے روز لاشوں کو کندھے دئے جارہے ہیں ،بستیوں اجڑ رہی ہیں ،کوئی یتیم ہو رہا ہے تو کوئی بیوہ بن رہی ہے ،کسی کا آشیانہ جل رہا ہے ، کسی کے علم کا سرمایہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو رہا ہے ،کبھی باڈر پر شلنگ سے ایک ہی گھر کے پانچ پانچ چھ چھ افراد کی لاشیں چارپائیوں پر سجائی جاتی ہیںتو کبھی کسی جوان ،بچے ، بزرگ ، بہن ، بیٹی ماں زخمی حالت میں آہ و فغاں کرتے ہوئے اسپتال میں دم توڑتی ہے ۔ مسئلہ کشمیر دن بہ دن خطر ناک رُخ اختیارکرتا چلا جا رہا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ وقت کو ضائع کئے بغیر دونوں ممالک بشمول اقوام متحدہ اس مسلے کا پر امن حل جموں کشمیر کے عوام کے منشاء کے مطابق نکالنے کی کوشش کریں تاکہ اس خطے میں ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوجائے۔محبت کی پُر وائیاں چلیں ، لوگ ایک ودسرے کے بغل گیر ہوجائیں،نفرت کی گھٹائیں ناپید ہوجائیں، امن و سکون لوٹ آئے۔اس حوالے سے سب سے اہم کردار ہندوستان کوادا کرنا ہوگا کیونکہ اسی ملک کی سیاسی قیادت نے اس مسٔلہ کو اقوام متحدہ میں لیا ، جہاں کشمیری عوام سے وقتاًفوقتاً استصواب رائے کے وعدے کئے۔اسے پاکستان اور حریت کو اعتماد میں لے کر کشمیر پرابلم کا کوئی منصفانہ حل نکالنا ہوگاگر وہ انسانیت کے غم خوارہیں۔ کشمیری عوام یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ آخر کب تک ہم لاشیں اٹھاتے رہیں گے؟کب تک ہم گولیوں کی گن گرج میں مر مر کے میں جیں گے ؟لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ممالک کی سیاسی قیادت اس سلگتے ہوئے اس مسئلہ کو نیک نیتی اور پکے سیاسی عزم سے ایڈرس کرے ،اس کے لئے فوراً سہ فریقی مذاکرات کر کے کوئی پرامن حل نکالے۔یہ تینوں خطوں کے عوام کے لئے ان ممالک کا قیمتی تحفہ ہوگاجسے تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جا ئے گا۔