سپریم کورٹ آف انڈیا نے8مارچ 2018کواپنے ایک فیصلے میں کیرالہ کی 25 سالہ طالبہ ہادیہ کی شادی کودرست اوراسے اپنے مسلم شوہر شفین جہاں کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی ۔واضح رہے کہ کیرالہ ہائی کورٹ نے ایک برس قبل ہادیہ کی شادی یہ کہہ کر رد کر دی تھی کہ یہ شادی’’لو جہاد‘‘ یعنی غیر مسلم کو مسلم بنانے کی سازش کے تحت ہوئی تھی۔انڈیاکے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین ججوں کے ایک بینچ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ بالغ لڑکا اور لڑکی جو شادی کے لیے رضامند ہوں ان کی شادی کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔سپریم کورٹ آف انڈیانے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قراردیتے ہوئے ہادیہ سے کہا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کے لیے آزاد ہے۔
بھارتی ریاست کیرلہ کی اکھیلا اشوکن اسلام کی حقانیت سے متاثر ہوکربغیرکسی جبرواکراہ،کسی دھونس و دبائو،کسی مجبوری اورزور زبردستی کے مشرف بہ اسلام ہوئیںاورقبول اسلام کے بعدہادیہ کے نام سے موسوم ہوئیں۔لیکن فسطائیوںکاالمیہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے حوالے سے وہ ہرایک چیزکوتعصب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ اسی پس منظرمیں’’ لوجہاد‘‘کی اصطلاح وضع کی گئی ہے جس کا مقصداسلام اوراسلام کوہدف تنقیدبنانااورتنقیدکرناطے پایاہے ۔بھارتی ریاست کیرلہ کی اکھیلا اشوکن کے برضائے رغبت قبول اسلام اورہادیہ بن جانے کے بعداس پرزمین تنگ کردی گئی اور اس کے والدین نے اسے مقید رکھامگرقرون اولیٰ کے مسلمات کی یادتازہ کرتے ہوئے پھر بھی ہادیہ ایمان باللسان اورتصدیق بالقلب سے یک سرمو نہ ہٹی۔کیرلہ ہائی کورٹ نے اس کی ایک مسلمان لڑکے کے ساتھ ہوئی شادی کو کالعدم قرار دیالیکن اس کے شوہرنامدار شفین جہاںنے کیرلہ ہائی کورٹ کے ظالمانہ اورتعصب پرمبنی فیصلے کو انڈین سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔دونوں میاں بیوی کو ایک مدت تک میں بڑی پریشان کاسامنارہا۔سنگھ پریوارکی مداخلت بے جا کی وجہ سے دونوں نہایت حزین اوربہت غمگین اور انہونی خوف کے شکاررہے ،مگرچونکہ ہادیہ حق وصداقت کی راہ پرتھیںجس کے باعث بالآخراسے سپریم کورٹ آف انڈیا سے 8مارچ 2018جمعرات کوعالمی یوم خواتین پر انصاف ملا۔بلاشبہ ہادیہ خوشی سے سرشار ہیںاوراپنے شوہرکے ساتھ اپناگھربسارہی ہیں۔اس کایہ عہدہے کہ تاحیات اسلامی احکامات پر عمل کرے گی اور خاتمہ بھی اس کا ایمان پرہی ہوگا۔
ہادیہ کی پیدائش کیرلہ کے کوٹایم ضلع کے ٹی وی پورم میں میں ہوئی۔ اس کے والد کا نام اشوکن مانی ہے جوانڈین آرمی میں تھے۔ وہ ہومیوپیتھک میڈیسن اور سرجری کی تعلیم سیلم میں حاصل کررہی تھیں کہ اس نے اسلام کامطالعہ شروع کیا۔اس دین کی کشش کاکیاکہناکہ جوپتھردل کوموم میں بدل دیتاہے کے مطالعے نے ہادیہ کی کایاپلٹ دی اوراس نے اسلام قبول کرلیا لیکن مکہ کے اولین مسلمات کی طرح ہادیہ بھی اپنے مسلمان ہونے کا اظہاربرملا نہ کرسکی ۔البتہ اس کے دل میں جب یہ بات کھٹکنے لگی کہ اسلام سچادین ہے اوروہ ایک سچی مسلمہ توقبول اسلام کب تلک وہ چھپاتی رہیں گی۔کئی طریقوں پراس نے غورکیاکہ وہ کس طرح بغیرکسی رکاوٹ کے اعلانیہ صوم وصلوٰہ کی پابندی کرے تواسے صرف ایک ہی راستہ نظرآیاکہ اپنے گھرکوخیربادکہہ کرمسلمان سہیلیوں کے ساتھ اپنے شب وروزگذارے ۔بالآخروہ اپنے گھرسے نکل گئیں۔ہادیہ کے اس اقدام کے بعد ان کے والد نے کورٹ میں مقدمہ درج کرایا کہ اس کی بیٹی کومسلمانوں نے اغواء کرلیا ۔ادھرسنگھ پریوار نے پورے انڈیامیں ایک پروپیگنڈامہم لانچ کی کہ ’’لوجہاد‘‘کے تحت کیرلہ کی اکھیلااشوکن کوجبری طورپرمسلمان بنادیاگیاجس پرپورے انڈیامیںہلچل مچ گئی۔سنگھ پریوارکی فسطائیت کی کذب بیانی اورجھونے پروپیگنڈہ مہم کودیکھ کرہادیہ نے بھی رب کے بھرپوربھروسے پرسنگھ پریوار کاابطال کرنے کے لئے عزم باندھ لیاچھپ جانے کے بجائے ہادیہ عدالت میں پیش ہوئیں اور اس نے اپنے قبول اسلام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ والدین کی طرف سے قبول اسلام پراسے تخت مشق بنائے جانے پر اسے اپنے گھر اور والدین کو چھوڑنا پڑا۔وہ اغواء ہوئیں اورنہ ہی اسے مسلمانوں نے اغواء کیاہے ۔
ہادیہ کے والدنے سنگھی تنظیموں کے دبائومیں آکر سنگین الزامات عائد کیے اور کہا کہ اسے کچھ اسلامی تنظیمیں ملک سے باہر لے جاناچاہتی ہیں تاکہ وہ نام نہاد دہشت گرد تنظیموں کے کام آسکیں لیکن ہادیہ نے کورٹ میں حاضر ہوکر سنگھ پریوارکی فسطائیت کے تمام کئے کرائے پر پانی پھیر دیااور بیان دیا کہ اسکے پاس پاسپورٹ ہی نہیں تو ملک سے باہر جانا اس کے لئے کیسے ممکن ہے؟ حقائق کی بنیادپر کورٹ نے ہادیہ کے والد کی درخواست کو رد کردیا۔ ہادیہ نے ہندوجج کے سامنے جب یہ رازکھولاکہ وہ اپنے ساتھ پڑھنے والے مسلمانوں کے اعمال کابغورجائزہ لیتی رہیں، اسلام کے آفاقی پیغام اور اسلامی کتابوں کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرکے اس نتیجے پر پہنچی کہ اسلام ہی وہ واحددین ہے کہ جو برحق ہے اور دنیاوآخرت کی کامیابی اس کے بغیرممکن ہی نہیں،اس لئے اس نے اسلام قبول کرلیا۔ہادیہ کی تقریرسن کر جج چونک گیا۔ جب ہادیہ جج کواسلام کی حقانیت سمجھارہی تھیں ایسالگ رہاتھاکہ گویاحبشہ کے بادشاہ نجاشی کادربارلگاہواہے اورحضرت جعفر طیارؓکے قافلے میں کوئی خادمہ موتیوں کی طرح ایک ایک لفظ بکھیر کراس دربارکوورطہ حیرت میں ڈال رہی تھیں۔ سنگھ پریوارجواکیسویں صدی کے انڈیا کارستاہواناسور ہے، نے ہادیہ کے قبول اسلام پر ’’لوجہاد‘‘ کامسموم اورمذموم پروپیگنڈا چلایااور پورے انڈیا میں شوشہ چھوڑا کہ مسلمان لڑکے ہندو لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسا کر ان سے شادیا ں کررہے ہیں،لوگوں سے کھچاکھچابھرے کورٹ میں ہادیہ کاایک ایک بول اس کی تکذیب اورتردیدکررہاتھا۔
سنگھ پریوارکی فسطائیت اورمسلمانوں کے تئیں اسکاانداز تنفر سراسر غلط ہے انڈیاکی جوبھی لڑکی مشرف بہ اسلام ہوجاتی ہے، اس پر کسی کا جبر نہیں ہوتا۔یہ امرخودسنگھ پریوارکے علم میں ہے کہ عصرموجود میںبرصغیرکے ایک بڑے داعی اسلام اورمبلغ دین ڈاکٹرذاکرنائیک حفظہ اللہ کی بڑی بڑی دعوتی مجالس میںہزاروں کی تعدادمیںانڈیاکے ہندولڑکے اورلڑکیاں بغیرکسی جبرواکراہ کے اسلام کی آغوش رحمت کی پناہ میںآچکے ہیں ۔ ہزاروں افرادپرمشتمل مجمع میں قبول اسلام کے وقت ان سے بارباریہ کہاجارہاہے کہ تم پردین رحمت میں آنے پرکسی قسم کاکوئی دبائوتونہیں؟ان کاجواب ہوتاہے کہ نہیں بخوشی وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ہیں۔مزے اورلطف کی بات یہ ہے کہ ہادیہ نے بھی نے اپنے حلف نامہ میں اس بات کو دہرایا کہ قبول اسلام پراسے کسی نے مجبور نہیں کیا۔اس نے اپنے حلف نامے میں لکھاکہ ’’میںنے اسلام کی حقانیت اور اس کے آفاقی پیغام سے متاثر ہوکر خود کے لیے جنت کی راہ ہموار کی۔ اپنے گھر سے اس لیے فرار ہوئی ہوں کہ میرے والد نے مجھے اسلامی عبادت کرتے ہوئے گھر میں دیکھ لیا تھا اور مجھے سختی سے تنبیہ کی تھی کہ میں اسلام دھرم کو چھوڑ دوں ورنہ سخت سزا دی جائے گی، جس کے بعد میں نے یہ عہدکیا کہ اسلام کو تو نہیں چھوڑوں، ہاں البتہ ماں باپ کو ضرور چھوڑ دوںگی۔اپنے والدین اواپناگھر بار چھوڑنے کے بعد میری سہیلیوں نے میری راہنمائی کی اور مجھے اسلامک سینٹر لے گئیں جہاں میں نے ایک حلف نامہ تحریر کیا کہ میں اپنی مرضی سے مسلمان ہوئی ہوں اور جولائی 2016 سے باقاعدہ میں مسلمان ہوں‘‘۔
ہادیہ کہتی ہیں کہ اس نے میریج کی ویب سائٹ پر شادی کے لیے درخواست ڈالی تھی اوراسے شفین جہاں کی صورت میں ایک مخلص، انسانیت نواز شخص ملا اور اس نے 26اکتوبر2016 کو شفین کے ساتھ شادی کرلی۔تاہم کورٹ نے اس شادی کی تحقیقات کا حکم دے دیا اور اس کے شوہرشفیق کے ماضی کو کھنگالا گیاجبکہ پولس نے کورٹ کو رپورٹ پیش کردی کہ ان کی شادی اسلامی ریت و رواج کے طور پر کی گئی ہے۔ ہادیہ کے شوہر عرب ملک مسقط میں کام کرتے ہیںاور وہ پڑھے لکھے اورباشعور شخص ہیں۔ہادیہ کے کیس کے حوالے سے انڈیاکے سپریم کورٹ کے فیصلے نے اپنے وقار کوبلندکرتے ہوئے تاریخی فیصلہ صادر کیا اور کہا کہ کیرلہ ہائی کورٹ کو اس ہادیہ کی شادی منسوخ نہیں کرناچاہئے تھی ۔یہ شادی ہرلحاظ سے جائز ہے اورہادیہ کو زندگی گذارنے کی پوری آزادی حاصل ہے ۔ سپریم کورٹ آف انڈیا کے فیصلے سے ہادیہ بہت خوش ہیں۔جب کہ ہادیہ کے لئے ہماری دل سے دعاہے کہ ہمیشہ ہمیش خوش رہیں ،شفین جہاں کے ساتھ اس کی ازدواجی زندگی خوشحال اورپرمسرت ثابت ہواوراسکی خوشی کوکبھی گہن نہ لگے۔
ہادیہ کے حلقہ بگوش اسلام ہونے سے انڈیاکی مسلم خواتین کے لئے ایک اہم سبق پنہاں ہے اوروہ یہ کہ آپ اپنی نادانست طور بھی ایسے اعمال نہ کریں جس سے اسلام مخالف طاقتوں کو مواقع ملیں اور وہ اسلام پرشب وشتم پڑھیں اورتبرابھیجیں ۔ اپنے شوہروں کی فرمانبرداری کریں۔اگر شوہر سے ناچاقی ہوجاتی ہے تواپنے گلستان کوہرگزنہ اجڑیں،طلاق پانے یا علاحدگی اختیارکرکے اپنی زندگیوں کوجہنم زارنہ بنائیںبلکہ اپنی محبتوں سے اپنے گلستان کوپھرسے مہکائیں۔اگر معاملہ نہیں سلجھتااوررب نہ کرے کہ علاحدہ ہونا ضروری ہی ہوجائے تو کسی کورٹ وکچہری میں جانے کے بجائے دارالقضاء میں اپنے خانگی، عائلی مسائل حل کروائیں۔ خدارا کورٹ و کچہری میں اپنے عائلی مسائل لے جاکر اغیار کو اسلام کے آفاقی پیغام کو اور اسلامی تعلیمات کی تغلیط کا موقع نہ فراہم کریں۔ امید ہے انڈیاکی مسلم خواتین اپنی نومسلمہ بہن ہادیہ کے قبول اسلام کے واقعے میں موجودسبق کی طرف متوجہ ہوجائیں ۔
کیرالہ انڈیا کی واحد ایسی ریاست ہے جہاں ہندئووں کی آبادی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں اور مسیحیوںکی بھی تقریبا برابر کی آبادی ہے۔ ریاست کے لاکھوں افراد عرب ممالک میں کام کرتے ہیں۔ہرعرب ملک میں آپ کوکیرلائی لوگ بالخصوص مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادنظرآئے گی۔ سیاحت جوکیرلہ کازرآمدن ہے کے بعدعرب ممالک سے سے آنے والاریال ، درہم ودینار ریاست کیرلہ کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ کیرالہ انڈیا کی پہلی ریاست ہے جہاں سب سے پہلے خواندگی کے 100 فیصد ہدف کو حاصل کیا گیا۔ریاست میں کمیونسٹ اور کانگریس باری باری سے اقتدار میں رہے ہیں۔تاہم کانگریس اور کمیونسٹوں کے کمزور ہونے کے پیش نظراب بی جے پی کیرالہ میں اقتدار میں آنے کا امکان دیکھ رہی ہے۔ہندو اور مسلم شادیاں اور ریاست کے مسلمانوں کی اقتصادی اورمعاشی خوشحالی بی جے پی کوایک آنکھ نہیں بہاتی ۔اس لئے وہ کوئی ایسافتنہ برپاکرنے کے درپے ہے کہ کم ازکم ہندوکے سارے ووٹ بٹورسکے ۔ اسی پس منظرمیں بی جے پی کے جارحانہ بازوں سنگھ پریوارنے ہادیہ کے قبول اسلام اورپھرشفین جہاں سے شادی کرنے کامعاملہ غلط رنگ دے کر اٹھانے کی کوشش کی۔یہ مذموم سازش رچانے پربی جے پی اورسنگھ پریوارکے پیش نظر واحد مقصدیہ تھا ریاست کیرلہ میں پیر جماناہے۔مودی کے برسراقتدارآنے کے بعد2014سے ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کیرالہ میں منظم ہورہی ہے اپنے آپ کومذیدمستحکم بنانے کے لئے اس نے ہادیہ کے قبول اسلام کے خلاف ریاست میں زبردست مہم چلائی تھی۔
المختصر!ہادیہ کی یہ داستان اس ہیجان کا نتیجہ ہے جس میں آج سارا ،انڈیامبتلا ہے۔ بی جے پی کی حکومت نے، اور خصوصا ًاس کی ریاستی حکومتوں نے، ہندو قوم پرستی کے اندھا دھند پرچار سے اپنی سیاسی دکان چمکائی ہے۔انڈین مسلمان سپریم کورٹ میں چل رہے ہادیہ کیس کو حیرت اور استعجاب سے دیکھ رہے تھے۔جب کہ انڈین سپریم کورٹ اس بات کا اطمینان کررہاتھا کہ ہادیہ نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے اور مرضی سے شادی کی ہے، یااس پربقول سنگھ پریوارکے جبرہواہے معاملہ اس وقت الم نشرح ہواجب ہادیہ نے کورٹ کے سامنے کھول کھول کرساری صداقت رکھ دی سپریم کورٹ نے اطمینان ہواکیس ختم ہواہادیہ جیت گئی اورسنگھ پریوارکی فسطائیت کوشکست فاش ہوئی ۔ ����