حالیہ دنوں دو ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک میں بھی اضطرابی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ اولاً یہ کہ اس سال سی بی ایس ای کے ذریعہ لیے جانے والے دسویں اور بارہویں درجے کے امتحانات کے سوالات سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک اور بیرون ملک میں چل رہے سی بی ایس ای نظام تعلیم کے اسکولوں میں پڑھنے والے طلبا و طالبات کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے کیوں کہ اب متعینہ وقت پر امتحان اور رزلٹ ممکن نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ لاکھوں ایسے طلبہ جو ملک کی بڑی یونیورسٹیوں اور اچھے کالجوں کا رُخ کرنے والے تھے، شاید ان کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے۔ اب تک کے اعلان کے مطابق دسویں کا امتحان جولائی میں ممکن ہے جب کہ بارہویں کے پرچے اپریل کے آخر تک لئے جائیں گے، لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ پرچہ لیک ہونے کے بعد ہمارے نونہالوں کے ذہن میں جس طرح سوالات گردش کر رہے ہیں اس کا ازالہ کیسے ہوگا؟ اب تک یہ سمجھا جارہا تھا کہ سی بی ایس ای ایک ایسا ادارہ ہے جو صا ف و شفاف ماحول میں امتحان کر واتا ہے اور تمام تر بد عنوانیوں سے پاک ہے مگر اس سال جس طرح پرچے لیک ہوئے ہیں اور اب تک کی کاروائی سے جو انکشافات ہوئے ہیں، اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ یہ واقعہ پہلی بار نہیں ہوا ہے ، گرچہ اس سے پہلے یہ داخلی روگ بر سر عام نہ ہوا تھا۔ یوں تو کاپی جانچ اور نتائج پر پہلے بھی سوالات اٹھتے رہے ہیں باوجود اس کے عوام الناس میں اس ادارے کے تئیں یہ اعتبار ضرور تھا کہ دیگر امتحاناتی بورڈوں کے مقابلے سی بی ایس ای کا نظام شفاف ہے۔ کیوں کہ سی بی ایس ای نہ صرف اسکولوں کے بورڈ امتحانات لیتے ہیں بلکہ میڈیکل کے لئے نیٹ کا امتحان بھی اسی ادارے کے زیر انتظام ہوتے ہیں ۔ اور اب تو یو جی سی نے جے آر ایف اور نیٹ کے امتحان کی ذمہ داری بھی اسی کے سرہے۔
واضح ہو کہ سی بی ایس ای نظام کے تحت نہ صرف ملک میں بلکہ بیرون ممالک میں بھی بھارتی سفا رت خانوں کے ذریعہ جو اسکول چلتے ہیں وہاں بھی سی بی ایس ای کے ذریعہ ہی امتحان لئے جاتے ہیں۔ اب جب کہ سی بی ایس ای کی ساکھ مسخ ہوئی ہے تو بیرون ملک میں پڑھنے والے طلبہ اور ان کے گارجین کے اندر بھی ایک طرح کی غیر یقینی صورت حال اور وسوسہ پیدا ہوا ہے ۔ ایک طرف گارجین اس بات کے لئے پریشان ہیں کہ اب ان بچوں کا امتحان وقت پر نہیں ہوا تو وہ ملک کی بڑی یونیورسٹیوں میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔ بالخصوص بیرون ملک میں رہنے والے ہندستانی جن کے بچے سی بی ایس ای اسکول میں زیر تعلیم تھے ، ان کے لئے تو اور بھی بڑی مشکل پیدا ہو گئی ہے کہ آخر وہ کیا کریں ؟ ملک میںبھی کچھ اسی طرح کی فکر مندی ہے۔لیکن سی بی ایس ای انتظامیہ کی جانب سے بھی کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے۔ اب تک بس پریس کانفرنس کے ذریعہ یہ یقین دہانی کرائی جارہی ہے کہ امتحان لئے جائیں گے۔سب سے مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ دہلی اور ہریانہ حلقے کے امتحان ہی دوبارہ منعقد کئے جائیں گے۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ جب امتحان سے قبل سوالات سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئے تھے تو اس کا دائرہ دہلی اور ہریانہ تک ہی محدود کیسے رہ سکتا ہے؟ آج ڈیجیٹل انڈیا کی وکالت کرنے والے لوگ آخر کس طرح اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے ملک کو گمراہ کررہے ہیں۔ آج کی دنیا تو مٹھی میں ہے اور واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کے ساتھ ساتھ ای میل کے ذریعہ منٹوں میں دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کسی بات کو پہنچائی جاسکتی ہے اور جب اس طرح کے گورکھ دھندے میں تجارتی ذہن کے لوگ شامل ہوں تو ان کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ قیمت وصولی جائے اور اس کے لئے ہی سوشل میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس پیپر لیک میں کوچنگ چلانے والوں کا کلیدی کردار سامنے آیا ہے۔ اور یہ کوچنگ تجارتی ذہن کے لوگوں کے ہاتھوں میں ہی ہے۔ ایسے میں سی بی ایس ای کا یہ فیصلہ کہ دوبارہ امتحان صرف دہلی اور ہریانہ زون میں ہوں گے ، نہ صرف احمقانہ ہے بلکہ کہیں نہ کہیں ادارے کے ارکان بھی اس سازش میں ملوث ہیں جو اس معاملے کی لیپا پوتی کرنا چاہتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہماری خفیہ اجنسی کب تک اصل مجرم تک پہنچتی ہے اور اسے کیفر کردار تک پہنچاتی بھی ہے یا نہیں؟
بہرکیف، اس پیپر لیک نے سی بی ایس ای جیسے خود مختار اور با وثوق ادارے کی ساکھ کو مجروح کیا ہے اور ملک کے لاکھوں نونہالوں کے مستقبل سے کھلواڑ کیا ہے۔ دوئم یہ کہ قومی سطح پر مقابلہ جاتی امتحان لینے والے اسٹاف سلکشن کمیشن کے اندر جس طرح کی بد عنوانی ہے اس کا بھی پردہ فاش ہوا ہے۔ اس سے بھی ملک کے لاکھوں نوجوانوں کے عزائم کو دھچکا لگا ہے۔ کیوں کہ لاکھوں بے روز گار نوجوان تین چار سال کی محنت کرکے اس امید پر اسٹاف سلکشن کمیشن کے امتحانات میں شامل ہوتے ہیں کہ یہاں صلاحیت و لیاقت کی بنیاد پر نتائج سامنے آتے ہیں اور شفافیت کے ساتھ فیصلے لئے جاتے ہیں۔ یہی ایک اعتبار ہے جس کی وجہ سے مڈل کلاس کے لاکھوں طلبہ اسٹاف سلکشن کمیشن کے امتحانات کو اپنا مستقبل تصور کرتے ہیں۔ اگرچہ اس طرح کے ریاستی یا قومی کمیشنوں پر پہلے بھی سوالات اٹھتے رہے ہیں اور بد عنوانیاں بھی سامنے آتی رہی ہیں ۔ بالخصوص مدھیہ پردیش کے ویاپم اور بہار میں بی ایس ایس سی کے معاملات نے تو پہلے ہی ہمارے لاکھوں نوجوانوں کے ذہنوں میں وسوشے پیدا کر دئے تھے۔ اب جبکہ مرکزی اسٹاف سلکشن کمیشن کے اندر بد عنوانیوں کا سراغ لگا ہے تو لاکھوں نوجوان سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔ ایک طرف اسکولی طلبہ سی بی ایس ای پیپر لیک کے معاملے کو لے کر پورے ملک میں مظاہرے کر رہے ہیں تو دوسری طرف ایس ایس سی کی بد عنوانیوں کے خلاف قومی سطح پر جو ابال پیدا ہوا ہے وہ ملک کی سالمیت کے لئے مضر ہے۔ اگر حکومت نے بر وقت اس کا ازالہ نہیں کیا تو ہمارے نوجوانوں کی یہ بے چینیاں عوام الناس کے لئے باعث پریشانی ہوگی۔ کیوں کہ جن نوجوانوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ ہوا ہے ان کے غم و غصے تو فطری ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت نے ان دونوں معاملات کو سنجیدگی سے لیا ہے اور خفیہ جانچ ایجنسیوں سے جانچ کرانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ جانچ ایجنسیوں کے ذریعہ جگہ بہ جگہ چھاپہ ماری بھی کی جارہی ہے ۔ کئی طلباء کی گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں اور اسکول کے ٹیچر کے ساتھ ساتھ نجی کوچنگ کے افراد بھی گرفت میں آئے ہیں، تاہم ماضی میں بھی اس طرح کی بدعنوانیوں کے لئے جانچ کمیٹیاں تشکیل پاتی رہیں ہے لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا ۔ اس کی ایک زندہ مثال ویاپم ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے بے روزگار نوجوان اس طرح کی جانچ سے بھی مطمئن نظر نہیں آرہے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ مشتعل ہورہے نوجوانوں اور طلباء کے اطمینان کے لئے ٹھوس لائحہ عمل تیار کئے جائیں تاکہ وہ اپنے مستقبل کے تئیں از سر نو مثبت اور مطمئن ہو سکیں۔
موبائل 9431414586
ای میل[email protected]