میں اس بڑی عمارت کے سامنے فٹ پاتھ پر سگریٹ بیچتا ہوں جہاں عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لئے منصوبے بنتے ہیں اِن میں کئی لوگ مجھ سے سگریٹ اور پان بیڑی خریدتے ہیں ،اس عمارت کے اندر اور باہر برابر اور مسلسل شور شرابہ ہوتا تھا۔ ،
ہاتھ تھا پائی ، دھینگا مشتی اور کبھی کبھی مارا ماری۔ روز یہ معمول کا تماشا تھا۔
میں ان کی قسمت پر عش عش کرتا تھا ۔کہ یہ لوگ اتنی بڑی بڑی تنخواہیں صرف شور مچانے کے لئے پاتے ہیں ،ایک روز یہ سب لوگ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے باہر آئے ۔ اس روز نہ تو کوئی دھینگا مشتی ہوئی نہ ماراماری اور نہ کوئی نعرہ بازی ،،،،،میرے خوانچے پر آکر ایک دوسرے کو پان کھلانے لگے ،، سگریٹ پلانے لگے اور شام کو کہیں دعوت اڑانے کی باتیں کرنے لگے ۔ میں نے ایک صاحب سے پوچھا کہ آج ماجرا کیا ہے ،،،، تو وہ قہقہہ لگا کر بولے ،’ارے گھامڑ آج ہی تو ہم نے عوام کو زبر دست تحفہ دیا ہے ‘‘دوسرے صاحب نے کہا ، آج ہم نے جمہوریت کو بچالیا ہے، تیسرے نے کہا ،، آج ہم نے جمہوریت کا تقدس بر قرار رکھا ہے،
چوتھے نے کہا،،’’ آج ہی تو اصل جمہوریت عوام کو نظر آئی ہے کیونکہ کوئی شور شرابہ نہیں ہوا‘‘
’’کیا عوامی نمائیندوں نے عوام کی بجلی فیس معاف کی ہے‘‘
میںنے حیران ہوکر پوچھا ’’آج عوام کے ان نمائیندوں اور خادموں کی تنخواہ ماہوار دو لاکھ مقرر ہوئی ہے‘‘۔
رابطہ؛ سوپور کشمیر