سرینگر // ماحولیات کے ماہرین نے ریاستی سرکار کو انتباہ دیا ہے ہے کہ آبی پرندوں کی پناہ گاہوں پر ناجائز قبضہ اور قدرتی آبی زخائر پر ہورہی تعمیرات پر روک نہ لگائی گئی تو آنے والے برسوں میں وادی سنگین مسائل سے دوچار ہو سکتی ہے۔ اس دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ شہر سرینگراو راس کے آس پاس کے علاقوں میں پچھلے 50برسوں کے دوران 22آبی پرندوں کی پناگاہوں پر کالونیاں تعمیر کی گئیں ہیں اور یہ سلسلہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ماہرین اس بات کا پہلے ہی انکشاف کر چکے ہیں کہ وادی میں آئے 2014کے سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ جنگلات کی کٹائی، آبی زخائر میں تجاوزات اور آبادیوں کے بے ترتیب اور غیر زمہ دارانہ پھیلائو کے ساتھ ساتھ پہاڑی ڈھلوانوں کو ہموار کر کے زمینوں کی شکل دنیا شامل ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ اگر اس طرف دھیان نہیں دیا گیا تو آنے والے وقت میں اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ۔معلوم رہے کہ وادی بھر میں اس وقت زرعی اراضی پر تعمیرات کھڑا کرنے کی برمار ہے ،وہیں آبی زخائر پر ناجائز تجاوزات بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ تیزی سے بڑھ رہی ہیں، جنگلات کا صفایا کوئی نئی بات نہیں ہے۔جہلم ، سندھ ،لدر، کشن گنگا ،چناب اور توی جیسے بڑے دریا آلودگی کا شکار ہو گئے ہیں، کئی ندی نالوں کی حالت ناگفتہ بہہ ہو کر رہ گئی ہے ،لیکن سرکار خاموش تماشاہی بنی ہوئی ہے ۔ کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ ارضیاتی سائنس کے سربراہ پروفیسر شکیل رامشو نے کہا ہے کہ کشمیر میں سیلابوں کی تاریخ رہی ہے کیونکہ اس کی جغرافیائی پوزیشن ایسی ہے کہ یہاں سیلاب آنے کا خطرہ رہے گا ۔انہوں نے کہا ہے کہ حکومت کی ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ وہ آبی پرندوں کی پناہ گاہوںاور قدرتی آبی زخائر کے تحفظ کو یقینی بنائے تاکہ سیلاب کا پانی آبی پناہ گاہوں اور آبی زخائر میں جمع اور جذب ہوسکے ۔انہوں نے کہا کہ یہ ہم سب کیلئے انتہائی تشویش کی بات ہونی چاہئے کہ پچھلے 50برسوں کے دوران شہر سرینگر او ر اس کے آس پاس تقریباًً 22آبی پرندوں کی پنا ہ گاہوں کو کالونیاں تعمیر کرنے کیلئے استعمال کیا گیا اور بڑی بڑی کالونیاں تعمیر کرائی گئیں ۔ انہوں نے کہا کہ پوش کالونی بمنہ اور حیدپورہ کالونیوں کی مثال ہمارے سامنے ہے جو بنیادی طور پر آبی پناہ گاہوں کی اراضی کا حصہ رہیں ۔کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے شکیل رامشو نے اس بات کا اعتراف کیا کہ پچھلے 50برسوں میں آبی پناگاہوں کو تعمیراتی سرگرمیوں کیلئے استعمال کیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ شہر میںپادشاہی باغ ، بمنہ ، حیدرپور ،پیرباغ، بڈشاہ نگر ،کے علاوہ دیگر علاقے جہاں آج کالونیاں بنی ہوئی ہیں یہ پہلے آبی پناگاہیں تھیں لیکن وہاں اب کنکریٹ تعمیرات کھڑی کی گئی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ شہر اور اس کے آس پاس جو قدرتی ڈرنیج سسٹم تھا اُن کا کام ہوتا تھا کہ جوں ہی زیادہ بارشیں ہوں یا پھر سیلاب کا خطرہ ہوتا تھا تو آبی پناہ گاہیں بارشوں کا پانی جذب کر لیتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اب شہر میں ایک گھنٹے کی بارش بھی ہوتی ہے تو سڑکیں پانی سے بھر جاتی ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ آبی پنا ہ گاہوں پر تجاوزات کھڑی کی گئیںاور پانی اپنے اندر سمیٹ لینے کی قدرتی مقامات ختم کردیئے گئے ۔پروفیسر رامشو نے کہا کہ ریاست کے لوگوں نے بہت سی آبی پناگاہوں کو کھو دیا ہے تاہم ابھی بھی ہمارے پاس 3ہزار 6سو 50آبی پناہ گاہیں موجود ہیںجن کو بچانے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ جب زیادہ پانی آتا ہے تو یہ اس کو جذب کر لیتی ہیں اور جب پانی کم ہو جاتا ہے تو یہ ہمیں پانی بھی فراہم کرتی ہیں۔ اسی طرح ہمیں ان قدرتی اشیاء جن میں ندرو، مختلف اقسام کی سبزیاں اور مچھلیاں بھی ملتی ہیں۔انہوں نے لوگوں اور سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کو بچانے کے اقدامات کریں کیونکہ یہ ریاست کے لوگوں کیلئے کافی مفید ہیں اور جہاں کہیں بھی ان پر تجاوزات کھڑا کی گئی ہیں اُن کو ہٹایا جائے ۔اس سلسلے میں قانون ساز اسمبلی کی ماحولیاتی کمیٹی نے حکومت کو کئی ایک تجاویز بھی پیش کی ہیں ۔کمیٹی نے آبی ذخائر اورسوپورسے بارہمولہ تک دریائے جہلم کی ڈریجنگ کی تجویز پیش کی تاکہ ولر سے نکلنے والے پانی کے بہائو کو تیز کیا جا سکے ۔فلڈ سپیل چینلوں کو بحال کر کے ان میں ڈریجنگ کی سفارش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سیلاب کی صورت میںجہلم کے پانی کی زیادہ مقدار کو ان چینلوں کے ذریعے سے نکالا جا سکے۔ اس کے علاوہ کمیٹی نے کہا کہ شہر سرینگر کے اندر جو پانی کے نکلنے کے نالے چونٹی کوہل سونر کوہل اور کٹہ کوہل شامل ہیں ،کی گہرائی کو اپنی حالت میں بحال کیا جائے تاکہ یہاں سے پانی کا اخراج ہو سکے ۔دریائے جہلم پر جنوب سے شمال تک بنڈوں کو مضبوط کیا جائے ۔