سرینگر //ریاست جموں وکشمیر میں شہروں اور قصبوں میں ابھی تک ٹھوس فضلہ ٹھکانے لگانے کیلئے سرکار کے پاس کوئی بھی سائنسی بندوبست نہیں ہے اوراس کیلئے غیر مناسب طریقہ کار اپنائے جا رہے ہیںجس سے صحت عامہ اور ماحول پر مضر اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ریاست بالخصوص وادی میںیہ ایک روایت بن چکی ہے کہ یہاں گھروں، ہسپتالوں اور صنعتی اداوں و دیگر جگہوں سے نکلنے والا فضلہ یا تو کھلے میں پھینکا جاتا ہے یا پھر اُس کو ندی نالوں اور جھیلوں کی نذر کیا جاتا ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وادی میں فی الوقت گھریلو، صنعتی اور اسپتالوں سے نکلنے و الے ٹھوس فضلے کو ٹھکانے لگانے کا کوئی مربوط نظام موجود نہیں ہے ۔ریاست میں78 عوامی خدمت فراہم کرنے والے قانونی ادارے ہیں، جن میںجموں اور سرینگر کی میونسپل کارپوریشنوں سمیت72اربن لوکل باڈیزاور 6مونسپل کونسل شامل ہیں ۔لیکن ہر ایک مختلف طریقوں سے کام کر رہے ہیں اور ان میں سے صرف سندربنی ،ڈوڈہ، بھدروہ اور لیہہ میںٹھوس فضلہ ٹھکانے لگانے کا انتظام ہے باقی ریاست کے کسی بھی شہر یا قصبہ میں اس کو ٹھکانے لگانے کیلئے کوئی بھی سائنسی طریقہ کار موجود نہیں ہے ۔یہاں کے ہسپتالوں ، کارخانوں ، گھروں، کاروباری اداروں اور دیگر جگہوں سے روزانہ لاکھوں ٹن ٹھوس فضلہ نکلتا ہے، اس کو ٹھکانے لگانے کیلئے اگرچہ سرکار بلند باغ دعویٰ کرتی ہے لیکن زمینی سطح پر کچھ اور ہی دکھائی دیتا ہے۔ وادی میں جمع کچرے اور فضلہ کو نہ صرف کھلے میں پھینک دیا جاتا ہے بلکہ ندی نالوں اور جھیلوں کی نذر بھی کیا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی کارروائی ریاست جموں وکشمیر میں ایک بڑی تباہی بھی لا سکتی ہے۔کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ ارضیاتی سائنس کے سربراہ پروفیسر شکیل رامشو نے کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں ایسا کوئی بھی قصبہ یا شہر نہیں ہے جہاں پر کھلے میں فضلہ کو نہیں پھینکا جاتا ہے ۔انہوں نے شہر کے اچھن علاقے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہاں پر کچرے اور ٹھوس فضلہ کو کھلے میں ڈال کر خالی زمین کو استعمال میں لایا جارہا ہے۔وہیں دیگر قصبوں، سیاحتی مقامات کے علاوہ جہلم اور ڈل میں بھی اس کو پھینکا جاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ندی نالوں اور دیگر بڑے دریائوں میں اس کو پھینکے سے نہ صرف پانی کا معیار متاثر ہوتا ہے بلکہ ماحول پر بھی کافی بُرا اثر پڑسکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ کھلے میں پھینکنے سے بدبو پھیلتی ہے جس سے کئی طرح کی بیماریاں بھی لگنے کا اندشیہ رہتا ہے ۔ رامشو نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے پاس قصبوں اور شہرئوں میں اس کو ٹھکانے لگانے کیلئے جگہیں دستیاب نہیں بلکہ ان کو نوٹیفائی کرنے کی ضروت ہے لیکن یہاں اس سنگین معاملہ پر کوئی بھی توجہ نہیں دی جاتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس کیلئے امرت سکیم ہے جس کے تحت آپ سائنسی طور پر اس ٹھوس فضلہ کو ٹھکانے لگانے کیلئے اقدامات کر سکتے ہیں اور اگر اس پر کوئی توجہ نہ دی گئی تو آنے والے وقت میں انسانی زندگیوں پر کافی گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ کیونکہ اس فضلہ کے ساتھ ہزاروں ٹن پولی تھین اور پلاسٹک کی بوتلیں ہوتی ہیں جو ماحول کو خراب کر رہی ہیں ۔ ریاست میں صرف ڈوڈہ بھدرواہ ،سندربنی اور لہیہ ایسے قصبے ہیں ،جہاں اُن کو ٹھکانے لگانے کا انتظامات ہے ، تاہم دیگر علاقوں میں اس کو ٹھکانے لگانے کیلئے کلسٹر بنائے جارہے ہیں ۔ذرائع نے بتایا کہ سولڈ ویسٹ منیجمنٹ پروگرام کے تحت ریاست میں ٹھوس فضلہ ٹھکانے لگانے کیلئے 19کلسٹربنائے گئے ہیں ۔ذرائع کے مطابق بانہال اور کشتواڑ کو چھوڑ کر باقی تمام علاقوں میں زمین کی نشاندھی کی گئی ہے ۔ سرکاری ذرائع کے مطابق ان 19کلسٹروں کے دائرے میں 80شہروں اور قصبوں کو لایا جائے گا ۔ذرائع کے مطابق ابھی تک صرف 16کلسٹروں کے ڈی پی آر مکمل کئے گئے ہیںاور 3کے بن رہے ہیں۔ ان میں سے 13کلسٹروں کے ڈی پی آر ٹیکنیکی منظوری کے مراحل میں ہیں ۔ اننت ناگ ، پلوامہ ، کولگام ، بارہمولہ ، بانڈی پورہ ، کپوارہ ، پونچھ ، راجوری ، جموں ، کٹرہ ، کٹھوعہ ،بلاور ، اور سانبہ کے ڈی پی آر پر نظر ثانی کی جا رہی ہے ،جبکہ اننت ناگ ،کولگام ، کٹرہ اودھمپور ، اور سرینگر کے ڈی پی آر کو سرکار کی طرف سے منظوری مل گئی ہے اور بہت جلد اس پر کام شروع کیا جائے گا ۔