عالم اسلام کی زبوں حالی پر ماتم کرنااورامریکہ و یورپ کو اسلام اورمسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن سمجھ کر ان کے زوال اور مکمل بربادی کے اامکانات تلاش کرنا ایشیاء میں عام مسلمانوں کا ہی نہیں بلکہ مسلم دانشوروں ، قلمکاروں اور علماء کا وہ ذہنی رویہ اورجذباتی شعلہ ہے جو ایک نسل سے دوسری نسل کے خون میں منتقل ہورہا ہے ۔مسلم دنیاپچھلی کئی دہائیوں سے جس حالت میں مبتلا ہے وہ اس سوچ کافطری جواز فراہم کرنے کیلئے کافی ہے ۔ افغان جنگ سے لیکرایران عراق جنگ تک اور کویت پر عراقی حملے سے لیکر عراق اور لیبیا پر امریکی حملوں تک ۔ القاعدہ کے عروج اور آئی ایس آئی ایس کے جنم سے شام کی خانہ جنگی تک سازشی منصوبوں کی عمل آوری کا منصوبہ بند اور منظم تسلسل تاریخ انسانی کا وہ سیاہ باب بن چکا ہے جس نے پوری مسلم دنیا کا امن اور سکون چھین لیا اور اس کی حقیقی ترقی اور استحکام کا راستہ بھی روک لیا۔حد یہ ہے کہ جس امت کا امن و سکون درہم برہم کرکے رکھ دیا گیا اسی کو دنیا کے امن و سکون کا دشمن قرار دیا گیا ۔
اس سانحے سے بڑا اورجگر خراش سانحہ یہ ہے کہ اسلام جیسے امن و اخوت کے مذہب کو ایک ڈراونا نظریہ بنا کر پیش کیا گیا ۔آج مسلم ملکوں میںبے جا مداخلتوں کے ساتھ ساتھ فلسطینی جدوجہد کیخلاف اسرائیل کی ناجائز حمایت کے علاوہ جو بات مسلمانوں کو سب سے زیادہ چبھتی ہے وہ امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ قراردینا اور مسلمانوں پردہشت گردی کالیبل چسپاں کرناہے جبکہ عام مسلمان بھی اس بات سے واقف ہیں کہ انتہا پسندی اورکلاشنکوف کلچرمسلمانوں کے ذہنوں اورجذبوں میں داخل کرنے کی منصوبہ بندی کرکے کروڑوں اور اربوں ڈالر خرچ کرکے اسے عالمی ایجنڈا کی تکمیل کیلئے کامیابی سے استعمال کرنا بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ہی منصوبہ سازی کا کرشمہ ہے ۔
جس بات نے مسلمانوں کے اندر سب سے زیادہ نفرت بھردی وہ یہ ہے کہ مقاصد پورے ہونے کے بعد ان تمام قوتوں کوبے دردی کے ساتھ دھتکارا گیا جنہیں پیدا کرنے کا دشوار عمل ہر قیمت پربڑی حکمت عملی اورچالاکی کے ساتھ پورا کیا گیا۔ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں جب مقاصد پورے ہوئے تو ان قوتوں کو دھتکارنے کا سلسلہ شروع ہوا جن کی مدد سے سوویت یونین کو توڑنے کا خواب پورا کیا گیا تھا۔رد عمل میں ان قوتوں نے پلٹ کر انہی پر وار کرنا شروع کیاجنہوں نے انہیں پیدا کیا تھا اورجب امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو خطرات اپنے سروں پر منڈلاتے نظر آئے توان قوتوں کا خاتمہ کرنے کی خونریز مہم شروع کی گئی جو اب بھی جاری ہے ۔امریکہ دہشت گردوں کی جو فہرستیںآج جاری کررہا ہے وہ پہلے اس کے راج دلاروں کی فہرست میں درج تھے جنہیں افغانستان میں سوویت یونین کو توڑنے کیلئے طاغوت کیخلاف خدائی فوج کے طور پر لڑایا جارہا تھا ۔افغان جنگ سے پہلے جہاد کا وہ تصور مسلمانوں میں موجود ہی نہیں تھا جو غیر سرکاری عسکری قوت کی صورت میں مقبول بنایا گیا اب اسی غیر سرکاری عسکری قوت کو دہشت گرد کہا جاتا ہے اور اس کے اشتعال اور غم و غصے کو اسلامی دہشت گردی قرار دیا جاتا ہے ۔یہ معاملے کا ایک پہلو ہے جو مسلم دنیا کی یورپ اور دیگر کئی ملکوں اور تہذیبوں کیخلاف نفرت کا جواز پیش کرتا ہے۔
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ پوری کی پوری مسلم دنیا ان کھلی سازشوں کاآسانی کے ساتھ کیسے شکار ہوئی؟ ۔گرشتہ چالیس سال میں ایک بھی مسلم سکالر ، ایک بھی دانشور ، ایک بھی عالم اور ایک بھی سیاست داں ایسا نظر نہیں آتا جس نے ان سازشوں کی نشاندہی کی ۔ اس طویل عرصے میں ہر فتویٰ ، ہر تبلیغ ، ہر تقریر ، ہر کتاب ، ہر بحث ان سازشوں کے ہی حق میں رائے عامہ منظم کرتی نظر آرہی ہے اور یہ بات صاف نظرآتی ہے کہ مسلمان خود اپنے خلاف ان سازشوں میں پوری طرح سے شریک تھے ۔افغان جنگ میں پوری کی پوری امت مسلمہ اس احساس کے ساتھ امریکہ کے ساتھ کھڑی تھی کہ یہ امت مسلمہ کی جنگ ہے۔بظاہر افغانستان پر کمیونسٹ روس کی جارحیت کے خلاف مسلم دنیا یکجا تھی اور امریکہ مسلمانوں کی مدد کررہا تھا لیکن جب جنگ ختم ہوئی تو شکست سوویت روس کی ہوئی اور فتح امریکہ کی ۔ افغانستان میں آج بھی امریکی فوج موجود ہے اور افغانوں کے ہی خون سے ہاتھ رنگ رہی ہے ۔
سوویت یونین کی شکست کے بعد عراق جو سوویت یونین کا سب سے بڑا دوست تھا امریکہ کے اشاروں پر ناچنے لگا ۔ ایرانی انقلاب امریکہ کی آنکھوں میں کھٹک رہا تھا تو اس کے ایماء پر عراق نے ایران پر چڑھائی کردی ۔تقریباً دس سال یہ جنگ جاری رہی اور دس لاکھ کے قریب مسلمان اس جنگ میں اپنی جانیں گنوا بیٹھے ۔ ایران کوشکست نہیں ہوئی اور عراق کو فتخ نہیں ملی ،جنگ بند ہوگئی ۔ اس کے بعد عراق نے امریکہ کی ہی ایماء پر کویت پر چڑھائی کردی ۔امریکہ کے سب سے بڑے حلیف سعودی عرب کی سرحدوں کو خطرہ لاحق ہوا اور امریکہ اس کی مدد پر آگیا ۔عراق کی ہار ہوئی اور سعودی عرب عراق کیخلاف امریکہ کی مہم کا سب سے بڑا ساتھی بن گیا ۔جب امریکہ کی فوجیں عراق میں داخل ہوگئیں سعودی عرب اور اس کے ساتھی ممالک کی سیاسی ، مالی اور فوجی مدد اسے حاصل تھی ۔ یہ سعودی عرب ہی تھا جس نے افغان جنگ میں نظریہ جہاد کو عام کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا تھا ۔ ایران کے خلاف وہ عراق کے ساتھ تھا اور اب وہ عراق کیخلاف امریکہ کے ساتھ تھا ۔عراق کی شکست کے بعد صدام حسین کو پھانسی پر چڑھایا گیا اور پھر لیبیاء کے صدر کرنل معمر غدافی جو امریکہ کو آنکھیں دکھانے لگاتھا نشانہ بن گیا ۔
اس طرح ان تمام مسلم ملکوں کو ملیا میٹ کردیا گیا جن کی توجہ فوجی قوت میں اضافے پر مرکوز تھی اور جو اسرائیل کے لئے خطرہ بن جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس سازشی مہم میں سعودی عرب اورکئی دیگر عرب ممالک امریکہ اوراس کے اتحادیوں کی پشت پر تھے ۔شام میں بشار الاسد کی حکومت کیخلاف بغاوت کو ایران کی بھر پورفوجی مدد نے طاقتور بنادیا اور بشار الاسد کو روس کی پشت پناہی حاصل ہوئی۔ امریکہ بھی اس جنگ میں شامل ہوا اور اب یہ ملک عالمی فوجی قوتوں کی کشمکش کا اکھاڑہ بن چکا ہے جس میں نسل انسانی کو بری طرح سے تاراج کیا جارہا ہے ۔ مسلمان ہی مسلمانوں کے ساتھ لڑرہے ہیں اور مسلم شہری ہی بموں اور راکٹوں کے ساتھ ساتھ اب کیمیاوی ہتھیاروں کے شکار ہورہے ہیں ۔آئی ایس آئی ایس بھی مسلمانوں کیخلاف ہی خونین لڑائی لڑرہی ہے اورمسلمانوں کا مشترکہ دشمن اسرائیل بڑے سکون کے ساتھ ان معرکوں کو دیکھ رہا ہے ۔اس کی طر ف کوئی نظر اٹھاکر بھی دیکھنے کی جرات نہیں کررہا ہے اور نہ ہی فلسطینیوں کی حالت زار کی کسی کو پرواہ ہے ۔
مسلم دنیا کی بدبختی کی یہ طویل داستاں ہے جسے تفصیل کے ساتھ ان کالموں میں بیان کرنا ممکن نہیں مختصر یہ کہ اس پوری داستاں میں یہ سوال ہرمرحلے پر نمایاں ہورہا ہے کہ مسلمانوں کا دشمن کون ہے ۔امریکہ ، یورپ ، اسرائیل یا وہ خود ۔اب عرب دنیا کے نظریات کو بھی بدلا جارہا ہے ، تہذیب کو بھی اورمذہب کو بھی ۔سعودی عرب جو مسلم دنیا کا روحانی مرکز ہے سیاسی ، تہذیبی ، تمدنی اور مذہبی عقیدوں کی تبدیلیوں کی جانب گامزن ہے ،سنیما گھر بھی پھر سے چالو ہوگئے ہیں ، فیشن شو بھی ہورہے ہیں ، خواتین کی آزادی کا دور بھی شروع ہورہا ہے ۔قدامت پسندی سے باہرنکل کر ترقی پسندی کی طرف قدم بڑھانے کا فلسفہ سعودی سرکار کی پالیسی کی ترجیح بن چکا ہے ۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جب سے سعودی اقتدار میں مرکزی حیثیت حاصل کی ہے اس نے تبدیلیوں کا عمل تیز تر کردیا ہے ۔اوراس کے ساتھ ہی پوری دنیا میں اسے صاحب دانش و بصیرت ، غلطیوں کے اعتراف کی ہمت کرنے والا اور اپنے ملک کی ترقی کیلئے اصلاح کا عزم رکھنے والا قرار دینے کی بھرپور مہم شروع ہوچکی ہے ۔ مبینہ طور پر کہا جاتا ہے کہ اس نے حال ہی میں اسرائیل کا ایک خفیہ دورہ کیا ہے ۔اپنے حالیہ امریکی دورے کے دوران ایک انٹرویو دیتے ہوئے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ سرد جنگ کے دوران سعودی عرب کے فوجی اتحادیوں نے درخواست کی تھی کہ سوویت حکومت کی مسلم ممالک تک رسائی روکنے کیلئے مختلف ممالک میں مساجد اور مدارس کی تعمیر میں سرمایہ لگایا جائے۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ ماضی کی سعودی حکومتیں اس کوشش کے حصول کیلئے راستہ بھٹک گئی تھیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں واپس صحیح راستے پر آنا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ سعودی عرب نے مسلم دنیامیں اب تک جن مذہبی نظریات کی تعلیم اور تبلیغ کا کام کیا تھا اور جن کے فروغ کیلئے بے پناہ سرمایہ بھی خرچ کیا تھا اس سے اب وہ ہاتھ کھینچ کر ایک نئی سوچ جسے ترقی پسندانہ سوچ قرار دیا جارہا ہے کو عام کرنے کا بیڑا اٹھا چکا ہے پالیسی کی بنیاد اب بنیاد پرستانہ اسلامی نظر یہ کا پھیلاو نہیں بلکہ قدامت پسندی سے باہر آنا ہے لیکن اس میں مسلکی منافرت کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔
ایران پہلے ہی سعودی حکومت سے نالاں رہا ہے اور جیسا کہ خود ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ اگر ایران کو اقتصادی پابندیوں سے دباو میں نہ رکھا گیا آنے والے پندرہ سال میں اس کے ساتھ ایک بھرپور جنگ یقینی ہوگی ۔اس مخاصمت میں سعودی عرب کے ساتھ پورا یورپ بھی ہے اور اسرائیل بھی ۔اس نئے سیاسی نفشے اور فوجی محاذ آرائی میں عالم اسلام کی زبوں حالی پر ماتم کر نے اور امریکہ و یورپ کو اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن سمجھ کر ان کے زوال اور مکمل بربادی کے امکانات تلاش کرنے کا جذبہ اورذہنی رویہ اپنی ساری اہمیت کھودیتا ہے کیونکہ کشمکش کا میدان اب خود مسلم دنیا ہے اور ٹکراو مسلم اور غیر مسلم دنیا کے درمیان نہیں بلکہ قدامت اورجدیدیت کے نام پر خود مسلمانوں کے درمیان ہے ۔
اس لڑائی نے ابھی ایشیاء کو اپنی لپیٹ میں نہیں لیا ہے اس لئے ایشیاء کا بیانیہ ابھی بھی اپنی جگہ ہے ۔اس و قت صرف ایران ہے جس کاامریکہ ، اسرائیل اور یورپ کے ساتھ سیاسی ، نظریاتی اور فوجی ٹکراو ہے اوراس ٹکراو میں باقی مسلم دنیا ایران کیخلاف اورامریکہ کے ساتھ ہے سوائے ترکی کے جو محدود پیمانے پر سہی امریکہ اور اسرائیل کیخلاف آمادہ پیکارہے ۔ غیر سرکاری عسکری قوتیں امریکہ اور یورپ کیخلاف ہر جگہ اپنے طرزکی لڑائی لڑرہی ہیں اور امریکہ پاکستان کی دوستی سے دست بردار ہوچکا ہے ۔دنیا میں پھیلی ہوئی مذہبی تنظیمیں امریکہ کیخلاف مسلم رائے عامہ کو منظم کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن جدت پسند مسلمان ملکوں میں انہیں بری طرح سے دبایا جارہا ہے۔ مجموعی طور پر مسلم دنیا نظریات اور عمل کے انتشار کی شکار ہے ۔ اس لئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ مسلم دنیا تو موجود ہے لیکن امت مسلمہ نہیں اور اگر امت مسلمہ ایک جانب کھڑی نہیں ہے تو کوئی ٹکراو امت مسلمہ کا ٹکراو نہیں ۔ ملکوں کے اپنے نظریات کا آپسی ٹکراو ہے ۔یہ ایک انتہائی مایوس کن صورتحال ہے ۔ جن عرب ملکوں میں بظاہر استحکام اورسکون نظر آتا ہے وہ ڈکٹیٹر شپ یا مطلق العنان بادشاہوں کی گرفت میں ہیں اورجدت پسندی کے نظریات کے حامی ہیں ۔جہاں جمہوریت ہے وہاں استحکام نہیں ۔جہاں اسلامی نظام اور شرعی نظام کا شور ہے وہاں نہ اسلامی نظام ہے نہ شرعی ۔
( ماخذ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر)