سماجی تنظیموں، این جی اوز یا سول سوسائیٹی کا تصور ہی اس لئے سامنے آیا تھا کہ جمہوریت کے باوجود ریاست بااختیار ہوتی ہے اور اس کے عمل میں کہیں نہ کہیں آمریت کا شائبہ ضرورت موجود رہتا ہے۔ سماجی ادارے لوگوں کی خالص ترجمانی کرکے حکومت کو جوابدہ بنانے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن سالہاسال سے حکومتوں کی یہ کوشش رہی ہے کہ خفیہ طور پر خود ہی ایسے اداروں کو پروان چڑھایا جائے، انہیں عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے بعض اوقات حکومت مخالف لہجہ اختیار کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ بعد ازاں یہی ادارے عوام میں موجود حکومت کے خلاف پنپ رہے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے آسکے۔یہ رجحان بھارت یا پاکستان میں ہو تو ہو، لیکن بیرونی دنیا میں بعض ایسے سماجی ادارے بھی ہیں جو طاقت ور کے سامنے حق گوئی(Telling Truth To Power) کابنیادی فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
31مارچ کو غزہ میں اسرائیلی فوج کی طرف سے ایسے 19مظاہرین راست فائرنگ میں مار ے گئے۔ یہ مظاہرین سرکاری طور نصب فصیل کو پارکرنا چاہتے تھے۔ اس کے ردعمل میں وہاں بائیں بازو کی ایک این جی او ’’ بیت سییلم‘‘ نے ایک مہم چلائی جس میں اسرائیلی فوج کو مخاطب کرکے کہا گیا کہ وہ غیرمسلح شہریوں پر فائرنگ کرکے نہ صرف اسرائیلی فوج کے بنیادی ضوابط کی خلاف ورزی کررہے ہیں بلکہ بہت قبیح اخلاقی جرم بھی کررہے ہیں۔ تختیوں پر لکھے پوسٹر فوج میں تقسیم کئے گئے اور سوشل میڈیا پر بھی مہم چلائی گئی اور فوجیوں سے کہا گیا کہ جب ایسا موقع ہو اور افسرکسی نہتے پر گولی مارنے کا حکم دے تو وہ اپنے قومی ضمیر کے دفاع میں صرف یہ کہہ دیں: ’’سوری کمانڈر، میں گولی نہیں مار سکتا۔‘‘ اس مہم کے ردعمل میں اسرائیلی حکومت نے مذکورہ این جی او کو متنبہ کیا اور اس مہم کے خلاف کاروائی کی، لیکن اس مہم سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل جیسے ملک کے عوام کا ایک بااثر اور غالب طبقہ بھی انسانی حقوق کے تئیں حساس ہے۔
اس مہم کا تقابل بھارت کی بائیں بازو کی این جی اوز سے کریں۔ بلاشبہ بعض گروپوں نے پیلٹ گن کے خلاف مہم چلائی لیکن لہجہ کیا تھا۔ بتایا گیا کہ غیر مہلک ہتھیار استعمال کریں۔ نہتے مظاہرین کے خلاف کسی بھی نوعیت کے ہتھیار کا استعمال ہی قابل اعتراض ہے، جب تک ہجوم ایسی تخریب کاری یا آتش شوئی نہ کرے جو ہریانہ کی جاٹ تحریک یا تمل ناڈو کی جلی کٹو تحریک کے دوران کی گئی ۔لیکن ستم یہ ہے کہ اُدھر قتل عام نہیں ہوئے، نہ لوگ نابینا ہوئے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا بھارتی عوام کا لبرل یا سیکولر طبقہ بھی کشمیرمیں ہورہے ظلم پر درمیانی راستے پر گامزن ہے؟ کیا بھارتی عوام کا ضمیر اسرائیلی عوام کے ضمیر کے مقابلے میں مردہ ہے؟ کیا بھارتی عوام کو فسطائی نظریات کی گولی کھلائی گئی ہے کہ ہر طبقہ وہی بولی بولنے پر آمادہ ہے ، جو ارباب اختیار سننا چاہتے ہیں؟ کیا کشمیر کی این جی اوز یا سول سوسائیٹی کشمیر پولیس کے حوالے سے یہی مہم نہیں چلا سکتے۔ کیا وہ پولیس والوں سے نہیں کہہ سکتے کہ آپ بھی کہہ ڈالیں: ’’سوری ایس پی صاحب ، میں گولی نہیں چلا سکتا‘‘ ایسا اس لئے ممکن نہیں ہے، کیونکہ بھارت اسرائیل نہیں، اورکشمیر بھی فلسطین نہیں۔
جموں کے کٹھوعہ ضلع میں رسانہ گاؤں کی ننھی آصفہ کو سابق سرکاری افسر سانجھی رام اپنے بیٹے اور بعض پولیس اہلکاروں کی مدد سے اغوا کرواتا ہے، اسے مندر میں قید کیا جاتا ہے، نشہ آور گولیاں کھلا کر اسے بے ہوش کیا جاتا ہے اور بعد میں اس سے قتل کرکے لاش جنگلوں میں پھینک دی جاتی ہے۔ جموں کی مسلم آباد ی آبلہ پا ہوجاتی ہے، سرخیاں چینخ چینخ کرکہتی ہیں کہ کسی جاگیر دار نے مسلم بکروال طبقہ کو علاقے سے کھدیڑنے کے لئے یہ انسانیت سوز حرکت کی ہے۔ مقامی لوگ جب احتجاج کرتے ہیں اور ایک رضاکار طالب حسین عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا عہد کرتے ہیں تو پولیس طالب کو ہی گرفتار کرتی ہے۔ شدید عوامی دباؤ کے تحت کیس کرائم برانچ کے سپرد کیا جاتا ہے، ملزمان کو گرفتار کیا جاتا ہے، سانجھی رام بیٹے کی بیرونِ ریاست گرفتاری کے بعد سرینڈر کرتا ہے۔ اب تک سب ٹھیک تھا۔ لیکن اچانک ایک تنظیم وجود میں آجاتی ہے۔ ہندوایکتا منچ نامی اس گروہ کی کال پر پورا کٹھوعہ سراپا احتجاج بن جاتا ہے اور حکومت کی اہم اتحادی بی جے پی اس احتجاج کی دبے الفاظ میں حمایت کربیٹھتی ہے۔اس پر ستم یہ کہ کرائم برانچ جب عدالت میں چالان پیش کرنے پہنچ جاتا ہے تو وکلا کی کلیدی تنظیم جموں بار ایسو سی ایشن کے کارکن کرائم برانچ اہلکاروں پر جھپٹ پڑتے ہیں، تین گھنٹوں کے تعطل کے بعد چالان فائل ہوجاتا ہے۔ ننھی آصفہ کے ریپ اور قتل میںملوث افراد کے حق میں جو لوگ احتجاج کررہے ہیں وہ وطن دوستی، قومی مفاد اور ہندوتوا کے بچاؤ کا نعرہ دے رہے ہیں۔بھارتی عوام میں سے مٹھی بھر لوگ اس غیرمنظقی ردعمل پر بولتے۔ مثال کے طور پر معروف صحافی ٹوٹر پر اس کیس کی دلخراش تلخیص بیان کرتے ہیں کہ ’’اس سے ہمارا ضمیر مجروح ہوا ہے۔‘‘
ملک کے عوامی ضمیر کو تب چوٹ نہیں پہنچتی جب ہجوم کو منتشر کرنے کے لئے سینوں کو گولیوں سے چھلنی کیا جاتا ہے، آنکھوں آہنی چھروں سے چیر دیا جاتا ہے ، جسموں پر درجنوں گھاؤ لگائے جاتے ہیں اور پولنگ بوتھ پر ووٹ ڈالنے والے نہتے اور معصوم ووٹروں کو فوجی گاڑی کے ساتھ باندھ کر نشانۂ عبرت بنایا جاتا ہے۔کیا وجہ ہے کہ دلوں کو لہو لہو کرنے والے یہاں کے واقعات سے بھارتی عوام بپھر نہیں جاتی؟ کیا وجہ ہے کہ یہاں کی آہ و بکابھارتی عوام کے دلوں کو نہیں جھنجھوڑرہی؟ کیا وجہ ہے کہ کشمیریوں پر ڈھائے جارہے مظالم سے نہ بھارتی عوام سڑکوں پر آتی ہے نہ عالمی برداری کا دل پسیج رہا ہے؟ کچھ تو وجہ ہوگی، کوئی تو محرک ہوگا، کوئی تو پہلو ہے جس پر ہماری توجہ نہیں جارہی؟ ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے؟
( بشکریہ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر)