جگر پاش پاش کر نے والا کھٹوعہ کیس سپریم کورٹ سے لے کر بازاروں اور بستیوں میں گرماگرم موضوعِ بحث بنا ہواہے ، کشمیر میں آصفہ کی ہمدردی اور مجرموں کی مخالفت میں طلباء، تاجرین ، وکلاء اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں ، تمام لوگ نالہ وفریاد کر رہے ہیں کہ قاتلوں کو پھانسی چڑھاؤ، ریاست سے باہر جابجا آصفہ کے حق میں مسلسل جلسے جلوس جاری ہیں ۔ اس ساری صورت حال سے لگتا ہے کہ انسانیت زندہ ہے، انسانی ضمیر کودرندگی اور وحشیانہ پن قبول نہیں ۔ مقتولہ آصفہ۔۔۔ ایک کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مسل دی گئی۔۔۔ کے بارے میں یہ سب ہونا ہماری زندگی کی علامت ہے۔ مقامی ا ور علاقائی سطحوں پر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اس پھول چہرے کے ساتھ جنگلی جانوروں کے برتاؤ نے دلی کی دامنی اور قصور پاکستان کی زینب سے ہزار گنا زیادہ انسانیت کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کیا، آہوں اورسسکیوں کے سمندر میں ڈبودیا، معصوم بچیوں کو وقت کے سیاسی ناخداؤں کے کالے سائے سے بچائے رکھنے کی فکر نے تڑپا ۔ بہر حال جموں وکشمیر سمیت بھارت اور دنیا کے اطراف واکناف میں لوگ اس بچی کے انجام پر واویلا کر تے جارہے ہیں ، حتیٰ کہ برطانوی اخبار’’ دی گارڈین‘‘ نے بھارت میں بلات کاری اور مہیلا ؤں کے مسلسل اَپمان کے پس منظر میں ایک ایسے نازک موقع پر جب وزیراعظم مودی لندن میں بہ نفیس موجود تھے ، نئی دلی پر چوٹ کی کہ ’’بھارت جمہوریۂ خوف‘‘ ہے ۔ کیایہ خوف بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کا پہلا قدم ہے یا اس کی آخری شکل ، اس سوال پر اب دنیا کے انصاف پسندوں اور انسانی اقدار کے علمبرداروں کی سوچیں مر کوز ہورہی ہیں۔ بلاشبہ تاخیر سے ہی سہی بھارتی صدر اور وزیراعظم نے اپنی اپنی باری پر کھٹوعہ قتل اور ریپ پر اپنی شرمندگی کا اظہار کیا مگر لفظوں کا مختصر مرہم نہ اس خجالت کے زخم کو مندمل کرسکتا ہے جس کی مودی سرکار کھٹوعہ اور اُناؤ کے سبب نشانہ بنی ہوئی ہے اور نہ ہی یہ عالم ِانسانیت کے اس سوال کا کافی وشافی جواب ہے جو آصفہ کی ناقابل بیان دُرگت سے انسانی قلوب میں کلبلا رہاہے۔ ان دنوں ریاستی سطح پر لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کیا’’ اچھے دن‘‘ یہی ہوتے ہیں ؟ کیا ہیلنگ ٹچ ، ایجنڈا آف الائنس اور قطبین کے اتحاد کا یہی ثمرہ ہے ؟
بدنام زماںکھٹوعہ کیس سے اگر چہ جموں اورکشمیر کے عام مسلمانوں کے دل پہلے دن سے چھلنی ہوگئے ، ان کے ضمیر میں نیزے اُتر گئے ، اپنے درد کا مداوا وہ مرثیہ خوانیوں سے کر رہے تھے، ہڑتالوں اور احتجاجوں سے اپنا غم غلط کر رہے تھے لیکن سیاست دانوں کو بہت بہت دیر بعد معصوم بچی یاد آئی ۔ ایسے سنگین جرائم کی شکار چاہے گیتا چوپڑہ ہو ، تابندہ غنی ہو ، رومانہ جاوید ہو، دامنی ہو یا زینب ہو ،سیاست کاروں اور حکومتی اکابرین کی تادیر خاموشی کا مطلب ہوتا ہے کہ انہیں ’’قوم کے غم میں ڈنر کھانے ‘‘ سے اتنی بھی فرصت نہیں کہ متاثرین کے ساتھ دکھاوے کی ہمدردی دکھائیں، ان کے وتیرے سے یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انہیں بڑے بڑے شہروں میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کاکوئی غم نہیں ۔ بایں ہمہ ننھی آصفہ کی یہ خوش نصیبی تھی کہ جب یہ المیہ پیش آیا اس وقت اسمبلی کا بجٹ سیشن رواں تھا ، ا س المیے نے اپوزیشن کو حکمران پارٹی کو آڑے ہاتھوں لینے کا بہانہ دیا ۔ حکومت نے حسب عادت اس درد ناک کہانی کو گول کرنا چاہاتھا ، اس کی زندہ مثال یہ ہے کہ جموں میں آصفہ کے لئے انصاف مانگ رہے بر سراحتجاج گجر بکروالوں کی حوصلہ شکنی کے لئے احتجاج منظم کر نے والے جواں سال وکیل طالب حسین کوگرفتار کیا گیا اور اُن پر انصاف مانگنے کی پاداش میں پبلک سیفٹی ایکٹ کا نفاذ بس نافذہو ا ہی چاہتا تھا مگر متحدہ مزاحمتی قیادت اور کشمیر کے ا سمبلی ممبران نے حکومت کی ناک میں دم کئے رکھا کہ نہ صرف طالب حسین کو رہا کیا گیا بلکہ حالات کو بھانپ کر آصفہ کی فائل کو کرائم برانچ کے سپرد کرنے کے سوا حکومت کے پاس کوئی چارہ نہ رہا۔
اس میں دورائے نہیں کہ این سی نے چاہے اپنا سیاسی پوائنٹ اسکور کر نے کی نیت سے کھٹوعہ کیس کو اسمبلی میں اٹھانے میں کافی گرم جوشی دکھائی یا اس کا ضمیر جاگ گیا تھا، بہر کیف اس سے ۲۰۱۶ء سے بڑی تیزی سے تواتر کے ساتھ اپنی سیاسی ساکھ کھورہی پی ڈی پی کا ناطقہ ضرور بندہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ این سی کا اُنگلی کٹاکر شہیدوں کی صف میں کھڑا ہونے کے رقص نیم بسمل سے اس کے چہرے سے وہ داغ کسی حال میں دُھل نہیںسکتاجو شوپیان کی نیلو فر اور آسیہ کے دلدوز و خونین المیہ کے پس منظر میں اس کے انتہائی منفی کردار کے توسط سے اس پر لگا۔
عمر عبداللہ کے دور حکومت میں نیلوفر اور آسیہ کا ریپ اور قتل بھی اسی سنگ کے ساتھ ہوا تھا جیسے آج آصفہ کے ساتھ ہو ا، اگر چہ کردار اور پلاٹ الگ الگ تھے۔ آسیہ اور نیلوفر کو بھی اجتماعی عصمت دری کے بعد انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا تھا۔ بعینہٖ کنن پوشہ پورہ کاالمیہ ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے ، شمالی کمشیر کے اس دور اُفتادہ گاؤں میں ایک سیاہ رات کو بے لگام اور بد مست فوجیوں نے درندوں کی طرح یہاں اجتماعی طور عصمتوں کی چیر پھاڑ کی۔ یہاں کی کم نصیب عفت مآب خواتین کو کسی نے اپنی بہن ، بیٹی یا ماں نہ کہا لیکن نیلوفر اور آسیہ کو سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے گلوگیر آواز میں پہلے اپنی بہنیں کہا مگر بعد میں اپنی کرسی پرا ُس مقدس رشتے کو قربان کر کے سی بی آئی کی’’ تحقیقات ‘‘کے مطابق ملت کی ان حرماں نصیب بیٹیوں کو ’’دو انچ پانی ‘‘ میں حادثاتی طور ڈوب مر نے کا افسانہ سنا لیا ۔ بہ حیثیت چیف منسٹر ان کی اس لن ترا نی سے مر کز کی منشاء پوری ہوئی ا س لئے ان کے سر آئی بلا ٹل گئی ۔ آج غالباًاسی نقش ِراہ کی اتباع میں قانون کے باغی جموں کے وکلاء آصفہ کیس میں سی بی آئی کی’’ تحقیقات‘‘ کرانے کا مطالبہ کر رہے تھے کیونکہ یہ ایجنسی کیسی بھی ہو لیکن کشمیر کے معاملے میں پیشہ ورانہ کار کردگی کے بجائے ’’قومی مفاد ‘‘ کے حصار میںرہتی ہے اور سیاہ کو سفید اور دن کو رات قرار دینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتی بلکہ اس طرح کی’’ تحقیقات ‘‘ سے انعامات اور نوازشوں کی مستحق بن جاتی ہے۔
ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے جو بیانات آصفہ کیس کے سلسلے میں آرہے ہیں، اچھے اور جاندار ہیں ۔ وہ محبوبہ جی سے ایک سانس میں کہتے ہیں کہ اسمبلی کا اجلاس بلاکر جنسی زیادتی کے تعلق سے نئے سخت قوانین بنائیں اور دوسری سانس میں گل افشانی کر تے ہیں کہ پی ڈی پی سرکار عوام کے خلاف ہے ، مخلوط حکومت ہر محاذ پہ ناکام ہوچکی ہے ، اس لئے یہ فوراً مستعفی ہوجائے۔ ہم ان باتوں کے پیچھے خلوص کی بو باس اخذ کر لیتے لیکن افسوس کہ یہاں ہر حکومت میں خون رُلادینے والے ایسے ہی الم ناک واقعات تواتر کے ساتھ وقوع پذیر ہوتے رہے ہیں ، جنہیں وقت کے ہر چیف منسٹر اور اس کی منڈلی نے محبوبہ جی ہی کی طرح ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا ۔ مطلب صاف ہے کہ اپنے اقتدار کو دوام بخشتے رہو چاہے قوم کی نیا ڈو ب جائے ، عزتیں پامال ہوں ، عصمتیں لٹ جائیں، عفتیں داغ دارہوں ، جوان قبروںمیںاتر جائیں ، بستیاںںخاکستر ہو جائیں ، دفعہ ۳۷۰ کا بیڑہ غرق ہوجائے وغیرہ وغیرہ۔ کہانی ایک ہی رہی ہے کہ جب تک ان کے پاس اقتدار ہے یہ ہر قتل عام اور عصمت ریزی پر آنکھیں موند لینابہتر اور جب گردش ایام سے اقتدار کی کرسی چھن جائے تو قوم کے غم میں پوری اداکاری کے ساتھ آنسو بہا کر شہنشاہ ِ غم بن جاؤ ۔ آج این سی آصفہ کے تعلق سے مغموم وسوگوار عوام کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی ہے ، لیکن اگر آج ہی مرکز اپنا سیاسی پارٹنر بدل کر این سی کو کرسی دے تو یہی لوگ وہی کچھ کریں گے جو آج پی ڈی پی اندھا دھندکرکے بقول مفتی تصدق ’’کرائم پارٹنر‘‘ کا رول نبھار ہی ہے ۔ یا دکیجئے عمر عبداللہ نے خود اسمبلی کے ایوان میں اعلاناً بطور چیف منسٹر اعتراف کیا تھا کہ ہم دلی کے ڈیلی ویجر ہیں ۔ اصل میں ان کی یہی حیثیت ہے، یہی لوگ ہم پر ظلم عظیم ڈھاتے ہیں اور مر کز کی جی حضوری میں آصفاؤں ، آسیاؤں اور نیلوفروں کو اپنے اقتدار کے بھینٹ چڑھا دیتے ہیں ۔ بات اس نکتے پر آکر رک جاتی ہے کہ ’’ یہ لوگ ظلم و جبر کی کلہاڑی کے دستے ‘‘ ہیں جو ہماری چیر پھاڑ میں پچھلے ستر برسوں سے مسلسل مصروف ہیں ۔
تاریخ کشمیر اس بات کی شاہد عادل ہے کہ بھارت کے ساتھ جموں و کشمیرکے الحاق میں مرحوم شیخ محمد عبداللہ کا کلیدی رول تھا مگر سادہ لوح عوام کو اپنے عزائم کے بارے میں ہمیشہ بے خبر رکھا بلکہ مذہب کا چولہ پہن کر قوم کی سوچوں اور اُڑان کو ہمیشہ ہمیش یرغمال بنادیا۔ یہی ان کی سیاسی زندگی کا نچوڑ کہلاسکتا ہے ۔ فاروق عبداللہ کی ساری زندگی اسی سکول ،کالج اور یونیورسٹی کی شاگردی میں گذری ۔اس کا نصاب یہ ہے کہ کشمیری کو چور اُچکا ہونے کی گالی بھی دی جاسکتی ہے ،ٹاسک فورس کو کھلا چھوڑدیاجاسکتا ہے، ملی ٹینٹوں کو گولیاں مارکر جیل خالی کرانے کی صلاح دی جاسکتی ہے ،’’آزاد کشمیر ‘‘ پر قبضہ کرنے کا الٹی میٹم دیا جاسکتا ہے، پاکستان پر بم برسایئے جیسے ڈائیلاگ بولے جاسکتے ہیں ۔ عمر عبداللہ اسی سیاست کے وارث ہیں ۔ا نہوں نے۲۰۱۰ء کی رگڑو تحریک میں کشمیریوں کے قتل عام سے مرکزی حکومت کے ساتھ اپنی موروثی دوستی اور وفاشعاری کا حق ادا کیا ۔ اس دوغلے پن سے اُکتائے عوام کو این سی کے متبادل کی تلاش ہوئی تو مفتی مرحوم نے اپنی پارٹی پی ڈی پی کو وجود بخشا ، ہیلنگ ٹچ ، باعزت امن ، گولی نہیں بولی جیسے نظر فریب نعروں میں بظاہر عوام کو این سی کا متبادل نظر آیا ،خاص کرجنوبی کشمیر نے پی ڈی پی کو اقتدار تک پہنچایا مگر آج نہ صرف جنوبی کشمیر بلکہ مجموعی طور پر سارا وطن’’کلنگ ٹچ‘‘ سے لہو لہاں ہورہا ہے ۔مفتی محمد سعید نے بی جے پی کو روکنے کے نام پر ووٹ مانگا مگر پھر اس پارٹی کے ساتھ مل کر ’’ ا یجنڈاآف الائنس ‘‘ کے عنوان سے لفظوں کی جادوگری کر کے کرسی کو گلے لگا لیا ۔ کیاہمارے جملہ وزرائے اعلیٰ میں ایک بھی مثال چندرا بابو نائیڈو کی ملتی ہے جنہوں نے مر کز سے اپنی ریاست کے مفاد میں پنگا لیا ؟اس کے برعکس لگتا ہے کہ محبوبہ جی کو چیف منسٹر برقرار رکھ کر بی جے پی ان پر گویا ایک احسانِ عظیم کر رہی ہے ، جب کہ بی جے پی کو خوش رکھنے کے لئے محبوبہ جی بذات خود جموں میں مہاراجہ ہری سنگھ سے منسوب پارک کا افتتاح کر تی ہے اور اُن کے قدآدم مجسمے کی پرچم کشائی کر تی ہیں۔ خدا را بتایئے اب محبوبہ جی ۱۳؍ جولائی کو شہر خاص سری نگر میں مزار شہداء پر جاکر ۱۹۳۱ء کے شہیدوں پر گل باریاں بھی کریں گی ، یہ کیسا تضاد ہے؟ جس مہاراجہ نے ان شہیدوں کو درجہ ٔ شہادت پر پہنچا دیا، اس کے نام سے پارک کا افتتاح بھی وزیراعلیٰ کریں اور جو کشمیری مہاراجہ کی ہدایت پر شہید کئے گئے،ا ن کی قبروں پر یہی صاحبہ گل باری بھی کریں ؟ ایسے میں ہم کیا امید کریں کہ کھٹوعہ کیس جیسے اندوہناک واقعات میں انسانیت کا گلا آئندہ نہ دبا یاجائے ؟ کڑوا سچ یہ ہے کہ یہاںوہی حکومت مر کز کی چہیتی بنتی ہے جو شروع دن سے مسلم آبادی کے قتل وخوں پر ’’صبر و برادشت‘‘ کی نیند آورگولیاں کھائے ، جوسوئلین آبادی پرفوجی یلغاروںکی وکالت میں پیش پیش رہے ، جوانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا کوئی نوٹس نہ لے، جوتہذیبی جارحیت کا خندہ پیشانی سے استقبال کرے ، جوکشمیر کوعملاً پولیس سٹیٹ ہونے پر اُف تک نہ کرے ، جونالی سڑک پانی بجلی تک محدود رہے، اورجب ضرورت پڑے تو دلی کا کشمیر کاز دیارغیر میں بلا تامل پلیڈ کرے ، جو آئین کشمیر کے روح کو پامال کرے ، ہزاروں نوجوان کو کال کوٹھریوں میں سڑائے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان اغراض ومقاصد کی آبیاری کرنا روزاول سے اقتداری پارٹیوں کا نصب العین رہاہے۔ ہاں ٹریڈ مارک میں اُنیس بیس کا ہیر پھیر ہونے کے باجود سیاسی مسائل ، پسند و ناپسنداور ترجیحات میں پی ڈی پی اور این سی میں یکسانیت وموافقت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ آج آصفہ کے لئے لوگوں کی جانب سے انصاف کا مطالبہ ہورہاہے جیسے آسیہ اور نیلوفر کے وقت یہ عوامی مانگ سر فہرست تھی، این سی نے وعدہ دیا کہ رَتی بھرناانصافی برداشت نہ کی جائے گی مگرپھر یہی یقین دہانی ایک واہمہ بن کر رہ گئیں اور ہمالیائی ناانصافی کو ہضم کیا گیا۔ اس لئے پی ڈی پی سے یہ گمان رکھنا کہ یہ اپنے’’ کرائم پارٹنر‘‘ کے خلاف ایک انچ بھی آصفہ کے بارے میں ادھر اُدھر ہلے ایک خوش فہمی کے سوا کچھ اور نہیں ۔ بہر صورت تنہائی میں یہ سوال بھارت نوازپارٹیوں خصو صاً عمر عبداللہ اورمحبوبہ جی کو اپنے آپ سے ضرور کرنا چاہئے کہ بھارت کے لئے اپنی شاندار خدمات اور وفاداری کا صلہ انہیں جو بھی ملے کیا وہ ایک آصفہ، ایک آسیہ، ایک نیلوفر یا ایک واحد کشمیری نوجوان کے پاک خون کی دیت کے برا بر ہوسکتی ہے؟ خاص کرو زیر سیاحت تصدق مفتی صاحب کو بھی اپنے آپ سے یہ لازماً یہ دو سوال پوچھنا چاہئے کہ ایک بار حق بیانی کر نے کے بعد وہ ا سی سسٹم سے چمٹے رہ کر کہیں آصفہ کا کی روح کا قتل تو نہیں کر رہے ہیں ؟ کہیں مزید چند ماہ تک رہنے والی کرسی کے لئے ساری قوم کو ظلم و جبر کی سیاہ رات کا یرغمال بنانا اور آر ایس ایس کے مقتل میں تن تنہا چھوڑنے کا عمل اُن کے لئے گھاٹے کا سواد تو نہیں ؟ اگر جواب اثبات میں ملا تو آصفہ کی بے چین روح کی قسم کھاکر اس جنجال سے الگ ہوجایئے اورا سی ہیلنگ ٹچ اور باعزت امن کے لئے ٹھوس اور نتیجہ خیز کام کیجئے جو اس وقت اہل کشمیر کے لئے ایک ڈراؤنا خواب یا جاگتے کا سپنا بنے ہوئے ہیں۔
9419514537