اس دور پُر آشوب میں جب انسانوں کی یہ دنیاخود انسانوں کیلئے جہنم سے زیادہ تکلیف دہ بن چکی ہے ۔جب ہر طرف قتل و غارت گری ، حیوانیت ، جہالت، بربریت اور فساد ہے اوراُس ہیبت ناک وقت کے سارے آثار نظر آرہے ہی جب آسماں ٹوٹ پڑے گا ، زمین پھٹ جائے گی اور پہاڑ روئی کے گالو ں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکراجائیں گے یہ عالم انسانی کا آخری دن ہوگا ۔اس دن کی دہلیز پرکھڑی اس دنیا میں انسان کی ہر درندگی اور ہر بربریت پر وہ وحدت الوجود خاموش رہتا ہے جس نے اس کائینات اور اس میں موجودہر شئے کو تحلیق کیا ہے ۔ نہ نوح کا طوفان آتا ہے نہ کوئی قوم غرق کردی جاتی ہے لیکن کبھی کبھی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ سوچنے اور سمجھنے والے لوگ کار ساز عالم کے غیبی ہاتھوں کی حرکت محسوس کرسکتے ہیں۔
کٹھوعہ میںمسلم گوجر قبیلے سے تعلق رکھنے والی آٹھ سال کی تتلی جیسی بچی یکم جنوری کو حسب معمول اپنے گھوڑے چرانے کے لئے ضلع کٹھوعہ کے رسانہ علاقے میں شام کے وقت موجود تھی لیکن جب رات کے سایوں نے رسانہ کو اپنی لپیٹ میں لیا اور وہ گھر نہیں پہونچی ۔وہ غائب ہوچکی تھی اوراسے ڈھونڈنے کی ہر کوشش ناکام ہورہی تھی ۔ مسلسل تلاش کی کوشش صرف اس کے قبیلے تک محدود تھی اور حیرت انگیز طور رسانہ کی مقامی آبادی میں چھوٹی سی معصوم بچی کے غائب ہونے کانہ کوئی غم تھااور نہ تلاش کا جوش ۔ پولیس بھی اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں متحرک نہیں تھی۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ بچی کہاں گئی اوراس کے ساتھ کیا ہوا سوائے انسانوں کو پیدا کرنے والے اس رب کے جو وہ سب باتیں جانتا ہے جو انسان چھپاتے ہیں۔ اسے معلوم تھا کہ اس کی معصوم تخلیق کے ساتھ کیا ہوا اوراس کا منصوبہ کچھ اور ہی تھا ۔ قریب تھا کہ معاملے کو یہ دلیل قبول کرکے دبا دیا جاتا کہ معصوم بچی کو کوئی خونخوار جانور ہڑپ کرگیا اس کی لاش جنگل میں ملی اور اس بات میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں رہی کہ اسے قتل کردیا گیا ہے ۔ پھر یہ لرزہ خیز بات سامنے آئی کہ آٹھ سال کی معصوم بچی کی آبرو ریزی بھی ہوئی ہے ۔اس کے باوجود بھی معاملے کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی تھی تاہم کشمیر میں عوامی ردعمل نے حکومت پر دباو پیدا کیا تو واقعہ کی تحقیقات کا کام کرائم برانچ کے سپرد کردیا گیا ۔ اس کے بعد ڈرامائی واقعات ہوئے۔ ابتدائی تحقیق کے بعد جو گرفتاریاں ہوئیں ان میں پولیس کی طرف سے تحقیقات کرنے میں سرگرم وہ ہلکاربھی شامل تھا جس نے اس معاملے میںمبینہ طور پر بہت ہی اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد معاملے کا ایک نیا رخ سامنے آیا ۔یووا ایکتا منچ کے نام سے ایک تنظیم نمودار ہوگئی جس نے کرائم برانچ کی تحقیقات پر سوال کھڑا کرتے ہوئے گرفتار شدہ ملزمان کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے تحقیقات سی بی آئی کے سپرد کرنے کا مطالبہ کیا ۔ یووا ایکتا منچ نے رسانا میں جلسے کئے اور بھرپور قوت کے ساتھ مظاہرے کئے یہاں تک کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو ممبران اسمبلی بھی ان جلسوں اور مظاہروں میں اس وقت شامل ہوئے جب مزید تحقیقات کے بعد ایک اور چونکا دینے والا انکشاف یہ ہوا تھا کہ آصفہ کو اغوا کرنے کے بعد مقامی مندر میں قید کیا گیا تھا اور اسے نشہ آور اشیاء کھلا کر بے ہوشی کے عالم میں رکھا گیا تھا اور بے ہوشی میں ہی اس کی بار بار آبرو ریزی مندر میں ہی ہوتی رہی ۔یہ وہ انکشاف تھا جو پوری ہندو آبادی پر لرزہ طاری کرنے کے لئے کافی تھا۔ جو لوگ عقیدت اورآستھا کے نام پر گائے کی رکشا کیلئے انسانوں کی ہڈیاں توڑتے ہیں انہوں نے بھی سنا کہ جس مندر میں بھگوان کی پوجا ہوتی ہے اس مقدس جگہ پر ایک آٹھ سالہ بچی کی آبرو لوٹی جارہی تھی اور اسے اسی جگہ قتل کردیا گیا لیکن نہ عقیدت کو ٹھیس پہونچی اور نہ ہی آستھا کے جذبات مجروح ہوئے ۔ ان لوگوں کے کانوں تک بھی بات پہونچی جو مریادا پرشوتم شری رام کا شاندار مندر تعمیر کرنے کاخواب لیکر جی رہے ہیں ان کے جذبوں میں بھی کوئی ہلچل نہیںہوئی ۔ رسنا کے مندر میں رام کی مورتی کے سامنے اسی کی دنیا کی پھول جیسی بچی مسلی گئی ۔رام بھی دیکھتا رہا اور اس کے چاہنے والوں کو بھی اس میں انسانیت کے اس علمبردار اوتار جس نے سوتیلی ماں کی خواہش پر چودہ سال کا بن باس کاٹا کی کوئی توہین نظر نہیں آئی ۔وہ برہمن جو مندر کے ناپاک ہونے کے خدشے کے پیش نظر دلتوں کو پوجا کے لئے دہلیز تک بھی آنے نہیں دیتے اور اگر کوئی غلطی سے دہلیز پار بھی کرگیا تو مندر کو کئی کئی بار دھولیا جاتا ہے تاکہ اس ناپاکی کا ازالہ ہو جو ایک نیچ ذات کے فرد کے مقدس مندر کی دہلیز تک پہونچنے سے ہوتی ہے کو ذرا بھی ٹھیس نہیں پہونچی ۔کیا آبرو ریزی سے مندر کا تقدس پامال نہیںہوتا ؟۔کیا یہ کوئی ایسا عمل ہے جس سے دھرم کی شان پر کوئی اثر نہیں پڑتا یا دھرم، آستھا اور عقیدت محض ایک رائج الوقت رویہ ہے ۔اپنی تہذیب پر ناز کرنے والا سوا کروڑ لوگوں کاملک ایک طرف اس سانحے پر خاموش تھااوردوسری طرف رسانا میں ہندو ایکتا منچ کے مظاہرے جاری تھے جن میں بی جے پی جو ریاست کی مخلوط سرکار کا حصہ ہے کے لیڈر شامل تھے ۔یہ مظاہرے گرفتارشدہ ملزموں کی رہائی کیلئے ہورہے تھے اور ان میں ملک کی حکمراں جماعت اور ریاست کی مخلوط سرکار میں شامل بی جے پی کے لیڈرپیش پیش تھے جو کرائم برانچ کی تحقیقات کو ہی مسترد کررہے تھے ۔حکومت پر زبردست دباو پیدا کیا گیا تھا لیکن وہ غیبی قوت بھی اپنا کام کررہی تھی جس کے لئے آصفہ بانو کی آبرو کا آبگینہ تار تار ہونے کا سانحہ قوم لوط کی بدکاریوںسے بھی زیادہ بڑا جرم تھا ۔ محبوبہ مفتی نے اس دباو سے نکلنے کافیصلہ کرلیا ۔تصدق مفتی کا انڈین ایکسپریس شائع انٹرویوبی جے پی کو کھلا چلینج تھا ۔قریب تھا کہ پی ڈی پی حکومت سے علیحدہ ہوتی نئی دہلی میں معاملے کی سنجیدگی کومحسوس کیا گیا اور وزیر اعظم نے خود مداخلت کرکے صورتحال کو بے قابو ہونے سے روکا ۔ انہوں نے خود محبوبہ مفتی سے فون پر بات کی اور بی جے پی کے ان وزراء جنہوں نے مظاہروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا مستعفی ہوگئے ۔اس اثناء میں وہ ہندوستان جو تین ماہ کی طویل مدت تک رسانہ سانحے سے لاتعلق تھا اچانک ایک سرے سے دوسرے سرے تک ابل پڑا ۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر آگئے ۔ہر ریاست میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ خفتہ نیند سے بیدار ہوگئے ۔ کیوں اورکیسے اس سوال کا کوئی جواب آج بھی کسی کے پاس نہیں ۔جب یہ واقعہ ہوا تب بھی لوگ جانتے تھے کہ کیاہوا ۔ تب کوئی ضمیر کیوں نہیں جاگا ۔ تین ماہ بعد واقعہ بہت پرانا ہوچکاتھا پھر کیسے دلوں کے تالے کھل گئے ۔کیا یہ اسی غیبی قوت کی کارسازی تھی جو تین ماہ تک سب کا امتحاں لے رہا تھا اور جب سب کے سب بے نقاب ہوگئے تو اس نے اس ہندوستان کوجگایا جو فرقہ پرستی اورہندوتا کے دباو میں خفتہ پڑا تھا ۔غیر فرقہ پرستانہ سوچ دفن ہوگئی تھی ۔ ہر طرف فرقہ پرستانہ سوچ کا ہی دور دورہ تھا لیکن معجزہ ہوا ایک نیا انقلاب برپا ہوا ۔ آصفہ نے ہندوستان کو فرقہ پرستی کیخلاف متحدہ کردیا ۔ جو ناممکن تھا وہی ممکن ہوا ۔ معصوم کا پاکیزہ خون رنگ لایا ۔وہ دونوں ممبران اسمبلی رسوا ہوگئے جنہوں نے ملزموں کے حق میں شو ر و غوغا بلند کیا تھا۔انہوں نے بیان بھی بدل دئیے تب بھی ان کے گناہ معاف نہیں کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے تمام وزراء مستعفی ہوگئے تاکہ کابینہ میں ردوبدل کرکے ان عناصر کو نکال باہر کیا جائے جو مخلوط حکومت کیلئے خطرات پیدا کرتے ہیں حالانکہ جن لوگوں نے مظاہروں کا اہتمام کیا اور ان میںشمولیت کی انہوں نے خود ایسا نہیں کیا ۔مستعفی شدہ ایک وزیر نے خود اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جو بھی کیا بی جے پی کے ریاستی صدر کی ایماء پر کیا ۔ پوری دنیا کے میڈیا میں اس واقعہ کے چرچے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اب اس معاملے میں بیک فٹ پر ہے ۔اپوزیشن ، میڈیا اور دانشور حلقہ اس کو آڑے ہاتھوں لے رہا ہے اور اس کے پاس دفاع کے لئے کوئی موثر دلیل نہیں ہے ۔سب یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ آصفہ معاملے میں بات کرنے کیلئے وزیر اعظم کو تین مہینے کیوں لگے جب یہ معاملہ پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن چکا تھا ۔ آصفہ کے ساتھ جس طرح کی درندگی ہوئی ہے دنیا اس پر حیران ہے اور اس بات پر بھی حیران ہے کہ ایسے گھمبیر واقعے میں بھی تحقیقاتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں ۔اس واقعہ کے بعد اناو میں ایک کمسن لڑکی کی آبرو ریزی اور قتل کا جو واقعہ رونما ہوا اس میں بھی بی جے پی کا ایک سرکردہ لیڈر اورایم ایل اے شامل ہے ۔ اس واقعہ سے رسوائی میں اور زیادہ اضافہ ہوا ۔عجب نہیں کہ معصوم بچی کا خون بی جے پی کے لئے ایک ایسا دھچکہ ثابت ہو جس سے ابھرنا اس کے لئے آساں نہ ہو ۔یہی کار ساز عالم کا انصاف ہے ۔ وہ انسانی خون پر کامیابیوں کی سیڑھیاں طے کرنے والوں کو موقع تو دیتا ہے لیکن جب وقت آجاتا ہے تو ایسی سزا بھی دیتا ہے جس سے وہ ذلیل و خوار ہوا کرتے ہیں۔اس المناک سانحے میں اب بھی سیاست ہورہی ہے ۔ اوراب کئی ایسی قوتیں بھی اس میں ٹانگ اڑاچکی ہیں جو کم سن بچی کو انصاف دلانے کے نام پر تجارت کررہی ہیں ۔چندے بھی اکٹھے کئے جارہے ہیں اور طرح طرح کے نعرے بھی دئیے ایجاد کئے جارہے ہیں ۔آنے والے دنوں میں کیا کچھ ہونے والا ہے کوئی نہیں جانتا لیکن ایک بات طے ہے کہ بچی کے قاتل جو بھی ہوں بدترین انجام تک پہونچ جائیں گے ۔ اور ان تمام قوتوں اور لوگوں کو بھی بھاری قیمت چکانی پڑے گی جو اس انسانی المیے کو اپنے سیاسی اور ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرتے ہوئے فرقہ پرستی کو ہوا دے رہے تھے ۔
( ماخذ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر)