ریاست جموں وکشمیر کے ضلع کٹھوعہ رسانہ گاؤں کی گجر بکروال برادری سے تعلق رکھنے والی آٹھ سالہ معصوم بچی آصفہ کی اجتماعی عصمت دری پر پوری انسانیت شرمسار ہے لیکن اس کے بین بین اہم بات یہ ہے کہ بھارت میں عصمت دریوں کا سلسلہ رُکنے کی بجائے بڑھتا ہی جارہا ہے اور لگتا ہے کہ بلا ت کاری بھارتیہ جنتا پارٹی کا کلچر بنتی جارہی ہے۔ اب تک سورت میں ایک، ایتا میں دو ایسے الم انگیز وارداتیں ہوئی ہیں جن سے پوری قوم کا ضمیر تلملا اٹھاہے۔ یہ ایک عجیب سوئے اتفاق ہے کہ جو مودی سرکار قوم کو’’ اچھے دن‘‘ کی نوید سناریہی تھی ،وہ اب کم سن بچیوں کے ساتھ زبا بالجبر اور قتل کے دردناک واقعات کے سبب ملک وقوم کا سر نیچا ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی بے دست وپا نظر آرہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چار پرس میں عصمت دریوں کے شرم ناک واقعات میں روز اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ نابالغ بچیوں کی ساتھ آبروریزی کے واقعات بکثرت رونما ہونے لگے ہیں۔ کھٹوعہ قتل اور جنسی زیادتی کے ناقابل بیان المیے نے ہمیں نربھیا ( دلی کی دامنی ) کے جگر پاش واقعہ کی یادتازہ کرادی ہے ، اگرچہ آصفہ کامعاملہ نربھیا سے بھی کہیں زیادہ سنگین ہے ۔نربھیا کے لئے پورا ہندوستان غم اور غصے کی حالت میں کھڑا ہوگیا مگر آصفہ پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے لے کر دنیا کی دوسری اہم شخصیات کے دل پسیج گئے ہیں اور ہم روز بروز اس المیہ پر ان کے بیانات دیکھ کرایک طرح سے یہ تاثر پاتے ہیں کہ انسانیت گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھی زندہ ہے ۔ عصری تاریخ میںیہ الم ناک واقعہ شاید اپنی نوعیت کا المیہ ہے جس پر مظلوم بچی کے ساتھ ہمدردی کا اظہار بھی ہورہاہے اور ظالموں کو پھانسی دینے کا مطالبہ بھی زور پکڑتاجارہاہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ تین ماہ قبل وقوع پذیر اس ناقابل معافی جرم کا ماسٹر مائنڈ کوئی اوباش نوجوان نہیں نکلا بلکہ مقامی مندر’’ دیوی ستھان‘‘ کا تحویل دار نکلا جو ایک ریٹائرڈ افسر مال ہے ۔ کرائم برانچ جارج شیٹ کے مطابق اس نے یہ سازش کٹھوعہ کے گوجر بکروال آبادی کووہاں سے خوف کی حالت میں روہنگیا مسلمانوں کی طرح فرار ہوجانے کے لئے رچائی تھی۔ سنجی رام نے اس دل دہلانے والی واردات کو انجام دینے کے لیے دیوی ستھان نام کے مندر کو چنا ۔اپنے ابلیسی پلان میں اس نے نابالغ بھتیجے اور بیٹے سمیت چھ اور لوگوں کو بھی شامل کیا۔ چناں چہ منصوبہ بند طریقے سے جنگل سے اس معصوم بچی کواغواء کرنے کے بعد ہائی ڈوز نشیلی دوا ئی پلادی گئی تاکہ وہ چیخ وپکارنہ کر سکے۔ اس کے بعد معصوم بچی کو مندر میں لاکر کئی بار اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ان آٹھ درندوں میں دوپولیس والے بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی ہوس کی پیاس بجھانے کے لئے بچی کے ساتھ گھناؤنی حرکت انجام دی اورپھر پتھر مارمار کر اسے ماردیا ۔ اغواء ہونے کے سات دن بعد بچی کی لاش مقامی جنگل میں ملی۔ مقام شکر ہے کہ ملزمان کو فوراً پکڑ لیا گیا لیکن تھانے کے پولیس تفتیش کار نے لاکھوں کی رشوت لے کر بچی کے وہ کپڑے دھو ڈالے جو اس جرم کا راز فورنسک لیبارٹری میں کھول سکتے تھے ۔ حد توتب ہوگئی جب ہندو توا عناصر نے ملزمان کو بچانے کے لئے’’ ہندو ایکتا منچ‘‘ کا قیام عمل میں لایا اور منچ کے جھنڈے تلے ترنگا لئے پہلے یہ مطالبہ کیا کہ ملزموں کو رہائی دی جائے ، پھر معاملہ کرائم برانچ کے بجائے سی بی آئی کو انکوائری کو سونپ دینے کی مانگ کی۔ بچی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری ، پولیس اہلکاروں پر سنگین جرم میں شرکت کا الزام ، متعلقہ تھانے کے پولیس تفتیش کار پر مجرموں کی نشاندہی کر نے والے ثبوت وشواہد مٹانے کا الزام اور اب ہندو ایکتا منچ کا سنگھرش، اس سے ظاہر ہوا کہ ہمارے یہاں کے سیاست کار کس قدر انسانیت پامال کر نر تلے ہوئے ہیں ، قانون کی حکمرانی کتنا بڑا جھوٹ ہے ، مظلوم کی دادرسی کتنی ناممکن بات ہے ، کیسے کیسے ظالم کی سرکوبی میں روڑے نہیں بلکہ ہمالیہ جیسی چٹانیں حائل کی جاسکتی ہیں ۔ بہر حال گھمبیر معاملہ نے اس وقت ایک نیا رُخ اختیار کرلیا جب کالے کوٹ پہنے ہوئے ہندوتوا وکیلوں نے کرائم برانچ کو مجاز عدالت کے سامنے اپنی تفتیشی رپورٹ یا چالان پیش کر نے میں رُکاوٹیں ڈالیں ،اس لئے نہیں کہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں بلکہ اس غرض سے کہ انصاف کی راہ ہی کھوٹی ہوجائے اور ملزمان اپنے کئے کی سزا بھگتنے سے بچ جائیں۔ اس کے باوجود کرائم برانچ نے اس دلدوز المیہ کی جو داستان منظر عام پر لائی اُس سے پتہ چلتا ہے کہ ملزم قتل اور جنسی زیادتی کی اس منظم سازش کو کتنی کھٹورتا سے عملاتے رہے لیکن جب سرکاری طور ان کی پول کھل گئی تو نہ صرف مقتول کی بے بسی کا خلاصہ ہو ابلکہ قاتل اور مقتل کا سارا منظر آنکھوں کے سامنے آگیا ۔ اس کے علاوہ بھاجپا راج نیتی کی ا صلیت بھی سامنے آگئی اور’’ ہندوایکتا منچ‘‘ کاسی بی آئی کو کیس سونپ دینے پر اصرار کے پیچھے حقیقی عزائم کی گرہ کشائی بھی ہوئی۔ انسان دشمن عناصر کی گراوٹ کا حال یہ ہے کہ انہوں نے معصوم مقتولہ کو اپنے گاؤں میں دفنانے کی اجازت نہ دی مبادا کہ وہاں مسلمانوں کا قبرستان بن جائے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ان لوگوں نے کھلم کھلا مقتولہ کی پیروی کر نے والی کشمیری پنڈت خاتون وکیل دیپکا کو جان کی دھمکیاں دیں اور انہیں اتناہراسان وپریشان کیا کہ گھٹن محسوس کر رہی ہیں۔یہ وکیل صاحبہ کے غیر متزلزل عزم کا اظہار ہی ہے کہ وہ بر سر بازار کہتی ہیں کہ معصومہ کو انصاف دلانا میراکام ہے ،مجھے دھمکیاں مل رہی ہیں کہ یہ کیس نہ لڑوں لیکن میں کسی سے ڈرنے والی نہیں، میں آصفہ کو انصاف ضرور دلاؤں گی۔ غرض کہ بیٹی سورت ، ایٹایا اُناو اُتر پردیش کی ہو یا کٹھوعہ کی، عزت ریزی کے مجرموں کو سز ا عبرت ناک ضرورملنی چاہیے باوجودیکہ ان کے پس پشت حکمران پارٹی یا اکسی اور جماعت کی سیاسی قوت وحمایت کا رفرما ہو ۔ ۔ مذہب کی بنیا د پر بی جے پی کے دو مستعفی شدہ وزراء ، ممبران اسمبلی اور نچلی سطح کے کارکن آج بھی کے ذریعے ریپ کلچر کو فروغ دینے والے آدم خوروں کے ساتھ کھڑے ہیں اور یہ لوگ بے تکلفی سے کہہ رہے ہیں کہ اچھا ہوا آصفہ مرگئی ورنہ بڑی ہوکردہشت گردبنتی۔ البتہ ملک کی سول سوسائٹی اور سلیم العقل ہندو برادری اس حیوانی کلچر کو بہ یک بینی ودوگوش مسترد کرر ہی ہے ۔ بلاشبہ ۲۰۱۲ء کی زمستانی ہواؤں کے جھونکوں اور سردراتوں میں دہلی کی سڑکیں جام کرنے والے وہ باضمیر نوجوان ابھی تک بڑی تعداد میں باہر سڑکوں پر نہیںنکلے ہیں مگرپورا ملک اس امر کا بے تابی سے منتظر ہے کہ اس کیس پر اب عدلیہ کیا کر تاہے ۔ افسوس اور تعجب اس بات پر ہے کہ بھاجپا کے مستعفی شدہ دووزراء نے جب وزارت کا عہدہ سنبھالا تھا تو اُس ملکی آئین کی وفاداری کا حلف لیا تھا جس میں عورت ذات کو بلا تمیز مذہب وملت ،ذات ونسل اور سکونت ایمپاور کیا گیا ہے ۔ ا س حلف وفاداری کاتقاضا تھا کہ یہ آصفہ کے قاتلوں کا دفاع نہیں کر تے بلکہ ان کے ظالمانہ اقدام پر پھانسی کی سزا دلانے کی پوری قوت کے ساتھ وکالت کر تے لیکن لال سنگھ اور پرکاش گنگا جیسے لیڈران پر کہ انہوں نے جنسی زیادتی اور قتل عمدمیں ملوث ملزمان کے حق میں احتجاج کرکے ایسی بازاری سیاسی کا ثبوت دیا کہ جس پر سب جموں باسی انگشت بدنداں ہوئے ۔اس سے ریاستی حکومت پربدنامی کا داغ لگ گیا ۔ لال سنگھ اور پرکاش گنگا کو ایساکر کے اپنے دھرم کا کیا بھلا کیا، یہ وہیں جانیں۔ البتہ انہوں نے کسی لحاظ سے قوم اور سماج کے لئے کوئی اچھی مثال نہ چھوڑی ۔ اسی طرح جموں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکلاء کا رول بھی کھٹوعہ کیس میںانتہائی غیر منصفانہ اور بھدّا رہا ۔ غور کریں تو پتہ چلے گا کہ ہم سب لوگوں کو بھی کسی ماں نے ہی جنم دیا ، ہماری بھی بہنیں اور بچیاں ہیں ، اللہ نہ کرے اگران میں سے کسی کا آصفہ جیسا حشر ہو تو ہمارا کیا ردعمل ہوگا ؟ ہماری ریاست کی یہ صحت مندپہچان ہے کہ یہاں ہندومسلم سکھ عیسائی بھائی بھائی کے طرح صدیوں سے رہ رہے ہیں۔ یہاں فرقہ وارانہ دنگے فساد جب بھی ہوئے تو یہ غلط کار عناصر کی کارستانی تھی ، عام لوگ ان منفی چیزوں سے کنارہ کش رہے ۔ ا س بار ہمارری اجتماعی تاریخ میں یہ پہلی بار دیکھا گیا کہ حکومتی منصبوں پر براجما ں بعض عقل کے اندھے زانیوں، ظالموں اور قاتلوں کا کھل کر دفاع کرنے پر اُتر آئے۔ یہ اس بات کا عندیہ ہے کہ ان لوگوں کو کرسی پیاری ہے ،ان کو انسانیت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ دوسری طرف حکمران نہ سہی مگر ریاستی اور ملکی عوام دل سے چاہتے ہیں کہ تمام لوگ وطن کی بانہوں میں مل جل کر خوشی خوشی گزر بسر کریں، سکھ شانتی کا ماحول بنارہے ، کسی اقلیت کو کسی اکثریت کا ڈر اور خوف نہ ستائے بلکہ سب کی نگاہیں یکساں طور ملک وقوم کی ترقی اور خوش حالی پر مر کو زرہیں ۔اس سواد اعظم سے جدا ایک سیاسی وچار دھار ایسا بھی پایا جاتا ہے جو اپنے سیاسی مفاد کے پوجا پاٹ میں نفرت کا دھندا کر کے عذاب وعتاب کی آگ ہر جگہ پھیلاتے ہیں، بھلے ہی اس میں سب اپنے پرائے جل مریں ، تڑپیں ترسیں ، بھسم ہو جائیں۔ا س کے لئے انہیں بابری مسجد اور مظفر نگر سے آصفاؤں ، آسیاؤں اور نیلوفروں کو بھینٹ چڑھانا پڑتاہے ۔ کھٹوعہ انہی لوگوں کا کیا دھرا ہے اور بس ۔ یہ مجرمانہ عمل انسانیت سوز گناہوں کا ایک سر نامہ جس میں اس بار معصومہ آصفہ کی آہوں سسکیوں ہچکیوں اور اس ننھی کلی کی چیخوں نے ہمارے اجتماعی ضمیر کو تلپٹ کر کے رکھ دیا لیکن اگر ہم سب نے مذہب، عقیدہ اور ذات برادری سے اوپر اُٹھ کر خود اپنے دفاع کے لئے اتحاد اور اصول پسندی سے کام نہ لیا تو جو راکھشس آج آصفہ کو کھاگئے کل یہ آدم خور خدا نخواستہ کسی مناکشی ، میری اورببلی کور کو اچک سکتے ہیں ۔اس سے پہلے ایسی نحوست آمیز گھڑی آئے ہمیں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر اور دل جوڑ کر انسانیت کی بنیاد پر اپنی بچیوں اور بہنوں کی حفاظت کے لئے آگے آنا ہوگا ۔ نیز حکومت کو چاہیے کہ جلدازجلد کھٹوعہ کیس کے ملزمان کو عدالتی کارروائی کر کے کیفر کردار تک پہنچائے ۔ علاوہ ازیں کشمیر میں اس وقت جو کشمیر یوں کا قتل عام کیا جارہا ہے اور ارباب ِ اقتداراس مغالطے میں ہیں کہ کہ اس سے کشمیرمیں امن وامان کی فضا نمودار ہونے میں کامیاب ہوجائے گی ، یہ خام خیالی ہے۔ کشمیر میں قیام امن کا ایک ہی راستہ ہیاور وہ ہے متعلقہ فریقوں کے ساتھ بامعنی بات چیت اور منصفانہ حل ۔ دعا ہے کہ خدائے تعالیٰ ریاست سمیت پوری انسانیت پر اپنا فضل نازل فرمائے۔ آمین
رابطہ نمبر 9596664228،E-mail.- [email protected]