کپوارہ//ریاستی کابینہ کی جانب سے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کی سزائے موت کا آرڈیننس منظور کئے جانے کا خیر مقدم کرتے ہوئے عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ اور ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے اسے دیر سے اٹھایا گیاصحیح قدم قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ ایسا قانون تابندہ غنی کیس کے وقت ہی بنایا گیا ہونا چاہیئے تھا۔آج یہاں مختلف مقامات پر لوگوں کے ساتھ تبادلۂ خیال کے دوران انجینئر رشید نے کہا کہ ’’یہ زیادہ مناسب رہا ہوتا کہ اگر تابندہ غنی کیس کے سامنے آتے ہی اس طرح کا قانون بنایا اور نافذ کیا گیا ہوتالیکن افسوس ہے کہ سرکار تب ہی بیدار ہوجاتی ہے کہ جب کوئی گھناونا جرم ہوتا ہے یا کوئی ایسا حادثہ پیش آتا ہے کہ جسے ،بصورت دیگر،احتیاطی تدابیر سے ٹالا جانا ممکن ہو۔اکثر یہ ہوتا ہے کہ ریاستی سرکار نئی دلی کی تقلید کرتی ہے جیسا کہ ابھی تک کا ٹریک ریکارڈ ثابت کرتا ہے کہ ریاستی سرکار نے پہل کرکے ابھی تک ایک بھی اہم آرڈیننس لایا ہے اور نہ کوئی قانون منظور کیا ہے بلکہ حساس معاملات کو لیکر نئی دلی کے اشاروں کا انتظار کیا جاتا رہا ہے‘‘۔البتہ انہوں نے کہا کہ اب جبکہ سرکار نے آرڈیننس منظور کر ہی لیا ہے ضرورت موجودہ یا نئے بنائے جانے والے قوانین کو زمینی سطح پر نافذ کرنے کی ہے اور تب ہی ان کا کوئی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح رشوت ستانی اور اور اقرباء پروری کے خلاف بھی سخت قوانین بنائے اور نافذ کئے جانے چاہیئے۔انہوں نے سرکار سے 2006کے فارسٹ رائٹس ایکٹ کے اطلاق کی اپیل کی اور کہا کہ حالانکہ ریاستی سرکار مرکز کے سبھی قوانین کو عملانے کی عجلت میں رہتی آرہی ہے لیکن حیران کن ہے کہ اسی مرکزی سرکار کے2006کے فارسٹ رائٹس ایکٹ،جس سے جنگلوں کے نزدیک رہنے والے خانہ بدوشوں کے مفادات کو تحفظ ملتا ہے، کو نافذ نہیں کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ریاستی سرکار کو فوری طور ایک قانون بناکر جنگلوں میں رہنے والے خانہ بدوشوں کو مرکزی سرکار کے فارسٹ رائٹس ایکٹ میں شامل سہولیات بہم پہنچانی چاہیئے۔انہوں نے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ایسا قانون اسمبلی میں منظور کرایا جانا چاہیئے یا پھر کابینہ میں ایک آرڈیننس پاس کرکے خانہ بدوشوں اور دیگر متعلقہ آبادی کو انکے حقوق دئے جانے چاہیئے۔