کشمیر مسلمانوں کی اخوت کا گلستان پارہ پارہ ہونے کے خدشات کو محسوس کر تے ہوئے حالیہ ایام میںبزرگ قائد سید علی گیلانی اورمیرواعظ مولوی محمد عمر فاروق نے وادی میں دشمن کی ریشہ دوانیوں سے ائمہ وعلماء سمیت عوام الناس کو مسلکی آگ بھڑکانے والوں سے چو کنا رہنے کی دردمندانہ اپیلیں کی ہیں ۔ مسلکی تعصب ایک ایسا مہلک مرض ہے جو انسان کو عقل و خرد سے دور گمراہی اور جہالت، اختلاف وانتشار کی وادیوں میں ڈھکیل دیتی ہے اور انا پرستی کا مارا انسان جہالت وکج عقلی کی بھٹی میں جل بھن کر اپنے ہی بھائی بند دوسروں کا درپئے آزار رہتاہے ۔ آج کی تاریخ میں ہمارے یہاں بعض مسلمانوں میں آپسی اختلاف اور کدورتوں کا سبب یہی مرضِ انانیت ہے ۔اس تعلق سے ہمارے محکوم ومظلوم کشمیرکا حال بعض لوگ یہ بنا ر ہے ہیں کہ یہاں اسلام کو قرآن وسنت کی روشنی کی بجائے مختلف جماعتوں اور مسلکوں کی عینک سے دیکھا جانا جانے لگا ہے اور مختلف جگہوں پر جماعتی عصبیت اورمسلکی تعصب کے یہ گھنائونے مناظردیکھنے کو ملتے ہیں کہ مساجد پر افتراقی بورڈ آویزان کردئے گئے ہیں جن میں’’وان المساجد للہ ‘‘کے بجائے ’’وان المساجدلمسلک‘‘رقم کر کے ملی ہکجہتی اوراخوت اسلامی کو سبوتاژکرکے رکھ دیاگیاہے۔ یہ لوگ باضابطہ طور ایک منظم سازش کے تحت مسلکی کشاکش سے کشمیرکی وحدت اسلامی کے وقار کو شدید چوٹ پہنچار ہے ہیں۔روشنی کے مینارکشمیرسے تعلق رکھنے والے اکابرین ِسلف پر بے جا تنقیدیںکی جاتی ہیں اورانہیں لاعلم گرداننے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی جاتی ۔ اس قبیح طرزعمل اور اس جماعتی اورمسلکی تعصب اور عدم رواداری کی وجہ سے نہ صرف مسلمانوں کے غیر مذہبی اور غیر مسلموں میں بھی اسلام اور مسلمانوں کی غلط تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے کہ جب یہ لوگ اپنے لوگوں کو برداشت کرنے کو تیار نہیں تو دوسروں کے ساتھ انصاف، مروت اور رواداری سے کیسے کام لے سکتے ہیں۔ یہ امت کے انتشار ہی کا پھل ہے کہ کشمیر،فلسطین ، اراکان،شام ،افغانستان دشمنوں کے لئے نرم نوالہ بنے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے گھر تباہ ہورہے ہیں اور ہر روز ان پر بموں کی بارش ہورہی ہے، عصمتیں لوٹی جارہی ہیں، عورتیں بیوہ بچے یتیم ہورہے ہیں، نوجوانوں کی لاشیں سڑکوں پر بے غورکفن پڑی ہیں۔
ملی اتحاد ایک ناگزیر دینی ضرورت ہے اس کے بغیر نہ دین کا مکمل اتباع ممکن ہے نہ اس کے تحفظ و بقا کو چیلنج کرنے والے بیرونی اثرات و خطرات کا دفاع ہی کامیاب ہوسکتا ہے۔ کشمیرکے حالات کے پیش نظریہاں ملی اتحادکی کئی گناضرورت ہے ،کشمیرمیں رونما ہونے والے حالات کی سنگینی و شدت نے اسے ایسی اہم ترین ضرورت بنا دیا کہ اس کی تکمیل میں مزید تاخیر ہوئی تونائوڈوب جائے گی ۔خارجی سازشوں کے ذریعے قرطبہ اور غرناطہ سے اسلام کے انخلاء کی جو مہم شروع کی گئی تھی وہ برما،عراق ،افغانستان ،شیشان، کشمیر،فلسطین ا ور شام تک اپنی منزل کی تعیین کا واضح اشارہ دے چکی ہے،جب کہ داخلی سطح پر نافہم مسلمان باہم دگرہوکرخارجی سازشیوں کانشانہ بن چکے ہیں۔ امت میں انتشار وافتراق کی ناگفتہ صورت حال پیداکرکے اسلام کی شوکت و سطوت کی فصیل سے اینٹیں گرائی جارہی ہیں،اسلام دشمن قوتوںکے حاشیہ بردارفہم دین سے سراسرروگردانی کررہے ہیں۔ اگرچہ سیدمودودی اورحسن البناء جیسے مستند اسلامی مفکرین نے اس مہلک مرض کا ادراک بہت پہلے سے کرلیا تھا اور اس سے ملت کو آگاہ بھی کردیا تھا لیکن طویل عرصہ تک حکمرانی اور عالمی غلبہ و استیلا کی لذت بے خودی نے عوام اور حکمرانوں کو متنبہ ہونے سے باز رکھا ۔ اب چونکہ ہر بات طشت ازبام ہوچکی ہے اس لئے افسو س اس بات کاہے کہ خود فریبی کا خمار کافور ہورہا ہے نہ ہی اجتماعی طور اتحاد و اتفاق کی ضرورت و اہمیت پر سنجیدگی سے غور و فکر کیا جارہا ہے ۔جماعتی عصبیت اور مسلک پرستی کے باعث نہ جانے کون کون سی بیماریاں ابھر پڑی ہیں جوملت ، اتحادامت، محبت اور اخوت کے راستے میں رکاوٹ بن کر عناد ودشمنی تک پہنچانے میں زوداثر کام کرتی ہیں۔ آج ملت کے اندر جتنے اختلافات رونما ہیں ان تمام کا بھی یہی حال ہے ، بجائے اس کے کہ شرعی اسلوب میں اس کے خاتمے کی کوششیں کی جائیں اسے مزید بڑھاوا دیا جاتا ہے اور طرح طرح کے لوگ اس میں ایندھن کا کام کرتے ہیں۔ چنانچہ اختلافات کو کم کرنے کے بجائے مسلک ومشرب کا ایندھن جھونکا جاتا ہے اور پھر اختلاف کی آگ بجھنے کے بجائے شعلہ زن ہوجاتی ہے۔ترجمہ!اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دل جوڑ دئے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے تم لوگ آگ سے بھرے ہوئے ایک گڈھے کے کنارے کھڑے تھے۔ اللہ نے تم کو اس میں گرنے سے بچا لیا۔ اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے سامنے روشن کرتا ہے۔ شاید کہ ان علامتوں سے تمہیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آجائے۔
یہ دراصل اتحاد کی دعوت ہے جو ہمارے رب نے اہل ایمان کو دی ہے جو اس کتاب ہدایت پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ ہمیں تقوی ٰاختیار کرنے کا حکم دیتا ہے اور ہم سے پورے خلوص کے ساتھ اطاعت و خود سپردگی کا مطالبہ کرتا ہے۔ دین پر مضبوطی سے قائم رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ زندگی کے تمام معاملات کو اس کی مرضی کے مطابق انجام دینے، اپنے تمام اختلافات کو ختم کردینے، ہاہم الفت و محبت کی فضا پروان چڑھانے اور ایک ساتھ مل کر جسد واحد کی طرح کام کرنے کا حکم دیتا ہے۔ جہاں تک بعض فروعی مسائل میں فقہی اختلاف کا تعلق ہے تو ان اختلاف کے کچھ علمی اسباب ہیں اور جن کے پس پردہ اللہ تعالی کی بہت بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں اور اسی حکمت بالغہ کے ذریعہ اس نے اپنے بندوں پر رحم فرمایا اور نصوص سے احکام کے استنباط کے دائرے کو وسعت دی ہے۔ پھر اس رحمت ووسعت کے ساتھ وہ فقہی و تشریعی اختلاف نعمت و ثروت بھی ہے جس سے ملت اسلامیہ کے لیے دین و شریعت پر عمل کا ایک وسیع میدان فراہم ہوتا ہے اور جس کی وجہ سے ایک شرعی و فقہی رائے پر انحصار کے لیے مجبور نہیں ہوتی، بلکہ امت کے لیے کسی خاص وقت یا کسی خاص مسئلہ میں کسی ایک فقیہ و مجتہد کے مسلک پر عمل کرنے میں تنگی پیدا ہورہی ہے تو عین اسی وقت دوسرے فقیہ کے مسلک میں سہولت نرمی اور وسعت کو شرعی دلائل کی روشنی میں موجود پائے گی خواہ یہ مسئلہ عبادات سے متعلق ہو یا معاملات سے یا خاندانی عدالتی اور تعزیری امور سے۔ اس لیے اس قسم کے مسلکی اور فقہی اختلاف نہ تو ہمارے دین سے متصادم ہیں اور نہ ہی دین میں کسی قسم کا عیب ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ دین میں اس طرح کے اجتہادی اور فروعی اختلافات نہ ہوں کیونکہ قرآن و سنت میں بہت سارے نصوص ایسے ہیں جو ایک سے زائد معانی ومفہوم پر دلالت کرتے ہیں۔ اسی طرح کسی ایک نص کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ دنیا میں ہر طرح کے حالات و زمانہ میں پیش آنے والے مسائل و مشکلات کا احاطہ کر سکے کیونکہ نصوص محدود ہیں اور حالات و مسائل لا محدود جیسا کہ علما ء کی ایک جماعت کاقول ہے۔
بہرکیف کشمیر کی میرواعظ خاندان کویہ شرف حاصل رہاہے کہ دینی اختلاف کوپاٹنے کے حوالے سے ان کی مخلصانہ دعوت کو ہمیشہ قبولیت عامہ حاصل رہی۔اس لئے آج بھی یہ واحد پلیٹ فارم ہے کہ جس پربغیرچوں وچراںسب حضرات اکٹھے بیٹھ سکتے ہیںاوریہیں سے باہمی صلح و اخوت اور ملی اتحاد کے لیے تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔تمام مکاتیب فکرکے اکابرین کواس پلیٹ فارم پرجمع کرکے کشمیرکازیہاں روزانہ اٹھتے جنازوں،سامنے نظرپڑنے پرتاحدنظرقبرستانوں،بے نام ونامعلوم قبروں،بیوائووں ،نیم بیوائووں اوریتامیٰ کی اگی ایک بڑی فصل کے تئیں ملّی ذمہ داریاں اور فرائض کا ادراک کر نا خطۂ مینو نظیرمیں رہنے والے ہر باشعور شہری پر لازم کرتا ہے کہ ہم میں اتحاد و اتفاق کی اہمیت،ضرورت سے باخبر ہوں جہاں بھی ملی اتحادکوزک پہنچانے کی کوشش ہو، ہم ایک ہوکراس کوروکنے کا بندوبست کریں۔یہ چند قابل عمل باتیں ہیں جن پر اگر فرداًفرداً عام آدمی سے لے کر اعیان قوم تک عمل پیرا ہوجائیں تو اختلافات کا خاتمہ ممکن ہے اور ملت اسلامیہ کشمیر کا وقار پھر بحال ہوسکتا ہے اور ذہنی یکسوئی ، نظریاتی ہم آہنگی ، ایک دوسرے سے مہروماہ اور عزت ومحبت سے ہم ستر سال سے لٹکے پڑے سیاسی مسئلے کے منصفانہ حل کی ا مید کر جاسکتے ہیں ۔ آج اُمت میں جوبے جا اختلافات اور بے معنی شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں ،ان کا ایک بڑا سبب مسلمانوں کی جہالت و بے خبری ہے۔ شرعی تعلیم، دنیاوی تعلیم، ایک دوسرے کے مزاج اور طبیعتوں کو پرکھنے کا تجرباتی علم، قرآن وحدیث اور اسلاف امت سے وابستہ تاریخی حقائق کی تعلیم سے دوری مسلمانوں کے اندر عام ہے اور لاعلمی اور جہالت کے نتیجے میں شدید ترین اختلافات رونما ہوتے جارہے ہیں۔ علما ء کے طبقے سے لے کر عام افراد امت تک اختلاف کا ایک بنیادی عنصر عصبیت اور ضیق قلب یا اس کی کوئی نہ کوئی شکل ضرور ہے۔ ان بیماریوں میں امت اسلامیہ پوری طرح سے مبتلا ہے اور جو کچھ پڑھے لکھے ہیں بسا اوقات ان پر جاہلوں کی دھونس کا غلبہ ہے یا پھروظیفہ خوری ان کی آنکھوں پر پٹی باندھتی ہے ۔کتنے ایسے ہیں جو بلا علم کے اپنے کو عالم سمجھ بیٹھے ہیں اور کتنے ایسے ہیں جو بلا سند کے مفتی بنے بیٹھے ہیں۔ نیم ملائوں کا ایک ہجوم ہے اور دعاڑیوں، مداریوں کی ایک بھیڑ ہے جو جہالت کی تاریکیوں کو پھیلانے اور علم وتحقیق کی روشنی کو مٹانے کے درپے ہیں۔ مستند علما ء کی طرف رجوع اور اہل علم کی قیادت وسیادت کا فقدان ہے۔ آج اگر مسلمان پڑھا لکھا ہوجائے، قرآن وحدیث کا مطالعہ شروع کردے، علم سے ان کا رشتہ مضبوط ہوجائے، حقائق پسندی اور حق پرستی ان کی طبیعتوں میں شامل ہوجائے اور پھر تلاش حق میں نکلیں تو کبھی بھی گمراہ نہ ہوں گے اور نہ ہی اختلاف وانتشار کے شکار ہوں گے۔ بلکہ زیادہ تر اختلافات کے خاتمے کا سبب جہالت کا خاتمہ اور علم وتعلیم کی بالادستی میں ہی مضمر ہے۔واضح رہے کہ دین کی فروعات میں اختلاف ناگزیر ہے۔بہت سے شرعی دلائل باہم دگر متعارض ہیں۔ خصوصا احادیث کے باب میں تعارض کا میدان زیادہ وسیع ہے تو اس تعارض کو کیسے دور کیا جائے ؟ تعارض کے ازالہ کی مختلف صورتیں ہیں۔ تطبیق، نسخ، تخصیص، تقییداور ترجیح کب کون سا ذریعہ استعمال کیا جائے اس باب میں فقہا کے درمیان شدید اختلاف ہوگیا ہے جس کی بنا پر بھی فروعی مسائل میں اختلاف رائے کا دائرہ کافی پھیلتا گیا۔ فروعی احکام اور اجتہادی مسائل میں ایک رائے ہونا ممکن ہی نہیں کیونکہ ذہن مختلف ہوتے ہیں، عقلیں متفاوت ہوتی ہیں ،قوت استنباط میں بڑا فرق ہوتا ہے،دلائل کی گرفت معانی کے فہم و ادراک اور چیزوں کے باہمی ربط و تعلق کو سمجھنے میں خاصی دقتیں ہوتی ہیں۔ دینی عقائد پر سب کا اجماع ہے البتہ بعض قلیل دینی احکامات کے حوالے سے آیات و احادیث اور ائمہ اربعہ کے صائب اجتہاد(یعنی عقل و ذہن سے فتوے مانگنے کی خداداد قابلیت) سے اعمال کی تفسیرو تشریح میں اختلاف ہونا فطری امر ہے ،لیکن ہمارے اسلاف ( موجودہ دور کے علمائے ربانین اور اصحاب فہم و بصیرت) کا طریقہ یہ رہا کہ ہمیشہ ایک دوسرے کا احترام کیا ، ایمان کی حلاوت اور نیک عملی کی صراط مستقیم کبھی نہ چھوڑی، اختلاف رائے کی صورت سلیقۃ الاختلاف کادامن کبھی ترک نہ کیا، ہر حال میں بھی خداخوفی ،وسیع المشربی اور کشادہ قلبی کا ثبوت دیا۔عباسی خلیفہ منصور نے امام مالک کی کتاب ’’الموطا‘‘ کو سارے ملک میں نافذ کرنا چاہا تو امام موصوف نے ایسا کرنے سے سختی سے منع کردیا اور کتنی حکیمانہ بات فرمائی، ترجمہ:رسول اللہ ؐکے اصحابؓ مختلف بستیوں میں پھیل گئے اور ہر ایک کے پاس علم ہے تو اگر ان سب کو ایک ہی رائے پر مجبور کرو گے تو فتنہ ہوگا۔امام شافعی ؒکے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جب بغداد تشریف لے گئے تو فجر کی نماز میں حنفی مسلک کی رعایت سے دعائے قنوت نہیں پڑھی جب کہ ان کے مسلک میں ایسا کرنا ضروری ہے(حجہ اللہ البالغہ)امام احمد رحمہ اللہ سے کسی نے سوال کیا کہ وہ اس شخص کے پیچھے نماز پڑھ لیں گے جس نے پچھنہ لگوانے کے بعد وضو نہ کیا(امام احمد کے نزدیک اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جب کہ امام مالک وغیرہ کے یہاں نہیں ٹوٹتا) تو آپ نے فرمایا مالک اور حضرت سعید بن مسیب کے پیچھے کیسے نماز نہیں پڑھوں گا۔امام ثانی امام ابو یوسف نے ایک بار جمعہ کے روز حمام میں غسل کیا۔ نماز پڑھ کر جب لوگ ادھر ادھر منتشر ہوگئے تو آپ کو اطلاع دی گئی کہ حمام کے کنویں میں ایک مرا ہوا چوہا موجود ہے۔ امام موصوف نے یہ سن کر فرمایا کہ تو پھر اس وقت ہم اپنے مدنی بھائیوں (یعنی مالکیوں)کے مسلک پر عمل کرتے ہیں کہ جب پانی دوقلہ کی مقدار میں ہو تو وہ نجس نہیں ہوتا، اس کا حکم ما کثیر میں ہو جاتا ہے۔ (حجہ اللہ البالغہ )امام ابو حنیفہ اور ان کے تلامذہ اور امام شافعی وغیرہ اہل مدینہ کے پیچھے نمازیں پڑھا کرتے تھے حالانکہ اہل مدینہ نماز میں سرے سے بسم اللہ پڑھتے ہی نہیں تھے ،نہ آہستہ سے نہ زور سے۔(الانصاف فی مسائل الخلاف)امام ابو یوسف نے ہارون رشید کے پیچھے نماز پڑھی اور پھر دہرائی نہیں حالانکہ اس نے پچھنے لگوانے کے بعد وضو کی تجدید نہیں کہ تھی جس کا فتوی امام مالک نے دیا تھا اور حنفیہ کے نزدیک پچھنہ لگوانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔(الانصاف فی مسائل الخلاف) ۔ غرض اسلام کے سائے میں رہنے والے علماء اور عامی ہر زمان ومکان میں صرف اسلام کا جمال رچ بس گیا تھا اور وہ ایمان ، عمل صالح، خلوصِ نیت اور ایک دوسرے کی خیرخواہی کے علاوہ کوئی چیز نہ جانتے تھے اور نہ بر تتے تھے ۔ ا س وقت جب کشمیر جل رہاہے عامتہ المسلمین کو اسی جمال اسلام کو اپنانا ہے اور ہر اعتبار سے شیر و شکر ہوکر چانے کے ساتھ شانہ ملا کر آگے بڑھنا اور بڑھتے رہنا ہے۔