گزشتہ کئی برسوںسے ارض شام بلاتوقف جنگ کے شعلوں سے جھلس رہی ہے اور یہ سر زمین مسلمانوں کے خون سے لالہ زار ہورہی ہے۔لوگ مررہے ہیں ،مٹ رہے ہیں ،فاقہ کشی کررہے ہیں ،انہیں گھروں سے نکالا جارہا ہے، بستیاں بر باد ہورہی ہیں اور شامی مہاجرین غیر ملکوں میں دربدوخاک بسر ہیں ۔ شام کی لہو لہو زمین اور زخموں سے چُور عوام پکار پکار کر اہل دنیا کو روئے زمین پر ایک بدترین ڈکٹیٹر بشارالاسد کے انسانیت سوز مظالم اور قتل و غارت سے نجات دلانے کیلئے سوئے ضمیروں کو جگارہے ہیں۔گزشتہ سات برسوںسے یہ ملک مسلسل حالت جنگ میں ہے اور جو کچھ عراق اور لیبیا میں ہوا یا ہورہاہے ، اس سے کئی سو گنا زیادہ اب شام میں ہورہا ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ خلیجی ممالک کی ہر خرابی کی جڑ اسرائیل ہے ، اسرائیل کی بنیاد ہی اسلام دشمنی اور مسلم بیزاری پر رکھی گئی ہے ،آج وہ اپنے ناپاک ایجنڈ ے تکمیل کر رہا ہے مگر افسوس امت مسلمہ خاموش تماشائی ہے اور عالم ِکفر مسلمانوں کو ایک ایک کرکے مختلف بہانے بنا کر کاٹ رہا ہے مار رہا ہے، بالخصوص ارض شام کے مسلمانوں پر قیامتیں ڈھائی جارہی ہیں ۔
شام کی کل آبادی ایک کروڑ 84لاکھ ہے ۔بشار الاسد اس حسین ملک کی آبادی پر فوجی طاقت اور بیرونی امداد کے بل بوتے پر مسلط ہے ۔ شام میں ہورہی غارت گری کے لئے اسرائیل بھی کسی سے پیچھے نہیںاور اس کی عملی مداخلت قابض حکمران بشار الاسد کے لئے کسی غیبی امداد سے کم نہیں ۔امریکہ بھی اگرچہ فری سیرین آرمی اور دیگر گروپس کی مدد کررہا ہے لیکن ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بشار الاسد ،روس ،امریکہ اور دیگر گروپس سے مل کر شام میںمعصوم لوگوں کے قتل وغارت گری میں براہ راست ملوث ہیں ۔ادھر اسرائیل بھی اپنے ناپاک منصوبے کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لئے اور’’ گریٹر اسرائیل‘‘ کے قیام کیلئے مشرق وسطی کی ریاستوں کی تھوڑ پھوڑ کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اس میں کچھ بے ضمیر مسلم بادشاہ وحکمران دیدہ ودانستہ اس کا سپورٹ کر رہے ہیں۔ سرزمین شام میں تاریخ اسلام میں مشہور غزوہ موتہ کا سب سے اہم معرکہ ہو ا۔ در حقیقت یہ اسلام اور عیسائیت کے بیچ پہلا معرکہ تھا۔ یہ معرکہ برپا ہونے سے سرزمین شام کی اہمیت بھی اُسی دن طے ہوگئی ۔ آج کے دجالی حملے کل کے صلیبی حملوں کا تسلسل لگتے ہیں ۔
تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ غزوہ موکی جنگ ومحاربہ تاریخ انسانی کی انوکھی جنگ تھی،جسے حق وباطل کی کشمکش کی تاریخ میںایک معجزہ ہی کہا جاسکتا ہے ۔ اس جنگ کے قائد حضرت زید بن حارث جعفربن ابی طالب عبد اللہ بن روحہ رضی اللہ تعالیٰ علیہ اجمعین تھے اور جن کی شہادت کے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس جنگ کی قیادت سنبھالی تھی۔ غزوتہ موتہ کا معجزاتی پہلو یہ تھا کہ مسلمانوں کی تعداد 3000؍تھی اور رومیوں نے دو لاکھ کی فوجیوں پر مشتمل پہاڑ کھڑا کیا تھا۔ مسلمانوں نے پھر بھی اس باطل فوج سے ٹکر لینے کا فیصلہ لیا۔ نبی ٔرحمتﷺ کے جری غلاموں نے لڑنے فیصلہ لیا جو اس قت دنیا کی سب سے زیادہ طاقت ور فوج مانی جاتی تھی ۔واضح رہے غزوہ موتہ کے ایک سال بعد قائد المجاہدین نے یورپ والوں کو کرار جواب دینے کے لئے اپنی حیات مبارکہ کا سب سے بڑا اسلامی لشکر لے کر اسی ملک شام کا رُخ کیاتھا۔ اسلام میں مکہ و مدینہ کے بعد بلاد شام کو ہی مسلم مورخین نے مقدس ماناہے، محبوب کبریا ﷺ نے جزیرۂ عرب سے باہر نبوت سے پہلے اسی ملک کا سفر کیا ۔یہ مبارک سر زمین پہلی جنگ عظیم تک خلافت عثمانیہ کی سر پرستی میں ایک ہی خطہ تھی مگر اپنوں کی منافقت اور غیروںکی سازشوں سے اس مقدس سرزمین کو چار حصوں میں منقسم کیا گیا:سوریا ،لبنان، فلسطین، اردن ۔ اسی سرزمین پر خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق ؓ تشریف لائے تھے، متعدد کتب احادیث میں اس مقدس سر زمین کے فضائل تفصیلاًبیان کئے گئے ہیں ۔حضرت امام مہدیؒ حجاز مقدس سے ہجرت فرما کر قیام فرمائیں گے اور مسلمانوں کی قیادت فرمائیں گئے ،حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول اسی علاقہ یعنی دمشق کے مشرق میںہی ہوگا ۔
گزشتہ ماہ سے ملک شام کے شہر الغوطہ پر اسدی درندہ صفت فوجیوں نے حملہ کیا۔ خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق اسدی فوج اور اس کے حربی اتحادی روس کے تباہ کن فضائی حملوں اور شدید گولہ باری سے پانچ روز میں 464؍شہری بشمول 100؍معصوم بچے شہید کئے جا چکے ہیںجب کہ 2100؍زخمی ہوئے ہیں ۔ملک شام گزشتہ سات برسوں سے حالات جنگ میں ہے یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2011ء سے ملک شام کے مختلف شہروں کو نشانہ بنایا گیا جن میں حلب ،موصل، رقہ،وغیرہ خاص طور شامل ہیں۔گذشتہ ماہ سے شہر الغوطہ پرفضائی حملوں اور شدیدگولہ باری سے ہزاروںمردوںعورتوں بچوں جوانوںبزرگوں کوبلالحاظ عمر وجنس نشانہ بنایا گیا۔ SNHRکی رپورٹ ملا خط فرمائیں: the syrian network for Human Rights reports the death tolls for 2017 in syria A Total of 10,204civilians have been killed including 2,298 children and 1,536 women ایک غیر سرکاری تنظیم کی رپوٹ کے مطابق 2011 سے2016تک 45فیصد آبادی کو اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑا جن میں سے 40 لاکھ سے زائد افراد اپنی جائیدادواملاک چھوڑ کر وطن سے زندگی بچانے کے لئے نقل مکانی کر گئے جب کہ 64لاکھ افراد اپنے ہی ملک میں بے گھر ہوئے۔ یہ سلسلہ تا دم تحریرجاری ہے ۔ایک طرف امت مسلمہ کے دل پر ابھی حلب موصل برما کے زخم تازہ تھے، ابھی یہ مندمل نہیں ہوئے تھے کہ بشار الاسد اور اس کے اتحادی روس وغیرہ نے امت مسلمہ کے دل کو مز ید چھیلنی کیا ۔گزشتہ سات سال سے مسلسل ارضِ شام کے مکینوں کو بے انتہا حملوں اور تکلیفوں کا نشانہ بنایاجا رہاہے ۔ انہیں جرم بے گناہی کی سزا دی جا رہی ہے، عالم اسلام کے مسلمان خون کے آنسو رو رہے ہیں مگراسلامی ممالک کے بے حس حکمرانوں کو کوئی غم اور فکرنہیں کہ ان کے ہم مذہب شامیوں سے کیا کیا جارہا ہے ۔امریکہ کی لونڈی اقوام متحدہ امریکہ کی غلامی میں اندھا بہری ہوچکی ہے ۔انہیں کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کا خون نظر آرہا ہے اور نہ ہی فلسطین و برما اور ملک شام میں معصوم مسلمانوں کا بہتا ہوا لہو دکھائی دے رہاہے۔ اگر اقوام متحدہ کو نظر آرہاہے تو صرف امریکہ کی عینک سے مظلوم ومحکوم مسلمان ہی دہشت گرد نظر آرہے ہیں۔ بقول شاعر ؎
ہم آہ کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چر چا نہیں ہوتا
ایک پڑھے لکھے مسلمان نوجوان کے ذہن میں یہ سوال بار بار آتا ہے اگر اقوام متحدہ اپنا جادو مشرقی تیمور پر چلاسکتا ہے تو مظلوم مسلمانوں کے حق میں وہ آواز بلند کیوں نہیں کر سکتی ؟وہ مسلمانوں کو عالم کفر کے ظلم و ستم سے کیوں آزاد ی نہیں دلا سکتی ؟ پچھلے سات سالوں سے ارض شام لہو لہو ہے مگر اقوام متحدہ کی مجرمانہ خاموشی کیوں نہیں ٹوٹ سکتی ؟ دوسری طرف موجودہ دور کے بے حس وبے ضمیر مسلم حکمران ہیں جن کی ایمانی غیرت ختم ہوگئی ہے اور انہیں صرف اپنا اقتدار عزیز ہے۔ ارض شام کے بغل میں ہی عرب کے متعدد حکمران ہیں مگر افسوس صد افسوس عرب حکمرانوں نے اپنی غیرت کا سود ا کرسی کے عوض کیا ہو اہے ،یہاں تک کہ جس جزیرہ نما عرب کو اسلام نے بتوں سے پاک وصاف کیا تھا آج اسی مقدس سرزمین میں دنیا کا سب سے بڑا مندر تعمیر ہو رہا ہے۔لنگڑیoicبھی شامی مظلوم مسلمانوں کے لئے آواز بلند کرنے سے کنی کترارہی ہے ، جب کہ عالم کفر مسلمانوں پر ہر جگہ حملہ آور ہورہا ہے اور پیارے مدنی آقا نے جس امت کوجسد واحد قرار دیا وہ آج قوموں ،ملکوں ،مسلکوں ، زبانوں ، ثقافتوں ،جماعتوں اور گرہوں میں تقسیم درتقسیم ہے۔اسی نا اتفاقی اور تفرقہ کے سبب غیر آج مسلم آبادیوں کوگاجر مولی کی طرح کاٹ ر ہے ہیں اور تماشہ بین مسلمان مسلم اُف تک نہیں کرتے ۔ امت مسلمہ کے خطیبوں واعظوں کالم نویسوں ٹیلی ویژن چینلوں صحافیوں بالخصوص علماء کرام اورہر دردمند مسلمان پر ذمہ داری عا ئد ہوتی ہے کہ شام کے مظلومین کی حمایت کرکے ان کو بشارالاسد کی ناپاک رژیم کے ظلم و ستم سے نجات دلائیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بشار الاسد کا ریموٹ کنٹرول صہیونی طاقتوں کے ہاتھوںمیں ہے اور اس نے دور حاضر میں تاریخ عالم کے سفاک قاتل ہٹلر کی یاد یں تازہ کردی ہیں مگرتاریخ گواہ ہے کہ بشار الاسد اور اس کے حربی اتحادیوں نے جو آگ اس وقت شام میںجلائی ہے، اس آگ میں وہ ایک دن خود جل کر راکھ ہوں گے کہ یہ تاریخ کا تلخ فیصلہ ہے کہ دست ِتظلم کی عمر کوتاہ ہوتی ہے ۔