ریاست کے اندر آبادیوں کے بے ترتیب پھیلائو کے بہ سبب جو دنیا ترتیب پا رہی ہے ، آنے والے قتوں میں وہ لوگوں کےلئے نہایت تکلیف دہ مشکلات کا سب بن کر سامنےآ سکتی ہے، کیونکہ ان بستیوں کو کسی منصوبے سے ماوریٰ ہو کر آباد کیا جاتا ہے، جن میں نہ تو بنیادی شہری سہولیات موجودومیسر ہوتی ہیں اور نہ ہی انکے فروغ کی کوئی گنجائش ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ شہر سرینگر کے بے ترتیب پھیلائو میںجہاں آبادی کا اضافہ ذمہ دار ہے وہیں اس کےلئے سرکاری اداروں سے لیکر زمین دلالوں تک ایک یکساں سوچ متحرک ہے۔کیونکہ گزشتہ نصف صدی کے دوران شہر سرینگر میں آبادیوں کے پھیلائو کے دوران منصوبہ جاتی ضرور توں اور حقائق کو قطعی طو رپر نظر انداز کر دیا گیا۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت نے وقت وقت پر منصوبے مرتب نہیں کئے ہوں بلکہ سرینگر کےلئے ایک ماسٹر پلان ضرور موجود ہے اور اب اسے سمارٹ سٹی کا درجہ دیا جا رہا ہے۔ لیکن جب عملی سطح پر دیکھا جاتا ہے تو یہ منصوبے کاغذی گھوڑوںکے سوا کچھ نہیںلگتے ، کیونکہ بے ترتیب بستیوں کے پھیلائو میں مفاد خصوصی رکھنےوالے عناصر کو ان ہی سرکاری اداروں کی جانب سے تعاون اور اعانت میسر ہوتا ہے، جو ان منصوبوں کے نفاذ کےلئے ذمہ دار ہیں۔ خواہ وہ سرینگر میونسپل کارپوریشن ہو ، سرینگر ڈیولپمنٹ اتھارٹی ہو یا لاوڈا، سبھی ادارے کسی نہ کسی سطح پر اس کھلم کھلا جنگل راج کےلئے ذمہ دار ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دلالوں کے حلقوں، جو عرف عام میں اب لینڈ مافیا کے نام سے موسوم ہیں، اور حکمرانوں کے مابین مضبوط رشتے اور تعلقات ہوتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر دونوں ایک دوسرے کےلئے پشتی بان ثابت ہوئے ہیں، لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ مشترکہ مفاد بروئے کار لا نے کےلئے منظور شدہ پالیسیوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ اس سارے عمل میں کشمیر کو دوہرے نقصان سے دو چار ہونا پڑا ہے۔ ایک طرف اقتصادی خود کفالت کے بنیادی ذریعہ زرعی اراضی، جو صدیوں تک کشمیری عوام کی حریت فکر کا مسلمہ و سیلہ رہی ہے، کو ان بے ترتیب و گنجلگ بستیوں کے جنگل کی تشکیل کی بھینٹ چڑھا کر معیشی انحصار کے سیاہ ابواب تحریر کئے گئے تو دوسری جانب شہری منصوبہ بندی کے قواعد و اصولوں کو روند ھ کر ایک ایسے رجحان کو فروغ دیا گیا، جو لوگوں کے خون پسینے کی کمائی کو مٹی میں ملانے کا سبب بنا ہے۔ اس بات کا ذکر دلچسپی سے شاید خالی نہیں ہوگا کہ اس سیکٹر میں سرمایہ کاری کے مقامی سطح پر بہت ہی قلیل فوائد حاصل ہوتے ہیں کیونکہ تعمیری سرگرمیوں میں کام آنے والا بیش تر سازو سامان بیرون ریاست سے آتا ہے، حتاکہ اب اس میں کام آنے والے انسان وسائل کےلئے بھی ہمسایہ ریاستوں پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ اس ساری صورتحال کےلئے اگر چہ عام لوگوں کو بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن بہ ایں ہمہ منصوبہ بندعمل آوری کےلئے حکومت ہی ذمہ دار ہے۔ شہر سرینگر گزشتہ چند دہائیوں سے جس تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے، اُس کے نتیجہ میں شہر کے مضافات میں واقع زیر یں سطح کی زمینیں، جو تاریخی اعتبار سے زائد پانی کو سنبھالنے کا کام دے کر بالائی بستیوں کو سیلاب جیسی ایمر جنسیوں میں بچانے کا سبب بنتی تھیں، آج کنکریٹ کے جنگلوں میں تبدیل ہوگئی ہیں، یہی وجہ ہے کہ 2014کے تباہ کن سیلاب کے بعد کم و بیش ایک سال تک ان بستیوں کے اند رکسی نہ کسی طور پانی کی سطح بلند رہی، جس سے وہاں کے باسیوں کو بے بیان مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ ایسا کیوںہوا ہے، اس کا جواب سر کار اور سرکاری اداروں کو تلاش کرنا چاہئے ۔ آج کی تاریخ میں شہری تعمیرات سے متعلق سرکاری صیغوں کےلئے سرینگر ماسٹر پلان پر عمل آوری بنیادی ترجیح ہونی چاہئے۔ کیونکہ جس پیمانے پر تباہی ہو چکی ہے، اُسکا صد فی صد ازالہ تو ممکن نہیں ہے۔ لیکن مستقبل کو بربادی کے سیلاب بے پیکران سے محفوظ کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جاسکتی ہے اور اسکی ضرورت ہے۔ ورنہ آنے والے ایام میں یہ شہر جونپڑپٹیوں کی ایک ایسی بدنما د نیا میں تبدیل ہوگا، جہاں نہ سڑکیں ہونگی نہ نکاسی آب کا بندوبست ، نہ کھلی دھوپ اور نہ ضرورت کے مطابق ہوا اور نہ ہی ایمرجنسی کا سامنا کرنے کی صلاحیت میسر ہوگی اور ان بستیوں کے اندر انسانوں کے نام پر رینگتے سایوں کے مجموعے ہونگے۔ اب چونکہ سرینگر کو سمارٹ شہروں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہےلہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس طوفان بدتمیزی پر روک لگانے کےلئے سنجیدگی کے ساتھ کوشش کرےاور اولین قدم کے طور پر زیریں زمینوں، جو اضافی پانی کو سنبھالنے کے کام آتی ہے، میں بےہنگم تعمیراتی عمل پر قدغن لگا دے۔