ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا، پھر لاش کی نبض ٹٹولی اور اس سے کہاـ: ’’ کھڑکی کھول دو۔۔۔۔‘‘
مردہ جسم میں جنبش ہوئی۔۔۔۔
بے جان ہاتھوں نے ازار بند کھولا۔۔۔۔اور شلوار نیچے سرکادی
بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا: ’’ زندہ ہے۔۔۔میری بیٹی زندہ۔۔۔۔
ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہوچکا تھا۔۔۔
اور اس طرح نہ صرف ڈاکٹر بلکہ پوری انسانیت پسینے میں غرق ہوئی۔ٹھیک ا سی طرح پوری انسانیت( اور اگر آج انسانیت کہیں پر ہے) پسینے میں غرق ہوئی جب کٹھوعہ ،جموں میں ایک ننھی بچی آصفہ کو عصمت دری کا نشانہ بنایا گیا، اور ادھ مری لاش کے ساتھ زیادتی کی گئی اورپھر قتل کیا گیا۔
مذکورہ بالا جملے سعادت حسن منٹو کے مشہور افسانے ’’کھول دو‘‘ سے لیے گئے ہیں ۔ منٹو پر اس منافق سماج نے اس سچائی کو پیش کرنے پر مقدمے دائر کیے تھے، جو سماج آج بھی ویسا ہی درندوں سے بھرا ہوا۔بلکہ اب اس نے درندوں کی حدیں بھی پار کی ہیں اور درندے بھی اب انسان کی کالی کرتوتوں سے پناہ مانگنے لگے ہیں۔ اب تو ریلیاں نکالی جارہی ہیں مجرموں اور بلتکاریوں کے حق میں جلوس نکالے جارہے ہیں ۔ ’’جے شری رام‘‘ اور ’’بھارت ماتا کی جے ‘‘ کے نعرے لگائے جارہے ہیں۔کس وقت میں ہم جی رہے ہیں اور کیا انسانیت پوری طرح مر چکی ہے۔حالات و واقعات یہی بتارہے ہیں۔آدمی مادی ترقی تو خوب کر رہا ہے لیکن وہ انسان بننے کے بجائے درندے کی شکل اختیار کر رہا ہے۔اس کا حلیہ تو انسانوں کا جیسا ہے لیکن انسانی چمڑی کے اندر درندہ چھپا ہوا۔ روز بروز کے دل دہلادینے واقعات اسی بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔کہ اب انسانیت کی اندرون کی کایا کلپ ہوگئی ہے، بس صرف باہر سے یہ کایا کلپ ہونے کی دیر ہے اور بندر بلکہ درندہ بن جانے میں اب زیادہ وقت نہیں۔
آصفہ معاملے کیس کی تحقیقاتی رپورٹ پڑھ کر پوری انسانیت شرمسار ہوچکی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اب صرف ’’انسانیت‘‘ لفظ کتابوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے، زمینی سطح پر انسانیت کا جنازہ کب کا نکل چکا ہے۔
پولیس تحقیقات کے مطابق کجھوریہ اور اُس کے ساتھیوں نے یہ درندانہ کام ، بکر وال طبقے کو’’ سبق سکھانے‘‘ کے لیے، بلکہ خوف زدہ کرنے اور انہیں جموں سے بھگانے کے لیے کیا۔اس گناونے کھیل کا پروگرام پچھلے سال نومبر میں تشکیل دیا گیا تھا، جب مقامی ہندوئوں اور بکروال طبقے کے بیچ زمین کے ٹکرے پر توتو میں میں شروع ہوگئی اور پھر آگے چل کریہ ان طبقوں کے بیچ روز کا معمول بن گئی اور بالآخر اس معمولی جھگڑے نے گناونی شکل اختیار کی۔اس گناونے کھیل کی پوری رپورٹ اور اس کو تشکیل دینے والے مراحل کے بارے میں پڑھنے کے بعد رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مظلوم آصفہ کی کہانی ایک بار پھر ہمیں منٹو کی ایک اور کہانی ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کی یاد دلاتی ،جس کا ایک کردار ایشر سنگھ ایک لاش کے ساتھ جسنی زیادتی کرنے کے ارتکاب میں نامرد بن جاتا ہے۔لیکن ایشر سنگھ اپنا اقبال جرم کرتا ہے اور ’’ ٹھنڈا گوشت ‘‘ کی کہانی کا پس منظر فسادات ہیں ، جب ایسے واقعات فرقہ واریت کی آڑ میں عام ہوچکے تھے۔لیکن معصوم آصفہ کا واقعہ عام حالات میں ،آج کے زیادہ مہذب زمانے میں پورے منصوبے کے ساتھ ترتیب دیا گیا۔یہاں تک کہ مجرم نے اپنے رشتہ دار کو اترپردیش کی ریاست میرٹھ سے اس گھناؤنے جرم کے لیے بلایا۔معصوم و مظلوم آصفہ کو پہلے جنگل میں ہوس کے ان پجاریوں نے اپنی جنسی بھوک کی بھینٹ چڑھایا پھر ایک مندر میں لے جاکر اور نشیلی دوائی پلا پلا کر اس معصوم کی اَدھ مری لاش کی ساتھ جنسی زیادتی کی کہ اس سے درندے بھی شرما جائیں۔
کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ کہانی کا ایک اور گناونا پہلوہے۔ وہ یہ کہ ابتدا ء میں بھی مجرموں کا نام سامنے کے بعد مجرموں کی حق میں ریلیاں اورجلوس نکالے گئے اور مجرموں کو رہا کرنے پر زور دیا گیا۔ اب کرائم برانچ کی تحقیقات سامنے آنے بعد پھر سے ’’ہندو ایکتا منچ‘‘ نے مجرموں کے حق میں جلوس نکالا اور تحقیقاتی کمیشن کی غیر جانبدارانہ اور منصفانہ تحقیقات کو رد کیا، جو یقینی طور پر کسی گہری سیاسی سازش کا سراغ دیتا ہے۔اس ساری کہانی کا بغور جائزہ لینے کے بعد محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس کل یُگ میں انسانیت کا جنازہ پوری طرح نکلالا جا چکاہے اور جدید انسان کا اپنے آپ کو زیادہ تہذیب یافتہ کہنا اور ترقی یافتہ گرداننا ، خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔اس سے پہلے پاکستان کے ایک شہر قصور میں بھی اسی طرح ایک المیہ پیش آیا جس نے پوری انسانیت کو شرمسار کرکے رکھ دیا لیکن بھارت کے برعکس پاکستان میں مجرموں کو سزائے موت بلاتاخیر سنائی گئی جسے اب عملانے کی دیر ہے ۔ پاکستان اور وہاں کی انتظامیہ پر ہمیشہ تنقید کرنے والے اور پاکستان کو ایک ’’ناکامیاب ریاست‘‘ کا خطاب دینے والے اس کے برعکس عصمت ریزی میں ملوث افراد کے حق میں ریلیاں اور جلوس نکالتے رہے ہیں۔تصویر کا ایک گھناؤنا پہلو یہ بھی ہے کہ ان مجرموں کے حق میں ہوئی ریلیوں اور جلوسوں میں یہاں کے مستعفی شدہ وزیروں تک نے بڑھ چڑ ھ کر حصہ لیا ۔ یہ یہاں کے سماج اور سیاست کے دیوالیہ پن کی ایک بڑی منہ بولتی مثال ہے۔۔جب قانون بنانے والے نام نہاد نمائندے اور حاکمانِ وقت ہی مجرموں کے حق میں کھلے عام جلسے جلوس کریں تو ایک عام فرد حاکم وقت سے اور انصاف و حق گوئی کی کیا توقع رکھ سکتا ہے؟
یہاں پر اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ابتدا میں نہ صرف پورے بھارتی میڈیا نے اس مسئلے کو سرد خانے میں ڈالنے کی کوشش کی بلکہ ریاستی میڈیا نے بھی کچھ سرد مہری دکھائی، جو ایک افسوس ناک امر ہے۔بھارتی میڈیا کا اس مسئلے پر تادیر چپی سادھ لینا سمجھ میں تو آتا ہے، جیسا کہ اُن کا کشمیر اور یہاں پر ہورہے مظالم کے سلسلے میں پہلے سے ہی کردار رہا ہے ۔ سچ یہ ہے کہ ملک کے میڈیا نے ہمیشہ کشمیر اور کشمیریوں پر ہورہے مظالم کو نظر انداز کیا یا اسے مسخ کر کے پیش کیا کہ مظلوم ہی ظالم ٹھہرا اور ہر زیادتی کو بھونڈے انداز میں سیاسی رنگت دینے کی مذموم کوشش کی۔ اب کشمیر کا بچہ بچہ بھارتی میڈیا کے اس گھناؤنے کھیل اور اس کے جھوٹ سے واقف ہوچکا ہے۔حد یہ کہ اس ’’بالٹی صحافت‘‘ کے نابینا نمائندوں اور اخلاق باختہ باسز نے عصمت دری کے اس گھناؤنے کھیل کو بھی اسی طرح پاکستان کی ’’سازش ‘‘قرار دیا جیسے انڈیا میں کچھ سال قبل پلیگ پھیلنے پر بھارتی میڈیا کو اُس وبا میں بھی کسی مرے ہوئے پاکستانی چوہے کا رول نظر آیا تھا۔ اس طرح کی بے سروپا کہانیاں بنانے پر بھارت میں جمہوریت کا چوتھا ستون یعنی صحافت اور صحافی رسوا ہوچکے ہیں۔کوئیناممکن بات نہیں کہ اگر آنے والے دنوں میں بھارت کی ’’بالٹی صحافت‘‘ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے بھی پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرائے۔
کٹھوعہ واقعے نے زعفرانی سیاست اور بناسپتی جمہوریت کے مکروہ چہرے سے وہ نقاب بھی سرکادیا ہے جس کی آڑ میں اس سے عالمی برادری کو دھوکے میں رکھا گیا تھا ، بلکہ اب بھی رکھا جارہا ہے۔ سب سے پہلے اس الم ناک کیس کو فرقہ پرستی کا رنگ دینے میں بھارت کے طاقت ور سیاست دانوں کا ہاتھ رہا۔فرقہ پرست سیاست دانوں کا اس معاملے کو فرقہ پرستانہ رنگ دینا اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں ،دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقہ جات کی زندگی کس طرح ہندتواوالے اجیرن بنا ر ہے ہیں اور یہ کہ مودی سرکار کے زیرسایہ یہاں کے پچھڑے طبقات خوف میں جی رہے ہیں۔اس سے ساری دنیا واقف ہوچکی ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ عدلیہ کے حالیہ مسلم مخالف فیصلوں نے بھی اس بات کو مزید واضح کردیا ہے کہ یہاں اقلیت کے لیے دن بہ دن دائرہ حیات تنگ ہوتا جارہا ہے۔ اب جب کہ عدلیہ اور انصاف کے دروازے ہی بند ہونے لگیں ،ایسے میں’’ کسے وکیل کریںکس سے منصفی چاہیں ‘‘ کے مصداق ہر طرف اندھیرا ہی دکھائی دے رہا ہے۔
ریاستی حکومت پر اس وقت کٹھن وقت آچکا ہے۔ کٹھوعہ سانحہ اس کے لیے آزمائش کا مرحلہ ہے کہ یہ ریاستی حکومت کی بٹھائی گئی کرائم برانچ تحقیقاتی رپورٹ نے مجرموں کو پوری طرح بے نقاب کیا ہواہے۔اب صرف انہیں اپنے کئے کی سزا عدالت سے ملنے اور اُسے عملانے کی دیر ہے اور یہیں سے حکومت کی آزمائش شروع ہوتی ہے ۔حکومت کے سامنے صرف دو راستے ہیں:۱)یا تو مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے یا۲) حکومت خود اپنے ہاتھ اپنے تابوت میں آخری کیل ٹھونک کر اقتدار سے دستبردار ہو جائے۔بہرحال موجودہ پُر آشوب حالات اس بات کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ بھارتی سیاست کا بھگواکرن بڑی تیزی سے ہورہا ہے اور جمہوریت محض ’’منتخب ڈکٹیٹر شب‘‘ میں تبدیل ہورہی ہے۔قانون ، عدلیہ اور جمہوریت کا جنازہ دن دھاڑے نکل رہا ہے۔سیاسی ، سماجی اور معاشی حالات بد سے بدتر ہورہے ہیں لیکن اس اندھیرے میںجو بھی تھوڑی سی امید کی کرن کہیں دکھائی دے رہی ہے وہ صرف بھارت کے اس اعتدال پسند اور روشن ضمیر طبقہ کی صورت میں دکھائی دے رہی جو ملک میں پھیلی بدامنی ، ظلم اور ناانصافی کو ختم کرنے کی کوشش میں پیش پیش ہے۔کیا یہ اعتدال پسند طبقہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوگا یا یہ بھی اس ظلم و نا انصافی کی آندھی میں بہہ جائے گا جس کے لئے زعفرانی عناصر سرگرم ہیں، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ البتہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی سزا موت مقر ر کر نے کا آرڈی ننس جاری کر نے سے عندیہ ملتا ہے کہ زعفرانی قیادت کھٹوعہ،اناؤ ، سورت، مظفر نگر وغیرہ المیوں سے جس عالمی اور ملکی سطح خجالت سے ودچار ہے ، یہ قانونی اقدام اس کا ازالہ کر نے کی ایک ادنیٰ کوشش ہے ۔ اب تاریخ کو اس بات کا انتظار رہے گا کہ آیا یہ آرڈی ننس عملاً مجرموں کے خلاف نافذ ہوگا یا نہیں ؟
رابطہ : جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی