سرینگر//کشمیر پولیس نے لبریشن فرنٹ چیئرمین محمد یاسین ملک کو اسوقت گرفتار کرلیا جب وہ جامع مسجد سرینگر میں ایک پرامن احتجاجی مظاہرے کی قیادت کیلئے وہاں جارہے تھے۔ خانیار غوثیہ ہسپتال کے قریب یاسین ملک کی گاڑی کو روکا گیا اور گاڑی روکتے ہی وہاں موجود ایک پولیس افسر نے نازیبا الفاظ استعمال کئے۔یاسین ملک نے مذکورہ آفیسر سے گزارش کی کہ وہ نا زیبا الفاظ کا سلسلہ بند کریں لیکن مذکورہ آفیسر کے محافظین نے ملک کو بقول انکے گھسیٹتے ہوئے تھانہ خانیار کے اندر پہنچایا۔ ان کے ساتھ بشیر احمد کشمیری کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ فرنٹ نے کہا ہے کہ خاینار میں جو کچھ پولیس نے کیا وہ ان کی مجرمانہ ذہنیت کا عکاس ہے جس کے ذریعے انہوں نے کشمیر کو ایک زندہ جہنم میں تبدیل کررکھا ہے جہاں کسی انسان کی جان اور کسی ذی عزت کی ناموس محفوظ نہیں ہے۔فرنٹ نے کہا کہ جب پولیس ایک معروف شخص کو بھرے بازار میں دن دھاڑے اس قسم کے عتاب سے دوچار کرسکتی ہے تو معصوم شہریوں اور خاص طور پر ان جوانوں کا کہ جو ان کے زیر قبضہ آجاتے ہیں کا کیا حال ہوتا ہوگا۔فرنٹ نے کہا کہ پولیس کے اسی طرز عمل نے کشمیری جوانوں کو پشت بہ دیوار لگاکر کشمیر میں بدترین تشدد کو فروغ دیا ہے اور یہ رویہ ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔فرنٹ نے اس ضمن میں پولیس بیان کوجھوٹ اور لغو قرار دیا ہے۔ادھرمشترکہ مزاحمتی قائدین سید علی گیلانی اور میرواعظ عمر فاروق نے پولیس کی جانب سے محمد یاسین ملک پر حملے ، ان کے ساتھ غیر شائستہ زبان کے استعمال اور مابعد ان کو زبردستی گرفتار کرکے تھانے میں مقید کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس طرح کی حرکت کو پولیس کی تاناشاہی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک عوامی ساکھ اور شناخت کے حامل رہنما کے ساتھ ریاستی پولیس کا رویہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایک پولیس سٹیٹ ہے جہاں نہ صرف پولیس کا راج ہے بلکہ کسی کا جان و مال بھی محفوظ نہیں۔قائدین نے کہا کہ ریاستی پولیس کا رویہ کشمیر میں برسر اقتدار آر ایس ایس کے حواریوں کی سوچ اور فکر کی عکاسی کرتا ہے جس کے تحت وہ یہاں کے عوام کی جائز آواز کو بزور طاقت کچلنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔