بانہال//وادی نیل سال کے سات آٹھ ماہ سر سبز و شاداب رہتی ہے۔قدرتی مناظر سے مالامال یہ علاقہ اسی خصوصیت کے پیش نظر ریاست میں وادی نیل کے نام سے مشہور ہے۔نیل مقامی زبان میں نیلے رنگ کو کہا جاتا ہے جو کہ در اصل اردو زبان کا لفظ نیلا ہے۔ وادی نیل کے اطراف و اکناف میں واسہ مرگ،ہنس راج، پوگل پرستان ونون بالہ کی فلک بوس پہاڑیاں ہیں اور ان ہی کے دامن میں تحصیل بانہال کی ایک کثیر آبادی سکونت پزیر ہے اور اب آئینی تقاضوں کے پیش نظر اس خوبصورت علاقے کو تقسیم کر کے تحصیل رامسواور پوگل پرستان کو اکھڑہال میں ضم کیا جا رہا ہے۔یہا ںکی سب سے خوبصورت جگہ ـــواسہ مرگ کے نام سے جانی جاتی ہے جو اپنی خوبصورتی کی وجہ سے گلمرگ اور پہلگام سے مقابلہ کرتی ہے ۔یہاں کے ایک مقامی ادیب و شاعر فاروق احمد نادمؔ جو اکژوبیشتر واسہ مرگ کی خوبصورتی کے بارے ذکر کرتے رہتے ہیں نے کشمیر عظمیٰ کو بتایاکہ سیاسی رنجشوں کی وجہ سے اس خوبصورت مقام کا نام ضلع رام بن کے لوگوں تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔انہوں نے کہا واسہ مرگ نیل چملواس کی بالائی علاقہ کا نام ہے جس کو محکمہ مال نے ڈھلتے پانی کے فارمولہ کے تحت نیل چملواس کے حدود طے کئے ہیں۔ا س وسیع میدان کی چہل پہل عیدین کے موقع پر قابل دید ہوتی ہے جب ضلع رام بن کے متعدد علاقہ جات سے لوگ یہاں عید منانے آتے ہیں۔ اس دن یہاں نوجوان کبڈی، کشتی اور دیگر روائتی کھیل کھلتے ہیںاور عصر حاضر میں اس جگہ کی مقبولیت دیکھئے کہ اب یہاں ضلع کے ساتھ ساتھ ریاست کی دوسری جگہوں سے بھی لوگ سیر و تفریح کے لئے آتے ہیں۔یہا ں سے پیر پنچال،گول گلاب گڑھ اور پتنی ٹاپ کی فلک بوس پہاڑیوں کا نظارہ دیکھا جا سکتا ہے ۔ جغرافیائی اعتبار سے ازن تراگ کی چوٹی اس کا چہرہ ہے اورچملواس اور نیل کو واسہ مرگ اپنے دو بازوں میں سمیٹے ہوئے ہے۔یہاں ضلع کے تمام تعلیمی اداروں کے بچے سیر و تفریح کے لئے آتے ہیںلیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تمام سیاسی تنظیموں کے اعلیٰ عہدیداران بھی یہاں کی سیر کرنے آتے ہیں لیکن وہ معمول کے مطابق ہر5پانچ سال کے بعد الیکشن کے وقت ہی یہاں کا رخ کرتے ہیںاور یہاں کے معصوم لوگوں کے ساتھ جھوٹے وعدے کر کے چلے جاتے ہیںاور لوگوں کے ساتھ ان سیاست دانوں کا مزاق کرنے کا طریقہ بھی کچھ عجیب ہوتا ہے جن کی سرکار 5 سال تک اقتدار میں ہوتی ہے وہ حکمران یہاں آکر کہتا ہے آنے والے 5 سال میں واسہ مرگ کو ہم گل مرگ کے طرز پر بنائے گے اور حذب اختلاف پارٹیاں کہتی ہے اگر ہماری حکومت آج تک ہوتی تو ہم نے واسہ مرگ کوسویزرلینڈکے طرز پر بنایا ہوتاکل ملا کر اگر دیکھا جائے تو 1947 سے لے کر آج تک وادی نیل سیاسی رنجشوںکا شکار رہی ہے۔واسہ مرگ کو سیاحتی زمرے میں لانا یہاں کے عوام کی دیرینہ مانگ ہے ۔اس لئے آج ایک بار پھرنیل چملواس کے عوام کشمیر عظمیٰ کی وساطت سے وقت کے حکمرانوں تک اس بات کو پہنچانا چاہتے ہیں کہ واسہ مرگ کو سیاحتی زمرے میں لاکریہاں کے باشندوں کا یہ دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر کیا جائے۔