صوبہ جموں کے سرکاری ہسپتالوں میں حاملہ خواتین کے ساتھ علاج کے نام پر کھلواڑ کیاجاتاہے اور انہیں زچگی کے مشکل ترین مراحل میں بھی بہتر علاج کی سہولیات میسر نہیںہوپاتیں ۔اس کیلئے اگرچہ مریضوں کا بھاری رش سب سے بڑی وجہ ماناجارہاہے تاہم نہ ہی دستیاب وسائل کا صحیح طریقہ سے سے استعمال ہورہاہے اورنہ ہی حکام متبادل انتظامات کرنے کیلئے فکر مند ہیں ۔حاملہ خواتین کی زندگیوںکے ساتھ کس طرح کھلواڑ کیاجاتاہے اس کا اندازہ لیبر روم کی صورتحال دیکھ کر ہوجاتاہے ۔صوبہ کے سب سے بڑے زچہ و بچہ ہسپتال ایس ایم جی ایس شالیمار کا یہ حال ہے کہ اس میں زچگی والی خواتین کو اس مدت سے قبل ہی ڈسچارج کردیاجاتاہے جو مدت میڈیکل کونسل آف انڈیا کی طرف سے جاری ہدایات کے مطابق مقررکی گئی ۔قواعد کے مطابق زچگی کیلئے آپریشن کے مراحل سے گزرنے والی خواتین کو کم از کم 7دن تک ہسپتال میں داخل رکھا جانا لازم ہے جبکہ قدرتی زچگی والی خواتین کو کم از کم 48گھنٹے ہسپتال میں رکھا جاناچاہئے تاہم اس ہسپتال میں آپریشن والی خاتون مریضوں کو چار دن کے بعد ہی ڈسچارج کر دیا جاتا ہے جبکہ نارمل ڈلیوری والی خواتین کو اول تو اسی دن یا زیادہ سے زیادہ 24گھنٹے کے اندر ڈسچارج کر دیا جاتا ہے ۔اگرچہ یہ سب ہسپتال میں مریضوں کے بھاری رش کی وجہ سے کیا جاتا ہے کیونکہ صوبہ کاسب سے بڑا ہسپتال ہونے کی وجہ سے صوبہ کے اطراف و اکناف سے یہاں ہمیشہ حاملہ خواتین کا تانتا لگا رہتا ہے تاہم بھاری رش کو دیکھتے ہوئے کوئی متبادل انتظام بھی نہیں کیاجارہا ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ شالیمار ہسپتال کے 48بستروں کی صلاحیت والے لیبر روم میں ہر روز اوسطاً120سے130مریض بھرتی کئے جاتے ہیں،جس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ ایک بستر پر دو سے تین مریضوں کو رکھنا پڑتا ہے جس سے انفیکشن کے خدشات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔صوبہ کے اس بڑے ہسپتال میں اس لئے بھی رش بڑھ جاتاہے کیونکہ ضلع سطح پر چل رہے شفاخانوں میں علاج کی وہ سہولیات میسر نہیں جو ہونی چاہئیں ۔اس صورتحال پر کمیشن برائے خواتین کی چیر پرسن نے بھی برہمی کا اظہار کیاہے ۔ انہوںنے گزشتہ دنوں اپنے فیس بک صفحہ پر ضلع ہسپتال پونچھ کے لیبر روم کی تصویر شیئر کی جس میں ایک ایک بیڈ پر تین تین حاملہ خواتین کو لیٹے دیکھاجاسکتاہے ۔ اگر دیکھاجائے تو صرف ضلع پونچھ یا شالیمار ہسپتال کا ہی یہ حال نہیں بلکہ صوبہ کے تمام ہسپتالوں کی یہی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے تاہم حکام کی طرف سے طبی نگہداشت میں بہتری کے دعوے صرف زبانی سطح پرکئے جاتے ہیں جو زمینی سطح کے حالات سے بالکل بھی میل نہیں کھاتے ۔ حکام کا خیال ہے کہ شالیمار ہسپتال میںنیا بلاک تعمیر ہونے سے رش کم ہوجائے گااور اس طرح کی صورتحال درپیش نہیں رہے گی تاہم جب تک اضلاع کی سطح پر اس بارے میں ضروری اقدامات نہیں کئے جاتے تب تک جموں کے ہسپتالوں کا نظام نہیں سدھرے گا چاہے کیوں نہ بہتر سے بہتر انتظامات کیوں نہ کرلئے جائیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ صرف صوبائی سطح پر ہی نہیں بلکہ اضلاع کی سطح پر طبی شعبے میں بہتری کے اقدامات کئے جائیں اور اس شعبے کو موجودہ تقاضوں سے ہم آہنگ کیاجائے ۔