سرینگر // محکمہ جنگلات و ماحولیات کی جانب سے ایس آر او 45کے تحت ریاست میں 50مائکرانmicrons) (پالی تھین کے استعمال پر ماہرین نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ریاست میں ماحولیات پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے لہٰذا اس پر مکمل طور پر پابندی عائد کی جانی چاہیے ۔ وادی کے ہر دکان میں پالی تھین کے بیگ موجود ہیں جن میں صارفین کو سامان دیا جاتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری وادی بنیادی طور پر صحت افزاء مقام ہے کیونکہ سرینگر سمیت وادی کے ہر حصے میں سیاحوں کیلئے پر کشش جگہیں موجود ہیں، لہٰذا یہاں کسی بھی صورت میں پالی تھین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔متواتر ریاستی حکومتوں کی عدم توجہی سے وادی کے ماحولیات کو تباہ کرنے کا فرض نبھایا گیا ہے اور اس اہم معاملہ کی طرف آنکھیں بند کی گئی ہیں۔پالی تھین کے استعمال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محکمہ ایکسائز نے لکھن پور میںپچھلے دو برسوں کے دوران وادی در آمد ہونے والے ایک لاکھ کلو پالی تھین کو ضبط کیا لیکن اسکے باوجود پالی تھین کی ایک بڑی تعداد کا استعمال ہو رہا ہے ۔ریاست کی ماحولیاتی کمیٹی نے محکمہ جنگلات و ماحولیات کی جانب سے فروری 2017میں جاری کئے گئے اُس ایس آر او پر شدید تحفظات ظاہر کئے ہیں ،جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ریاست میں موٹائی میں 50مائکران پالی تھین کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ماحولیاتی کمیٹی نے ریاستی سرکا ر سے اس بات کی سفارش کی ہے کہ اس ایس آر او کی مذکورہ شق پرنظر ثانی کر کے اسے کالعدم کرکے اس پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے۔ پہلگام کی ایک این جی او نے اس ضمن میں پہل کرتے ہوئے اس کے خلاف عدالت عالیہ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی جس کے بعد ہائی کورٹ نے ماحول کو صاف ستھرارکھنے کیلئے اس پر مکمل طور پر پابندی عائد کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے پلوشن کنٹرول بورڈ سے کہا کہ اس کے خلاف سخت مہم چلائی جائے ۔معلوم رہے کہ ہائی کورٹ نے ریاست میں اس پر کئی بار پابندیاں عائد کیں اور سرکار سے کہا گیا کہ اس کی روک تھام کیلئے موثر اقدامات کئے جائیں لیکن اس حکم نامے پر کوئی بھی عمل در آمدمیں نہیںکیا گیا ۔کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ ارضیات کے سربراہ شکیل رامشو نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ پہلے سے ہی کشمیر میں ماحولیات کو بھگاڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی گئی ہے اور اب رہی سہی کسر بڑے پیمانے پرپا لی تھین کے استعمال سے ہو رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ سیاحتی مقامات پر پالی تھین کو ندی نالوں میں پھینکا جاتا ہے جس سے ماحولیات پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ پلاسٹک کی اشیاء زمین میں دفنانے کے بعد اسے ختم کرنے میںہزاروں سال کا وقت لگ جاتا ہے اور برسات کا پانی زمین میں جذب ہونے کے درمیان میں یہ حائل ہوجاتاہے اور زمین کی زرخیزی میں بھی کمی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ زمین کے اندر یا قدرتی آبی ذخائر میں پھینکنے، یا پھر دریائوں میں ڈال کر پینے کا پانی زہر آلودہ ہوتا ہے جس سے کئی طرح کی بیماریاں پھیلتی ہیں جن میں یرقان، تب دق، چھاتی کے امراض اور معدے کی مختلف بیماریاں شامل ہیں۔انہوں نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس کے استعمال کو ترک کر کے اس کی جگہ کپڑے کے تھیلوں کا استعمال کریں ۔محکمہ ایکسائز کے سیکشن افسر لکھن پور سبھاش کمار نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ اس پر تب تک پابندی عائد نہیں ہو گی جب تک نہ اس پر مقامی طور پر روک نہیں لگے گی کیونکہ جموں وکشمیر میں لوگوں کے پاس خود کی فیکٹریاں ہیں اور وہ پالی تھین کے بیگ بناتے ہیں۔ اس لئے بہتر ہو گا کہ ایسے کارخانوں کو فوری طور بند کیا جائے۔ پولیشن کنٹرول بورڈ کے ضلع افسر سرینگر بشیر احمد نے اس حوالے سے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ سال2009میں پلاسٹک اور پالی تھین پر مکمل طور پر پابندی عائد کی گئی تھی جس کے بعد 3فروری 2017میں محکمہ فاریسٹ نے ایس آر او 45کے تحت ایک آڈر جاری کیا جس میں انہوں نے ریاست میں 50مائکران پالی تھین کے استعمال کرنے کی اجازت دی، تاہم اس پر ستمبر2017 میں ہائی کورٹ نے ہدایت جاری کی کہ اس پر مکمل طور پر پابندی عائد رہے گی ۔انہوں نے کہا کہ عدالت کی جانب سے گذشتہ دنوں پلوشن کنڑول بورڈ کو ایک اور حکم نامہ ملا ہے جس میں انہوں نے ایس آر او 45کو بحال کیا ہے اور اس میں کئی ایک شرائط رکھی گئی ہیں کہ کسی بھی سیاحتی مقامات پر اس کا استعمال نہیں کیا جائے گا ۔ پالی تھین بیگ پر بنانے والے کارخانے کا نام لکھا ہونا چاہئے ۔