آج یو م محنت کشاں ہے ۔ ا س دن کی مناسبت سے دنیا میں مختلف تقاریب منعقد ہوتی ہے جن میں مزدوروں اور محنت کشوں کے مسائل اور مصائب اُجاگر کئے جاتے ہیں ۔اسلام بہ حیثیت آخری دین حق آجر اور اجیر کے معاملات اور تعلقات پر کافی روشنی ڈالتا ہے اور دونوں کو اپنے اپنے حقوق وفرائض کے کھونٹے سے باندھ لیتاہے ۔ اسلام کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ اس نے جہاں عالم انسانیت کو اس کے خالق حقیقی سے متعارف کرایا، اس کے حقوق بتائے اور اس سے تعلق استوار رکھنے کے طریقے بتائے وہیں ایک صالح، پرامن اور عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل کے لئے اسے آپس کے حقوق و فرائض کی بھی تعلیم دی۔ ان ہی حقوق،جنھیںحقوق العباد سے موسوم کیا جاتا ہے، کے زمرے میں مزدوروں اور محنت کشوں کے حقوق بھی آتے ہیں۔ اسلام نے سماج کے معاشی طور پرکمزور اس طبقہ کے حقوق کو اس وقت تسلیم کیا جب دنیا میں ان کے حقوق کے لئے لڑنے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ جدید دنیا کو یہ تصور یورپ کے صنعتی انقلاب (Industrial Revolution 1760-1830) کے بعد ہی ملا کیونکہ اس کے نتیجہ میں ہی انیسویں صدی عیسوی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں عالمی سطح پر مزدوروں کی تحریکیں (Labour Movements) چلیں اور ٹریڈ یونینوں (Trade Unions ) کا قیام عمل میں آیا جبکہ اسلام نے دنیا والوں کو یہ تصور ساتویں صدی عیسوی کے اوائل (610 – 632 AD) میںہی دیا کیونکہ یہی نزول قرآن کا زمانہ ہے ۔ لیکن یہ اہل مغرب کی بددیانتی ہے کہ انہوں نے اسلام کے اس قرض کو تسلیم (Acknowledge) کئے بغیر دنیا والوں کو یہ تأثر دیا کہ یہ ان ہی کی دین ہے۔ راقم نے آئندہ سطور میں مزدوروں کے ان حقوق کو ہی منظرعام پر لانے کی کوشش کی ہے جو اسلام نے انھیں عطا کئے ہیں اور جن کا ذکر قرآن و حدیث میں صراحتاً یا اشارۃً موجود ہے۔ آئیے دیکھیں کہ وہ حقوق کیا ہیں؟
۱۔ محنت و مزدوری کی آبرومندی (According dignity to labour): محنت و مزدوری کرنے کو سماج میں عموماً گھٹیا عمل تصور کیا جاتا ہے اور محنت کشوں کو عزت کا مقام نہیں دیا جاتا، عزت صرف سفید پوش پیشہ وروں (White Collor Workers) کو ہی دی جاتی ہے۔ اسلام کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے نہ صرف حلال روزی کمانے کو فرض قرار دیا بلکہ اپنے ہاتھ کے محنت کی روزی کو سب سے بہتر قرار دے کر مزدوروں اور محنت کشوں کو عزت کا مقام عطا کیا۔ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’حلال روزی کمانا فرض کے بعد ایک فرض ہے ـ‘‘۔ ( شعب الایمان للبیہقیؒ، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۲۰۰۰ء، حدیث نمبر ۸۷۴۱، بروایت عبداللہ بن مسعودؓ)۔ اور فرمایا: ’’کسی انسان نے اس شخص سے بہتر کوئی کھانا نہیں کھایا، جو اپنے ہاتھوں سے محنت کرکے کھاتا ہے ‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع، بروایت مقدام بن معدی کربؓ)۔ نیز یہ بھی فرمایا : ’’بہترین کمائی مزدور (کاریگر) کے ہاتھوں کی کمائی ہے جب کہ وہ خیرخواہی کے جذبہ سے کام کرے‘‘ ۔ (مسند احمد، دارالحدیث، قاہرہ،۱۹۹۵ء، حدیث نمبر۸۳۹۳، بروایت ابوہریرہؓ)۔ آپؐ کا یہ بھی ارشاد ہے: ’’ تم میں سے کوئی شخص اگر رسی لے کر لکڑیوں کا گٹھ لائے، پھر اسے فروخت کرے، (اور) اس کے باعث اللہ اس کی خودداری کو محفوظ رکھے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ لوگوں سے سوال کرے (پھر) اسے دیا جائے یا نہ دیا جائے۔ (صحیح بخاری، کتاب المساقاۃ، بروایت زبیر بن عوامؓ)۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’اگر کوئی شخص لکڑیوں کا گٹھ اپنی پیٹھ پر (بیچنے کے لئے) لیے پھرے (اور اس کی کمائی سے گزر بسر کرے ) تویہ بہتر ہے اس سے کہ کسی سے سوال کرے کہ وہ اسے دے یا نہ دے‘‘۔ (حوالہ بالا، بروایت ابوہریرہؓ)۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا : ’’بیشک اللہ تعالیٰ پیشہ ور (محنت و مزدوری کرنے والے) مسلمان کو محبوب رکھتا ہے‘‘ (معجم الأوسط للطبرانی، دارالحرمین، قاہرہ، ۱۹۹۵ء، حدیث نمبر ۸۹۳۴، بروایت عبداللہ بن عمرؓ) اور فرمایا: ’’جس نے ایسی حالت میں شام کیا کہ ( دن بھر) اپنے ہاتھ کی محنت کے باعث تھک گیا ہو، (توگویا) اس نے شام بخشی ہوئی حالت میں کیا‘‘۔ (معجم الأوسط للطبرانی، دارالحرمین، قاہرہ، ۱۹۹۵ء، حدیث نمبر ۷۵۲۰، بروایت ابن عباسؓ)۔مطلب یہ ہے کہ دن بھر کا تھکا ہوا مزدورشام ہوتے ہی اپنے گناہوں سے بخشش پاجاتا ہے۔
محنت و مزدوری کی فضیلت اور عظمت کو اس حقیقت کی روشنی میں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ انبیاء کرام علیم السلام نے بھی محنت و مزدوری کی ہے اور مختلف پیشوں کو اختیار کیا ہے۔ تمام انبیاء کا بکریاں چَرانا، خود رسول پاکؐ کااجرت پر بکریاں چرانا، موسٰیؑ کا مزدوری کرنا، دائودؑ کاذرہ بنانا یعنی پیشۂ آہن گری سے منسلک ہونا، زکریاؑ کا نجار ہونا صحیح روایات سے ثابت ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ محنت و مزدوری کرنا کوئی عار کی بات نہیں اور نہ ہی کوئی پیشہ حقیر ہے۔ جب اللہ کے ان برگزیدہ بندوں نے اپنے ہاتھوں سے محنت کرکے اپنی روزی حاصل کی ہے تو اور کسی کی کیا حقیقت ہے کہ مزدوری کرنے کو ننگ و عار سمجھے۔
۲۔ انسانی سلوک پانے کا حق(Right to get human treatment): آجر (Employer) اور اجیر (Labourer) کے مابین جو تعلق ہے اس کو سمجھنے میں قرآن کریم کی یہ آیت بہترین رہنمائی کرتی ہے: (ترجمہ):’’کیا یہ آپ کے رب کی رحمت کو تقسیم کرتے ہیں؟ ہم نے ہی دنیوی زندگی میں ان کی روزی تقسیم کررکھی ہے اور ہم نے ہی ایک کو دوسرے پر رفعت دے رکھی ہے تاکہ ایک دوسرے سے کام لیتا رہے اور آپ کے رب کی رحمت بدرجہا اس سے بہتر ہے جس کو یہ لوگ سمیٹتے پھرتے ہیں‘‘۔(الزّخرف:۳۲)۔ اس آیت میںدو اہم نکات ہیں؛ اول یہ کہ دنیا میں روزی کی تقسیم اور اس میں ایک کو دوسرے پر رفعت دینا اللہ ہی کا کام ہے یعنی کسی کا غریب یا امیر ہونا، آجر یا اجیر ہونا، حاکم یا محکوم ہونا اللہ ہی کی طرف سے ہے ، اس میں کسی کی ذاتی کاوشوں اور کمالات کا کوئی دخل نہیں پھر نہ آجر کو اپنے اوپر فخر و غرور کا حق حاصل ہے اور نہ مزدور کو احساس کمتری کا شکار ہونے کی ضرورت۔ دوئم یہ کہ قرآن نے روزی کی اس تقسیم کی حکمت یہ بیان کی کہ ایک کو دوسرے پر فوقیت دینا محض عالم کے نظام کو چلانے کے لئے ہے تاکہ ایک دوسرے کے کام آسکے کیونکہ اگر سارے لو گ معاشی طور پر ایک ہی سطح پر آجائیں جیسا کہ اشتراکی ذہن رکھنے والوں کا تصور ہے تو پھر کوئی کسی کا کام کیوں کرے گا؟ چنانچہ مشاہدہ ہے کہ امراء اپنی بہت سی ضروریات کی تکمیل کے لئے غرباء پر انحصار کرتے ہیں اور غرباء کی بہت سی ضرورتیں امراء سے وابستہ ہیں۔ اسی طرح آجر کا انحصار مزدوروں پر ہے اور مزدوروں کا آجر پر۔ کل کارخانے اورفیکٹریاں کروڑوں کا سرمایہ ہوتے ہوئے بھی مزدوروں کے بغیر ایک کباڑ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ مزدور اور کارکن کی حیثیت کسی بھی ادارہ، فیکٹری یا کارخانے کے لئے ایسے ہی ہے جیسے بدن کے لئے روح کی ہوتی ہے ۔ اس طرح آجر اور مزدور کے درمیان رشتہ کی بنیاد فطری اور انسانی ہے اس لئے نہ ہی آجر کے لئے مزدوروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا ہے اور نہ ہی مزدوروں کو آجر کے استحصال کی اجازت۔ رسول پاکؐ نے بھی اپنے مملوک کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اپنے مملوک(باندی وغلام) کے ساتھ برائی وبدسلوکی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا‘‘۔ (ترمذی، ابواب البر و الصلۃ، بروایت ابوبکر ؓ)۔ اور فرمایا: ’’اپنے مملوک کے ساتھ بھلائی اور حسن سلوک خیر و برکت (کا باعث) ہے اور اپنے مملوک کے ساتھ بدسلوکی نحوست (بے برکتی کاباعث) ہے‘‘۔ (سنن ابودائود، کتاب الأَدَب، بروایت رافع بن مکیثؓ)۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب مملوک (غلام و باندی) کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہے تو ایک آزاد مزدور حسن سلوک کابدرجہ اولیٰ حقدار ہوگا۔
۳۔ کسب کے اختیار کی آزادی :(Freedom to choose occupation) اسلام نے انسانوں کو عام آزادی دی ہے کہ وہ جو چاہے کسب اختیار کریں صرف اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ کسب جائز ہو اور اخلاقی اعتبار سے گرا ہوا نہ ہو۔ اللہ کا ارشاد ہے: (ترجمہ): ’’اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ مگر یہ کہ تمھاری باہمی رضامندی سے کوئی خرید و فروخت ہو اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، یقینا اللہ تم پر نہایت مہربان ہے‘‘۔ (النسآء:۲۹)۔ اس آیت میں لفظ ’باطل‘ کااستعمال کر کے اللہ نے حصول رزق کے تمام ناجائز اسباب کو ممنوع قرار دے دیااور ان کے اختیار کرنے کو انسانی معاشرے کا قتل بتایاہے۔ رسول پاکؐ کا بھی ارشاد ہے: ’’اے لوگو! اللہ سے ڈرو اور روزی کی طلب میں راہ اعتدال اختیار کرو اس لئے کہ کسی شخص کو موت نہیں آتی جب تک کہ وہ اپنا پورا رزق حاصل نہ کرلے اگرچہ وہ اس کو کچھ تاخیر سے ملے ، تو اللہ سے ڈرو اور احسن طریقہ سے روزی طلب کرو، جو حلال ہے اس کو لے لو اور حرام کو چھوڑدو ‘‘۔(سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، بروایت جابرؓ بن عبداللہ )۔ ابن حبانؒ نے اسی مضمون کی روایت دوسرے طرق سے الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ نقل کی ہے جس میں یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’رزق کی طرف جلدبازی نہ کیا کرو کیوں کہ بندہ اس وقت تک نہیں مرتاجب تک اس کے نصیب کا آخری رزق اس تک نہیں پہنچ جاتا اور اس کی طلب میں اعتدال (خودداری اور شریعت کے حق) کا خیال رکھوکہ حلال کو حاصل کیا کرو اور حرام کو چھوڑ دیا کرو‘‘۔ (صحیح ابن حبان، کتاب الزَّکوٰۃ، بروایت جابرؓ بن عبداللہ)۔
قرآن کریم نے اس سلسلہ میںایک اور اہم اصول دیا ہے: (ترجمہ): ’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی اعانت کرو اور ظلم وزیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت نہ کرو‘‘۔(المآئدہ:۲)۔ یعنی اگر کسی شخص کی مزدوری نیکی اور تقویٰ کے کاموں میںبلاواسطہ یابالواسطہ مددگار ہو تو ایسی مزدوری مستحسن ہے اور اگر کسی شخص کی مزدوری سے بلاواسطہ یابالواسطہ گناہ کے کاموں میں اعانت ہورہی ہو تو ایسی مزدوری ناجائز اور اللہ کی پکڑ کا موجب ہے۔ مثلاًشراب کی فیکٹری میں مزدوری کرناایک حرام شے کے فروغ میںمدد کرنا ہے، فلموں اورسنیما ہالوں میں کام کرنابے حیائی کی اشاعت میںمدد گاربننے کے مترادف ہے اور اسی طرح نقلی دواؤں اور منشیات کی فیکٹریوں میں کام کرنا ظلم و زیادتی کے فروغ میں مدد گار بننے کے مترادف ہے۔ اسی اصول پرمزدوری کی مختلف شکلوں کے بارے میں قیاس کیا جاسکتا ہے۔
۴۔ منتقلی کی آزادی(Freedom of mobility): اسلام نے مزدوروں کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اللہ کی زمین میں جہاں چاہیں جائیں اور اپنی روزی تلاش کریں، کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ انھیں کسی خاص خطہ میںمحصور کرکے رکھے یا کسی خطہ سے نکل جانے پر مجبور کرے الّا یہ کہ کسی دوسری معقول وجہ سے ایساکرنا جائز ہو۔ اللہ کا ارشاد ہے: (ترجمہ):’’وہ (اللہ) ایسا (منعم)ہے کہ جس نے تمھارے لئے زمین کو مسخر کردیا تاکہ تم اس کی راہوں میںچلو پھرو اور اللہ کی روزی میں سے کھائو (پیو) اور کھا پی کر اس کو بھی یاد رکھنا کہ اسی کے پاس دوبارہ زندہ ہوکر جانا ہے‘‘۔ (الملک:۱۵)۔ اور دوسری جگہ فرمایا: ( ترجمہ): ’’پھر جب نماز ہوچکے تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل (رزق) تلاش کرو ‘‘۔ (الجمعۃ:۱۰)۔ ان آیات میں روزی کی تلاش میںزمین میں پھیل جانے کا عام حکم موجود ہے لہٰذا اصولی طور ہر محنت کش کو یہ حق حاصل ہو گیا۔
۵۔ کام سے پہلے مزدوری جان لینے کا حق(Right to know wages before work) آجر کے لئے اسلامی اصول یہ ہے کہ وہ کام کی نوعیت بتاکرمزدور سے اس کی مزدوری پہلے طے کرلے پھر کام پر لگائے۔ اس میں آجر اور اجیرکے مابین بعدمیں پیدا ہونے والے تنازعات سے حفاظت ہے ۔ قرآن کریم میں اس کا اشارہ ان آیات میں ملتا ہے جس میں موسیٰؑ اور شعیبؑ کے درمیان خدمت کے معاملات کے طے ہونے کا ذکر ہے۔ آیات یہ ہیں: (ترجمہ): ’’ان دونوں (لڑکیوں) میں سے ایک نے کہا کہ ابا جی! آپ انہیں (موسیٰؑ کو)مزدوری پر رکھ لیجیے کیونکہ جنھیں آپ مزدوری پر رکھیں ان میں سب سے بہتر وہ ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو۔ اس بزرگ نے کہا میں اپنی دونوں لڑکیوں میں سے ایک کو آپ کے نکاح میں دینا چاہتا ہوں اس شرط پر کہ آپ آٹھ سال تک میرا کام کاج کردیں۔ ہاں اگر آپ دس سال پورے کریں تو یہ آپ کی طرف سے بطور احسان کے ہوگا، میںیہ ہرگز نہیں چاہتا کہ آپ کو کسی مشقت میں ڈالوں، ان شاء اللہ آپ مجھے بھلا آدمی پائیں گے۔ موسیٰؑ نے کہا، خیر تو یہ بات میرے اور آپ کے درمیان پختہ ہوگئی، میں ان دونوں مدتوں میں سے جسے پورا کروں مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو، ہم یہ جو کچھ کررہے ہیںاس پر اللہ (گواہ اور ) کارساز ہے‘‘۔ ان آیات کے اندر موسیٰؑ کی مزدوری کا جو ذکر ہے اس کو اکثر علماء نے مہر سے تعبیر کیا ہے لیکن ابن ماجہ کی ایک روایت کے مطابق حضورؐ کا یہ فرمانا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی شرمگاہ بچانے اور پیٹ بھرنے کے لئے اپنے آپ کو آٹھ سال یا دس سال مزدوری میں دے رکھا تھا (سنن ابن ماجہ، کتابُ الرُّھُوْن، بروایت عتبہ بن منذرؓ) ا ور لفظ’آجَرَ‘ کا استعمال کرنا یہ بتاتا ہے کہ یہ بہرحال مزدوری تھی اور اس کے معاملات پہلے طے کرلئے گئے تھے اور یہی اس امت کے آجروں کے لئے رہنما اصولوں میں سے ہے ۔پھر رسول پاکﷺ سے اس سلسلہ میں صراحت کے ساتھ اقوال بھی منقول ہیں۔ مثلًا روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے جب کوئی کسی کو اجرت اور مزدوری پر رکھنا چاہے تو اسے اس کی مزدوری بتادے‘‘۔ (کنز العمال فی سنن الاقوال و افعال، بیت الافکا الدولیۃ، اردن، ۲۰۰۵ء، حدیث نمبر ۹۱۲۴، قط فی الافراد عن ابن مسعودؓ)۔
رابطہ سابق ڈین، فیکلٹی آف ایجوکیشن، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ
(موبائل: 09471867108 ،
ای میل[email protected] )
(بقیہ بدھ کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)