میرواعظ مولوی محمد عمر فاروق نے گزشتہ دنوں ایک ایسے مسئلے کی نشاندہی کی جو موجودہ حالات میں کشمیر کے مسلم سماج کا ایک انتہائی گھمبیر اور تشویشناک مسئلہ بن چکا ہے لیکن جس کو ابھی تک دانستہ طور پر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے ۔میر واعظ مولوی محمد فاروق جو حریت کانفرنس (ع)کے چیرمین ہونے کے ساتھ ساتھ متحدہ مجلس علماء جموں و کشمیر کے امیر بھی ہیںنے گزشتہ جمعرات کو انجمن نصرۃ الاسلام با ئز ہائر سیکنڈری سکول کے مرکزی آڈیٹوریم میں منعقدہ سیرتی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عوام سے کہا کہ وہ ایسے نام نہاد خطیبوں کا بائیکاٹ کریں جو فروعی مسائل کو بنیاد بناکر ایک دوسرے کے خلاف فتوے بازی کررہے ہیں ۔انہوں نے متنبہ کیا کہ ایسے عناصر کو برداشت نہیں کیا جائے گا کیونکہ اسلام اتحاد کا داعی ہے نفاق اور فرقہ بندی کا نہیں ۔
چنانچہ جو لوگ مسلکی منافرت اور فروعی معاملات کو ہوا دیگر ملت میں انتشار اور افتراق پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں وہ دین کی کوئی خدمت نہیں کررہے ہیں ۔ میر واعظ سے پہلے بزرگ رہنما سید علی شاہ گیلانی کے علاوہ بھی کئی رہنما اس مسئلے کی جانب مختلف مواقع پر اشارہ کرچکے ہیں کیونکہ کافی عرصے سے اس تشویش ناک معاملے کو تحریک مزاحمت کے رہنما ، علماء اور دانشور محسوس کرتے جارہے ہیں اور اس کے نتائج کو بھی سمجھ رہے ہیں لیکن اس کے خلاف اپنے جذبات کا کھل کر اظہار نہیں کررہے ہیں ۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ انہیں یہ خدشہ لاحق ہے کہ اس کے خلاف کھل کر بات کرنے یا کوئی مہم شروع کرنے سے مزید نفاق پیدا نہ ہو جوایک ایسے وسیع تر انتشار کی وجہ بن جائے کہ تحریک مزاحمت بھی اس کے نیچے دب کر رہ جائے ۔
یہ خدشہ بے بنیاد نہیںاور آج بھی اس کے امکانات موجود ہیں کہ اصلاح کی کوشش تباہ کن صورتحال پیدا کرسکتی ہے لیکن اس خدشے کے پیش نظر اس مسئلے کو نظر انداز کرنا اس سے بھی زیادہ بڑی غلطی ثابت ہوسکتی ہے ۔چنانچہ معاملہ انتہائی نازک ہے اور پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ۔گزشتہ ایک دہائی سے منافرت کا ماحول تیار کرنے کیلئے خاموشی کے ساتھ ہمہ گیر کوششیں جاری ہیں اور ایک وسیع تر نفاق کیلئے کافی حد تک زمین ہموار کرلی گئی ہے ۔اس عرصے میں حیرت انگیز طور پر خطیبوں اور مولویوں کے ایسے گروپ نمودار ہوئے ہیں جو کھلم کھلا ایک دوسرے کے خلاف زہر اگل رہے ہیں ۔ایک دوسرے کے مسلکوں پر کھل کر وار کررہے ہیں ۔ ایک دوسرے کو کافر اور اسلام مخالف قرار دے رہے ہیں اور مسلمانوں کو مسلکی بنیادوں پر ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ا کررہے ہیں ۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ عام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کئی ایسے ادارے بھی نادانستہ طور پر تقسیم کے اس نامعلوم منصوبے کی تکمیل میں ملوث ہورہے ہیں جنہوں نے نہ صرف دین کی تبلیغ و ترویج میں بہت ہی اہم اور قابل قدر کردار ادا کیا ہے بلکہ آج بھی ان کے خلوص اور ان کی نیک نیتی پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی ہے ۔وہ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ مسجدیںبھی مسلکوں میں بانٹی جارہی ہیں ۔ درس گاہیں اوردیگر ادارے بھی مسلکوں میں تقسیم کئے جارہے ہیں ۔کسی مسجد کا نام حنفیہ رکھا جارہا ہے اورکسی کا اہلحدیث ۔ کوئی مسجد اہل جماعت کی ہے تو کوئی شافعی لیکن وہ یا تو اس کی گروہی تقسیم تسلیم نہیں کررہے ہیں یا جان بوجھ کر اپنی آنکھیں بند کررہے ہیں حالانکہ مسجد خدا کا گھر ہے اور خدا کے گھر کو خدا کے بغیر کسی سے کیسے منسوب کیا جاسکتا ہے خاص طور پر مسلکوں سے ۔
اس کا نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ اس طرح سے عام مسلمانوں میں جو ذہنی رویہ پیدا ہوتا ہے وہ ان خطیبوں کیلئے بڑی آسانیاں پیدا کرتا ہے جو مسلکی منافرت پھیلانے کے درپے ہوتے ہیں ۔ آ ج مسلکی منانفرت کا جو طوفان پیدا کیا جارہا ہے اس کا پھیلاو اسی وجہ سے وسیع تر ہورہا ہے اور امت مسلمہ باہمی جھگڑوں کی آماجگاہ بن رہی ہے ۔مسجدیں گروہوں میں بانٹنے کا سلسلہ تو بہت پرانا ہے، اب مزار بھی بٹ رہے ہیں ۔میرا اس سلسلے میں ذاتی تجربہ ہے ۔
جب میں نے رہائش کیلئے نیا مکان خریداتو نزدیک ہی اپنے اوراپنے کنبے کے لئے آخری آرام گاہ کی جگہ بھی تلاش کرنی شروع کی لیکن میرے نئے ہمسایوں نے اپنے مزار میں مجھے اس لئے جگہ نہیں دی کہ انہیں میرے متعلق کوئی معلومات حاصل نہیں تھیں کہ میں کیسا مسلمان ہوں ۔آستانوں پر حاضری دیتا ہوں یا نہیں ۔ختم شریف پڑھاتا ہوں یا نہیں وغیرہ ۔ بسیار تلاش کے بعد معلوم ہوا کہ ایک قبرستان ہے جہاں جگہ مل سکتی ہے ۔ ذرا دور تھا لیکن اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں تھا کہ اس میں جگہ حاصل کرلوں ۔ وہاں جاکر جگہ دینے سے انکار تو نہیں کیا گیا تاہم کچھ شرائط عاید کردی گئیں۔ مجھے شرائط پر کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن یہ بات مجروح کرگئی کہ مرد ہ جسم کیلئے دوگز زمین بھی اب شرائط کے بغیر نہیں ملتی ۔چنانچہ میرا کوئی مزار نہیں کیونکہ میرا کوئی مسلک نہیں ۔ میں صرف مسلمان ہوں اور اللہ ہی جانتا ہے کہ مرنے کے بعد میرا کیا ہوگا ۔
میر واعظ عمر فاروق نے جس سیرتی مجلس میں اس خطرے کی کھل کر نشاندہی کی اس میں کشمیر کے سرکرد ہ علماء ، معززین اور دانشور موجود تھے ۔میرواعظ نے اعلان کیا کہ اس حساس مسئلہ پر غور و خوض کرنے اور ایک اجتماعی حکمت عملی ترتیب دینے کے لئے بہت جلد متحدہ مجلس علماء کا اجلاس طلب کیا جائے گا جس میں تمام مسالک سے وابستہ ذمہ دار علماء اور دینی انجمنوں کو دعوت دی جائے گی تاکہ ملت میں انتشار ی کیفیت پیدا کرنے والے عناصر کی سرگرمیوں پر روک لگائی جاسکے۔ان کی یہ پہل بے شک ایک امید افزاء کوشش ہے لیکن اس مید کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ اس سے پہلے متحد ہ مجلس علماء کی طرف سے کئی اہم سماجی معاملات ابھارے گئے اور ان کے بارے میں اسی طرح کے عزائم کا اظہا ر بھی کیا لیکن بعد میں عملی طور زمینی سطح پر کوئی ایسی کوشش دیکھنے میں نہیں آئی جو یہ یقین کرنے کیلئے کافی ہوتی کہ اس بار بھی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے ساتھ امت مسلمہ کو ایک بہت بڑی بلا سے بچایا جاسکے گا ۔زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب متحدہ مجلس علماء نے بے راہ روی اور سماجی بدعات کیخلاف منظم مہم شروع کرنے کا اعلان کیا لیکن یہ اعلان بعد میں اعلان ہی کی حد تک محدود رہا ۔حالانکہ علماء کی سنجیدہ کوششیں یقینی طورپر ایسی تبدیلیاں پیدا کرسکتی تھیں جو غلط رویوں کو پیدا ہونے سے روکنے میں مددگار ہوتی ۔
متحدہ مجلس علماء میں بااثر مذہبی تنظیمیں اور شخصیتیں شامل ہیں جن کی مشترکہ کوشش ہر علت کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی لیکن کہیں نہ کہیں عزم و ارادے میں کوئی جھول یا کوئی کمی ہے جو نتائج تک پہونچنے میں حائل ہورہی ہیں ۔ ہمارے سرکردہ اور معتبر علماء جانتے ہیں کہ اس وقت اختلاف کی بنیاد ان باتوں کو بنایا جارہاہے جن کا اسلام کے بنیادی نظرئیے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ ایسے معاملات اٹھائے جارہے ہیں جو حقیقت میں اسلام کے اصولوں سے کوئی واسطہ ہی نہیںرکھتے ۔اسلام ایک نظر یہ ہے جو آدمی کو ایسا انسان بناتا ہے جو سراپا رحمت ہواورایسے ہی انسانوں سے جو سماج بنتا ہے وہ دنیا کے لئے ایک مثالی سماج ہوگا ۔
اسلام کی بنیاد اللہ تعالے کی وحدت پر ایمان اور عبادات ہیں جو انسان کے شیطانی حصائل کو مٹاکر اسے رحمت ، محبت اور شفقت کا پیکر بناتا ہے ۔جوعبادت انسان کے اندر ایسے خصائل پیدا نہ کرے وہ عبادت کسی کام کی نہیں ۔ لیکن بعض مولویوں اور خطیبوںنے اسلام کے نظریات کو سرے سے ہی فراموش کرکے مسلمان کو جنت اور جہنم کی بھول بھلیوں میں الجھا کر اس کے اندر نفرتیں ہی تفرتیں بھردی ہیں اور ان نفرتوں کا حدف زیادہ تر مسلمان ہی ہے ۔بعض خطیب اہل تشعیہ کو دین اسلام سے خارج کررہے ہیں اور بعض اہل حدیث کو ، بعض حنفی مسلک کی مخالفت ہیں اور بعض ان بھولے بھالے مسلمانوں کیخلاف معرکہ آراء ہیں جو اپنی لاعلمی سے وجہ سے اسلام کو سمجھ ہی نہیں پائے ہیں ۔ کم علمی اور نادانی کی وجہ سے ان کے عقیدے دین کے برعکس اور برخلاف ہیں ۔وہ نماز اس لئے پڑھتے ہیں تاکہ اللہ ان کی عبادت کے صلے میں انہیں زیادہ سے زیادہ دولت ملے ۔اللہ ان کے بچوں کو ہر امتحان میں پاس کرے اور اچھی نوکریاں عطا کرے ۔ہر عبادت وہ اپنے ہی لئے کرتے ہیں اللہ کے لئے نہیں ۔انہیں کس طرح سے سمجھایا جائے اور صحیح راستہ دکھایا جائے یہ کوئی آساں کام نہیں بہت مشکل کام ہے اور یہی کام علما ء ، مبلغین ، امام صاحبان اور خطیبوں کا پہلا اور آخری فرض ہے ۔لیکن یہ تلخ سچائی ہے کہ بڑے بڑے مسلکوں کے نام پر ہم عالیشان اور شاندار مسجدیں تعمیر کرتے ہیں جن میں علماء کے پرجوش اور پر مغز خطاب مقتدین کو رلاتے بھی ہیں اور جذبات کی دنیا میں غرق بھی کرتے ہیں لیکن مسجد کے برآمدے میں جو نلکہ ہوتا ہے اس کے ساتھ پانی پینے کا گلاس بھی لوہے کی زنجیر سے باندھنا پڑتا ہے تاکہ کوئی نمازی جاتے وقت اسے چرا کر نہ لے جائے ۔اگر مسلک ، خطیب ، امام اور کمبلغ اپنے خطابوں سے ایسے مسلمان بھی تیار نہ کرسکیں کہ پانی پینے کا گلاس بھی زنجیر سے باندھنا پڑے تو بڑے دقیق مسئلوں پر بات کرنے کا انہیں حق ہی کیا ہے ۔
مسلمانوں کو دین سمجھانے کی ضرورت ہے نہ کہ انہیں اسلام سے خارج کرکے ان کیخلاف محاذ کھڑا کرنے کی ۔ اسلام کا مسلکوں سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اسلام رحمتن للعالمین کی تعلیمات اورقرآن کے دستور کے باہر کچھ بھی نہیں ہے ۔نہ پیغمبر اسلام کا کوئی مسلک تھا اورنہ ہی قرآن کسی مسلک کی تعلیم دیتا ہے ۔اسلام اورپیغمبر اسلام کا پیغام نہایت ہی سادہ اور سیدھا ہے کہ ایک انسان اپنے ہر عمل میں اللہ کے احکامات کی پیروی کرے اور عمل کردار کا نام ہے نہ کہ وضع قطع اورلباس کا نہ ہی تاریخ اسلام کے اتار چڑھاو اور اس کے کردار اسلام کے بنیادی نظرئیے سے کوئی تعلق رکھتے ہیں ۔اس لئے خطیبوں کے خطاب کا زور صرف اس بات پر ہونا چاہئے تھا کہ مسلمان کا کردار کیسا ہو ۔ اس کا عمل کیسا ہو ۔ لیکن افسوس مبلغ ، امام ، خطیب اورمولوی مسلمانوں سے کبھی کبھی ہی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ جو مسلمان رشوت لے گا ، جو جھوٹ بولے گا ، جو منافقت کرے گا ، جو دوسرے مسلمان کی ہرزہ سرائی کرے گا ، جو منافع خوری کرے گا ، جوبجلی اور پانی کا غلط استعمال کریگا،جوگرد و نواح کی صفائی کا خیال نہیں رکھے گا ، جو تجاوزات کا جرم کرے گا اور جو اپنے فرائض سے کوتاہی کرے گا اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔
اس کے برعکس یہ کہا جارہا ہے کہ جو وضو ایسے کرے گا ، جو کپڑے اسطرح سے پہنے گا اور جو ایسے ایسے مسلکوںکی مخالفت کرے گا جنت میں جائے گا ۔جمعہ کے روز امام صاحبان زکواۃاور علم کی اہمیت بیان کرنے کو اہمیت نہیں دیتے اور زکواۃ کاایسا نظام تیار کرنے میںبھی ہمارے علماء ناکام ہیں جس سے زکوٰۃ سے مستحق لوگ ہی مستفید ہوسکیں ۔ صرف اپنی اپنی دکانیں چلائی جارہی ہیں یہی ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے اوراگر میر واعظ عمر فاروق ان اہم معاملات پر متفقہ رائے قائم کرانے میں کامیاب ہوں تو یہ عظیم کام ہوگا ۔قران کریم کی تعلیمات مساجد میں خطیبوں اور علماء کی توجہ کا مرکز نہیں ہوتی ہیں بلکہ عام طور پر فروعی مسائل پر ہی زیادہ زور دیا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ عام مسلمان اسلام کی اصل تعلیمات کو فراموش کرکے فروعی مسائل میں الجھتا جارہا ہے ۔اماموں اور خطیبوں کو اس بات کا پابند بنایاجانا لازمی ہے کہ وہ قرآ ن کی آیات پڑھنے اور اس کی تفسیر اورتشریح کے علاوہ اور کوئی مسئلہ نہ اٹھائیں کیونکہ قرآ ن کو مسلمان اور بہتر طور پر سمجھ سکے تو اس کے لئے کسی دنیاوی مسئلے پر صحیح اور اسلامی سوچ پیدا کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوگئی ۔
پھر کسی امام اور خطیب کیلئے کسی اور مسئلے پر بات کرنے کی ضٗرورت ہی نہیں رہے گی ۔ احادیث نبوی قرآنی آیات کی تشریح کا ایک بہتر ذریعہ ہے لیکن ہر آیت کی مناسبت سے احادیت کو بیان کرنے کیلئے وسیع تر علم کی ضرورت ہے اس لحاظ سے زور زور سے چیخنے اور چلانے والے بہت سے خطیب اس قابل ہی نہیں ہیں کہ وہ خطابت کا فرض انجام دیں ۔ متحدہ مجلس علماء کو ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ پوری صورتحال پر گہرے غور و فکر کے بعد فیصلے کرنے ہوں گے اور ایک منصوبہ بند اور منظم فکر اور عمل کے ساتھ کام کرنا ہوگا اور اگر و ہ ایسا کرسکیں گے تو یہ اسلام کی وہ خدمت ہوگی جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا ۔اگر ہم تایخ اسلامی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ آج ہمارے یہاں جو صورتحال ہے ایسی صورتحال اکثر بار امت مسلمہ کے اندر پیدا ہوئی اور جس وقت بھی ایسی صورتحال کو بہتر طور پر سنبھالا نہیں جاسکا امت کو وہ زخم ملے جو تاریخ کے المیے بن کر رہ گئے ۔
( ماخذ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر)