کرناٹک میں ۱۲؍مئی کو ہونے والے اسمبلی الیکشن کی گہما گہمی عروج پر ہے۔کانگریس کے لئے اِس ریاست کو بچا لینا اشد ضروری ہے کیونکہ اسی کی بنیاد پر آئندہ کی حکمت عملیاں ترتیب دی جائیں گی اور کانگریس صدر راہل گاندھی کواِن معنوں میں قبولیت مل جائے گی کہ دوسری حزب ِ اختلاف کی پارٹیاں راہل ان کی قیادت پر بھروسہ کرنے لگیں گی۔یہاں کی کامیابی یہ طے کرے گی کہ ۲۰۱۹ء کے عام چناؤ میںراہل مشترکہ اپوزیشن کے قائد بن کر اُبھریں گے یا نہیں۔ویسے کرناٹک کے بعد ۳؍ ہندی ریاستوں مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان کے اسمبلی الیکشن بھی اسی برس کے اخیر میں ہونے والے ہیں جن کے نتائج عام چناؤ کو یقیناً متاثر کریں گے جہاں پر ابھی بی جے پی کی حکمرانی ہے۔بی جے پی تو چاہے گی کہ اُس کی حکمرانی والی ریاستیں اُس کے ہاتھ سے نہ جائیں لیکن موجودہ حالات میںاُن ریاستوں میں بی جے پی کا ٹِک پانا ذرا مشکل لگ رہا ہے کیونکہ ان ریاستوں میںعوام کی بی جے پی سے ناراضگیبہت واضح طور پر نظر آرہی ہے،چونکہ وہاں اور کوئی پارٹی نہیں ہے اسلئے فائدہ کانگریس ہی کو ملے گا۔اُس وقت بھی (جیتنے کی صورت میں)کانگریس کو ایک تازہ قوت ملے گی اور راہل گاندھی کی قیادت میں مزید نکھار آئے گا۔مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ کو پارٹی کا صوبائی صدراور جیوترادتیہ سندھیا کو انتخابی مہم کا انچارج بنا کر راہل گاندھی نے پارٹی میں موجود گروہ بندی کو تقریباً ختم کر دیا ہے۔دِگ وجے سنگھ نے موجودہ حالات میں خود کو ڈھال لیا ہے اور وہ کسی عہدے کے دعویدار بھی نہیں ہیں کیونکہ ان کی شبیہ ایک مسلم حامی کی رہی ہے یا بن چکی ہے۔ اگر وہ کسی طرح کی حماقت کرتے ہیں(جو شاید وہ نہیں کریں گے) تو انہیں باہر کا راستہ بھی دکھایا جا سکتا ہے۔اس لئے مدھیہ پردیش میں کانگریس کی واپسی تقریباً طے ہے۔غریبوں کو رعایتی قیمت پر پردھان منتری اسکیم کے تحت گھر دینے اور اُس گھر کے ٹائلوں پر وزیر اعظم نریندر مودی اوروزیر اعلیٰ چوہان کی تصاویر بھی شاید انہیں شکست سے نہ بچا سکیں۔یہ کتنی بچکانہ اور جاہلانہ پیش رفت ہے اور یہ آئیڈیا پردھان سیوک کے سوا اور کسی کا ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ انہیں ہی ہر جگہ اپنی تصویر چھپوانے کا ’ہوکا‘ ہے ۔انہیں پتہ ہے بھی یا نہیں کہ ۶۰؍فیصد سے زیادہ عوام انہیں پسند نہیں کرتے،ایسے میں خود کو زبردستی پسند کروانے کی حرکت کی جا رہی ہے۔ظاہر ہے کہ جو لوگ مودی اور چوہان کو پسند نہیں کرتے، وہ اپنے گھروں سے اُن مخصوص ٹائلوں کو نکال پھینکیں گے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جاتے جاتے چوہان حکومت کوئی ایسا قانون بنا کر جائے گی کہ اُن ٹائلوں کے ساتھ’ بے حرمتی‘ نہ ہو؟
راجستھان میں سچن پائلٹ اچھا کام کر رہے ہیں اور راہل گاندھی کوان پر پورا بھروسہ بھی ہے۔وسندھرا راجے سندھیا کی بی جے پی حکومت سے وہاں کے عوام عاجز آچکے ہیں اور وہ تبدیلی چاہتے ہیں۔ضمنی انتخابات میں انہوں نے اپنا عندیہ ظاہر کر دیا ہے۔وہاں بھی کانگریس کے علاوہ کوئی دوسری پارٹی نہیں ہے ۔اسی طرح چھتیس گڑھ میں بھی مقابلہ کانگریس اور بی جے پی کے ساتھ ہی ہے۔بی جے پی کے موجودہ وزیر اعلیٰ رمن سنگھ پر بدعنوانی کے الزامات ہیں اور کانگریس اِس پوزیشن میں ہے کہ انہیں مات دے سکے۔اگرچہ کبھی کے باغی کانگریسی اجیت یوگی کانگریس کو تھوڑا بہت نقصان پہنچا سکتے ہیں لیکن دس بارہ برسوں میں وہ کوئی خاطر خواہ طاقت نہیں بن سکے۔اگر وہ کانگریس میں ہوتے تو بات کچھ اور ہوتی ۔اس لئے کانگریس کی واپسی وہاںبھی ممکن ہے۔لیکن پرنٹ اور برقی میڈیا پھر بھی اِن تینوں ریاستوں کے ممکنہ نتائج والے سروے یعنی اوپی نین پول میں بی جے پی کو سبقت لیتے ہوئے دکھائیں گے جس طرح ابھی کرناٹک میں دکھا رہے ہیں۔
کرناٹک کے انتخابات اور سیاست پر غور کریں تو شروع ہی سے کانگریسی وزیر اعلیٰ سدّا رمیااپنی پیش رفت بنائے ہوئے ہیں اور اپنی حکمت عملیوں سے ہمیشہ ہی خبروں میں ہیں۔پہلے پہل بنگلور کے میٹروں اسٹیشنوں پر’ ہندی‘ کی مخالفت کی حمایت میں وہ کھلے طور پر آئے اور اپنے لوگوں کو یہ باور کرا دیا کہ بی جے پی ایک’ ہندی پارٹی ‘ہے اور کرناٹک پر ہندی تھوپنا چاہتی ہے جو انہیں قطعی قابل ِ قبول نہیں ہے۔اُن کے لوگوں نے ان کے اس اقدام کو سراہا۔اس کے بعد وہ کرناٹک کا ایک الگ’جھنڈا‘ لے کر آئے اور ترنگے کے ساتھ ساتھ ہر سرکاری دفتر میں اس کے استعمال کو لازمی قرار دیا۔اسے بھی لوگوں نے پسند کیا۔ٹیپو سلطان کو شہیدِ وطن کا درجہ دینے میںبھی وہ نہیں ہچکچائے جبکہ بی جے پی والے ٹیپو کو غدارِ وطن ثابت کرنے کی کوشش میں غلطاں رہتے ہیں۔سدارمیا کی اس موقف کو بھی حمایت ملی۔لنگایت کو الگ مذہب قرار دے کر اپنی کابینہ سے پاس کروانے کے بعدسدا رمیا نے مرکزی حکومت کو وہ بِل بھیج دیا۔یہاں بھی انہوں نے بازی مار لی اور بی جے پی کے وزیر اعلیٰ کے امیدوار یدی یو رپا جو خیر سے لنگایت ہیں ،منہ دیکھتے رہ گئے حالانکہ وہ اِس کاز کی حمایت کر چکے ہیں۔ بی جے پی کی مرکزی قیادت سدارمیا پر الزام لگاتی رہی کہ وہ ’ہندو سماج‘ کو منقسم کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اپنے ہدف میں کامیاب رہے۔اب جو ۱۷؍ فیصد کے قریب’ لنگایت سماج ‘کے ووٹ ہیں وہ بیشتر کانگریس کو جائیں گے،اِس میں کوئی شک نہیں ہے۔
اِن تمام کے باوجود بھی ’اوپی نین پول‘( ممکنہ نتائج) کرناٹک میں معلق اسمبلی کی وکالت کر ررہے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ زیادہ تر کانگریس کو ہی بڑی پارٹی گردان رہے ہیں لیکن بی جے پی کو بھی کانگریس کے برابر ہی نشستیں دے رہے ہیں دو چار کم۔اِس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ برقی میڈیا والے اِس الیکشن کی دلچسپی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔وگرنہ اگر بغور جائزہ لیا جائے توسچ پوچھئے تو بی جے پی شروع سے مقابلے میں تھی ہی نہیں۔پہلے والی اسمبلی میں موجود ۴۰؍ سیٹیں ہی بی جے پی اگر بچا لے تو غنیمت ہے لیکن میڈیا والے ایسا نہیں کہیں گے۔جنتا دل سیکولر جسے ’کِنگ میکر‘ کے بطور پیش کیا جا رہا ہے ،سچ پوچھئے تو ۲۰؍-۲۲؍ سیٹیں بمشکل نکال پائے گا۔ایسا بھی میڈیا والے نہیں کہیں گے کیونکہ انہیں بی جے پی سے پیار ہے۔۲۰۱۴ء کے عام چناؤ میں بی جے پی کی فتح کے بعد یکے بعد دیگرے ہونے والے انتخابات میں سارے میڈیا نے ایک سُر میں اپنے اوپی نین پول میں بی جے پی کو فتحیاب ہوتے ہوئے ہی دکھایا ہے اور اِس کا خاطر خواہ فائدہ بھی بی جے پی کو ملا ہے۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ’رائے عامہ‘ تشکیل دینے میں یہ اوپی نین پول خاصا مدد کرتے ہیں ۔اگرچہ اِن اوپی نین پولس کو چند پارٹیوں نے شکست سے بھی دوچار کیا ہے لیکن پھر بھی اِن تجزیہ نگاروں کو شرم نہیں آتی کیونکہ سیدھی سی بات ہے کہ انہیں اپنی دکان چلانی ہے۔
۲۰۱۵ء کے دہلی اسمبلی الیکشن میں ۵؍ میں سے ۴؍ اوپی نین پولس نے بی جے پی کی اکثریت سے جیت کا دعویٰ کیا تھا اور بچے ہوئے ایک نے معلق اسمبلی کی پیش گوئی کی تھی لیکن ۷۰؍ میں سے ۶۷؍ سیٹیں حاصل کرکے عام آدمی پارٹی نے اوپی نین پول والوں پر زوردار طمانچہ رسید کیا تھا۔اس کے بعد ۲۰۱۵ء کے اخیر میں بہار میں ہوئے اسمبلی الیکشن میں بیشتر اوپی نین پولس نے بی جے پی اتحاد اور متحدہ جنتادل اتحاد( جس میں لالو کی آر جے ڈی اور کانگریس شامل تھے)میں کانٹے کی ٹکر بتایا تھا بلکہ چند ایک نے تو بی جے پی کی اکثریت سے فتح کی پیش گوئی کی تھی ۔ایگزٹ پولس میں بھی یہی تماشا برقرار تھا۔یہاں تک کے گنتی والے دن بھی چینل والوں نے بی جے پی کے دفاتر میں جیت کی خوشی میں آتش بازیاں تک کروا ڈالی تھیں۔حد تھی بی جے پی نوازی کی لیکن نتیجہ جو نکلا وہ کم مایوس کن (جینلوں کے لئے) نہیں تھا ۔متحدہ جنتا دل اتحاد بھاری اکثریت سے فتح یاب ہوا تھا ۔ اسی طرح۲۰۱۷ء کے پنجاب انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو اوپی نین پول والوں نے اہمیت دی کیونکہ انہیں تھوڑا بہت پاس جو تھا کہ شرومنی اکالی دل اور بی جے پی اتحاد عوام کی پہلی پسند نہیں ہے لیکن یہاں بھی کانگریس کی دشمنی ہی میں سب کچھ ہو رہا تھا ۔۳؍ اوپین پول نے تو عام آدمی پارٹی کو دو تہائی اکثریت دے دی تھی اور ایک نے شرومنی-بی جے پی اتحاد کو اکثریت دی تھی جبکہ صرف ۲؍ نے کانگریس کی معمولی جیت کی پیش گوئی کی تھی لیکن کانگریس کو واضح اکثریت حاصل ہوئی۔’آپ‘ کو ۱۱۷؍ میں سے ۲۰؍اور بی جے پی کو صرف ۳؍ سیٹیں ہی مل سکیں۔
یہ اوپی نین پول جھوٹ اور مکر کا پلندہ ہیں۔الیکشن کمیشن کو اِن پر پابندی عائد کرنی چاہئے کیونکہ یہ کسی خاص پارٹی اور آئیڈیالوجی کی حمایت میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔اس میں بدعنوانی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔آج کرناٹک میں معلق اسمبلی دکھاکر بی جے پی کو انہوں نے آکسیجن فراہم کی ہے۔ساتھ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ وزیر اعظم مودی کی انتخابی مہم جو یکم مئی سے شروع ہونے والی ہے،سے پہلے کی تصویر ہے۔ظاہر ہے مودی کی مہم کے بعد یہ تصویر بدل جائے گی اور پھر ایک اور اوپی نین پول آئے گا جس میں تمام کے تمام بی جے پی کی بھاری اکثریت سے جیت کی پیش گوئی کریں گے۔ممکن ہے کہ اس سے بی جے پی کو فائدہ بھی ملے۔کیا اِس فائدے کو الیکشن کمیشن دیکھ رہا ہے کہ وہ بھی عدالت کی طرح آنکھوں پر کالی پٹّی باندھے ہوئے ہے؟
…………………
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں رابطہ:9833999883