16اپریل کی صبح حسب معمول دفتر پہنچا تو جدہ ریڈیو سے برادرم لئیق اللہ خان کی طرف سے پیغام تھا کہ کل سعودی عرب کے شہر ظہران میں 29ویں عرب سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی ہے جس سے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے بڑا جرأت مندانہ خطاب فرمایا ہے۔ ہم آپ کا ریڈیو جدہ کیلئے انٹرویو کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے پاس وقت دوپہر12بجے سے ایک بجے تک ہے، آپ تیار رہیں میں فون کر لوں گا۔
عرب ممالک میں بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر عرب سربراہ کانفرنس کا انعقاد بڑا بروقت فیصلہ ہے۔ میں ظہر کی نماز کے بعد دفتر میں بیٹھا ہی تھا کہ لئیق اللہ خان کی کھنکتی ہوئی آواز آئی کہ مجاہد صاحب آپ تیار ہیں نا؟ آپ کو میری آواز آ رہی ہے۔ بڑی مدت بعد آپ سے بات چیت ہو رہی ہے اور پھر کم و بیش20 منٹ تک عرب سربراہ کانفرنس ‘ خطے میں امن و امان کی صورت حال ‘ فلسطین‘ ایران کی سیاسی روشیں اور یمن کے حوثی باغیوں کے سعودی عرب پر میزائل حملے سمیت بات چیت ہوتی رہی۔ ڈاکٹر لئیق اللہ خان خود بھی بڑے دانش ور اور عرب معاملات کے ماہر ہیں۔ بہرحال ہماری گفتگو تو سوال و جواب اور پھر ان کے تبصروں پر مشتمل تھی مگر فی الحال میرے سامنے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا وہ دو ٹوک موقف ہے جس نے مجھے یہ مضمون لکھنے پر آمادہ کیا ہے۔
دنیا کا ہر پڑھا لکھا اور ذی شعور مسلمان القدس کے قضیہ سے اچھی طرح واقف ہے۔ مسجد اقصیٰ کے ساتھ محبت،وہاں کی مقدس سرزمین پر سجدہ ریز ہونا کروڑوں اربوں مسلمانوں کی خواہش اور تمنا ہے۔ مسجد اقصیٰ جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے ،جہاں اللہ کے رسولﷺ نے معراج کی رات انبیائے کرامؑ کی امامت فرمائی جو نبیوںؑ کا مسکن رہا،جو انبیاء ؑ کی سرزمین کہلاتی ہے، جہاں نماز پڑھنے کی نیت سے سفر کرنا باعث اجر و ثواب ہے۔ القدس وہ سرزمین ہے جہاں سیدنا ابراہیم ؑ رہا کرتے تھے۔ قرآن پاک نے اس سرزمین کو ارض مبارکہ کے نام سے یاد کیا ہے۔ اللہ کے رسولﷺنے سرزمین شام کے بارے میں یہ کہہ کر دعا فرمائی تھی:’’اللہ ہمارے شام اور یمن میں برکت عطا فرما‘‘۔ ایک زمانہ تھا شام ،اردن ،فلسطین اور لبنان ایک ملک شام تھے۔ یہ تو ظالم استعمار ہے جس نے ایک ملک کو4ملکوں میں تقسیم کر دیا۔ شام کو اب سوریا کہا جاتا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے بعد بڑا خطرناک اعلان کیا کہ امریکی سفارت خانہ اب القدس منتقل کر دیا جائے۔ امریکی صدر کے اس بیان پر عالم اسلام میں شدید رد عمل ہوا۔ بیشتر اسلامی ممالک نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔عرب سربراہ کانفرنس میں جو سعودی عرب کے شمالی شہر ظہران میں منعقد ہوئی ،اسے فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے القدس عرب سربراہ کانفرنس کا نام دیا گیا۔ اس کانفرنس میں عرب ممالک کے سربراہ اور قائدین شریک ہوئے۔ ان ممالک میں مصر‘ عمان‘ سوڈان‘ فلسطین ‘ صومالیہ ‘ تیونس ‘ یمن ‘ عراق، لیبیا‘ امارات ‘ الجزائر ‘ لبنان‘ ماریطانیا‘ جزائر قمر ‘ کویت اور بحرین شامل ہیں۔ اردن کے شاہ عبداللہ ثانی نے 29ویں عرب سربراہ کانفرنس کی قیادت خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے حوالے کی۔شاہ سلمان نے اپنے صدارتی خطاب میں بڑا دو ٹوک موقف اپناتے ہوئے کہا کہ مسئلہ فلسطین ہمارا اولین مسئلہ تھا اور جب تک فلسطین کے عوام کو ان کے جائز حقوق نہیں مل جاتے یہ مسئلہ ہمارا اولین مسئلہ بنا رہے گا۔ یہ القدس سربراہ کانفرنس ہے۔ اس القدس عرب سربراہ کانفرنس میں ہم القدس سے متعلق امریکی انتظامیہ کے فیصلے کو ایک مرتبہ پھر مسترد اور اس کی مذمت کرتے ہیں۔
قارئین کرام کیلئے یہ بات نئی نہیں کہ بیشتر عالمی برادری امریکی فیصلے کو مسترد کر چکی ہے۔ خادم الحرمین الشریفین نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم امریکی فیصلے کو مسترد کرنے پر عالمی برادری کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تحسین بھی کرتے ہیں۔ اس کانفرنس کے شرکاء پوری قوت سے اپنا یہ موقف پوری دنیا کے سامنے لانا چاہتے ہیں کہ مشرقی القدس فلسطین کا اَٹوٹ حصہ ہے۔ شاہ سلمان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہر موافق اور مخالف کو اچھی طرح معلوم ہو جانا چاہیے کہ فلسطین اور اس کے عوام عربوں اور مسلمانوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ انہوں نے القدس کے اسلامی اوقاف پروگرام کیلئے 150؍ملین ڈالراور اقوام متحدہ کے زیر انتظام فلسطینی پناہ گزینوں کیلئے 50ملین ڈالرکے عطیے کا بھی اعلان کیا۔ اس موقع پر فلسطینی صدر محمود عباس جو سربراہی کانفرنس میں شرکت کیلئے تشریف لائے ہوئے تھے، کا کہنا تھا کہ فلسطین کیلئے یہ شاہ سلمان کا عطیہ نیا نہیں۔ انہوں نے سربراہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ تمام امت مسلمہ القدس فلسطینی عوام کے مسئلے اور ان کے مسلمہ حقوق کی حمایت سے کسی بھی قیمت پر دستبردار نہیں ہوں گے۔ ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ آپ لوگ القدس کے باشندوں اور اداروں کی حمایت جاری رکھیں گے۔ انہوں نے القدس اور فلسطین کے مسئلہ پر دو ٹوک موقف اختیار کرنے پر خادم الحرمین الشریفین کا دلی شکریہ ادا کیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سعودی حکمرانوں نے ہمیشہ سے فلسطینی کاز کی حمایت کی ہے۔ سعودی حکومت ہو یا اس کے عوام انہوں نے فلسطینی مظلومین سے کبھی رشتہ نہیں توڑا۔ اردن کے شاہ عبداللہ ثانی کا کہنا تھا کہ عربوں ‘ مسلمانوں اور عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ فلسطینی پناہ گزینوں کو ضروری نگہداشت فراہم کرے۔ کویت کے امیر صباح الاحمدالصباح کا کہنا تھا کہ امریکہ القدس سے متعلق اپنا فیصلہ واپس لے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عرب دنیا کو بے شمارچیلنج در پیش ہیں۔ عربوں کو قومی سلامتی کے لیے جامع حکمت عملی اپنانا ہو گی۔ عرب سربراہان کا القدس اور فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے مشترکہ موقف اپنانے کے بڑے دور رس نتائج نکلیں گے۔ سعودی عرب اور یمن کے تعلقات برسہا برس سے بڑے اچھے چلے آ رہے تھےمگر حوثی باغیوں کو ایک لمبی مدت تک تخریب کار ودہشت گردی کی تربیت دی جاتی رہی ہے اور پھر حوثی باغیوں کو سعودی عرب پر قبضہ کے لیے تیار کیا جاتا رہاہے۔ انہیں بے پناہ اسلحہ اور میزائل مہیا کئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے گزشتہ کئی سالوں سے یمن اور سعودی عرب حالت جنگ میں ہیں۔ یمن بنیادی طور پر ایک غریب ملک ہے،اس کے لاکھوں عوام سعودی عرب میں ملازمتیں اور کاروبار کرتے چلے آ رہے ہیں۔ جنگ میں دونوں ملکوں کا بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ خصوصاً یمن کے عوام کو اس جنگ سے بے پناہ نقصان ہوا ہے۔ وہاں غربت کی شرح نچلے درجے سے نیچے پہنچ چکی ہے۔ لوگ کھانے پینے کی چیزوں اور علاج معالجے کی سہولتوں کو ترستے ہیں۔ میرے ایک آسٹریلوی دوست نے جو یمن میں ملازمت کر رہا تھا اور کچھ عرصہ پہلے ہی وہاں سے واپس آیا ہے، اس نے یمن کی تازہ ترین صوت حال بتائی تو کلیجہ منہ کو آیا۔ وفورِ جذبات میں ،میں اس کی مکمل بات نہ سن سکا۔عرب سربراہ کانفرنس میں حوثی باغیوں کی طرف سے سعودی عرب پر میزائل پھینکنے کے واقعات پر بھی شدید غم و غصہ کا اظہار ہوا۔ سعودی عرب کے مطابق سعودی شہروں پر 119میزائل داغے گئے ہیں۔ ان میں 3 میزائل کے ذریعہ مکہ مکرمہ کو نشانہ بنایا گیا جس پر عالم اسلام میں شدید رد عمل اور غم و غصہ کا اظہار ہوا۔ ان میزائلوں کو سعودی فضائیہ نے فضا میں ہی ناکارہ بنادیا ۔اس سے جہاں سعودی فضائیہ کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے، وہیں ایک سوال اُبھرتا ہے کہ حوثی باغی جدید ٹیکنالوجی کو خود سے بنانے یا خریدنے کے قطعاً متحمل نہیں۔ ایک غریب قوم جو نان شبینہ کو ترستی ہے وہ میزائل ٹیکنالوجی کہاں اور کدھر سے حاصل کر رہی ہے؟
شاہ سلمان نے القدس کا نفرنس میں اپنی تقریر میں فرمایا کہ ہم عرب ممالک میں غیر ملکی دہشت گردی کی پھر سے شدید مذمت کرتے ہیں۔ عالمی برادری اور اقوام متحدہ کو اس مخصوص ملک کو سختی سے روکیں کہ وہ دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا رہے۔ بلاشبہ عرب قوم نہایت بہادر قوم ہے۔ یہ لوگ ان مجاہدین اور بہادروں کی اولاد ہیں جنہوں نے بے سروسامانی کے باوجود پوری دنیا پر اسلامی جھنڈے گاڑھے تھے۔ شاہ سلمان نے بالکل درست فرمایا کہ عرب قوم ہر طرح کے مشکل حالات کے باوجود نا قابل تسخیر ہے۔ عرب مرد و زن اور عرب نوجوان اپنی آزادی کی حفاظت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے۔ عرب قائدین نے اپنے اس مشترکہ بیان میں پڑوسی ممالک سے کہا کہ وہ عرب ممالک کی خود مختاری کا پاس کریں۔ فلسطین اور القدس کے حوالے سے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی تقریر نے امت مسلمہ کو نئے حوصلے اور عزائم عطا کیے ہیں۔