جب سے محکمہ ٹریفک کی باگ ڈور انسپکٹر جنرل ٹریفک مسٹر بسنت رتھ کے ہاتھ میں آچکی ہے ، سر ی نگر شہر میں ٹریفک حکام پہلے کے مقابلے میں زیادہ فرض شناسی ،تندہی اور لگن سے کام کر تے دیکھے جارہے ہیں ۔ موصوف نے ٹریفک نظام کو پٹری پر ڈالنے کے علاوہ سڑکوں پر راہ گیروں کی آمدورفت کو آرام دہ بنانے کے لئے فٹ پاتھوں پر خود غرض عناصر کی جانب سے ناجائز قبضوں کے خلاف بھی مہم شروع کر رکھی ہے۔ باشعور شہری آئی جی پی ٹریفک کے ان اقدامات کو مستحسن نظروں سے دیکھتے ہیں لیکن یہ بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی ہے کہ یہ مہم ٹریفک نظام کی بہتری پر منتج ہوگی یا ماضی کے ایسے دوسرے تجربات کی طرح اس کا ڈراپ سین انٹی کلائمکس ہوگا ۔ بہر حال اس میں دورائے نہیں کہ آئے دن یکے بعد دیگرے دلدوز سڑک حادثات پیش آنا ہماری کم نصیبی ہے ہی لیکن یہ ٹریفک حکام کے لئے بھی ایک بڑا چلنج ہے۔ تسلسل کے ساتھ پیش آنے والے ان جاں لیواحادثات کا لیکھا جوکھا اب یہ ہے کہ کچھ دن تک لوگ مرنے اورزخمی ہونے والوں پر کف ِافسوس ملتے ہیں جب کہ متاثرہ گھرانے ما تم وآہ وزاری میںہمیشہ ہمیش کے لئے ڈوب جاتے ہیں اور بس۔ بلاشبہ مو ت اور ز ند گی کے فیصلو ں پر سوائے کاتب ِ تقدیر کے کو ئی قادر نہیں،بایں ہمہ آئے روزکے سڑک حا دثات کو یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ہو نی کو کو ئی ٹا ل نہیں سکتا۔ امر واقع یہ ہے کہ متواترسڑ ک حا دثا ت پر قابو پانے کے لئے متعلقہ حکام یہ دیکھنے کی زحمت گوارا کریںکہ ا ول ان دلخراش سانحات میںڈرا یئو نگ کر نے والے لو گو ں کی اپنی کوتاہیوں اور حماقتوں کا کتنا عمل دخل ہے ؟ دوم ہما را ٹریفک نظا م روز مرہ حادثات کے باوجودبعد بھی لکیر کا فقیر کیوں بنا ہو ا ہے ؟سوم وہ کونسے تیر بہدف اقداما ت کئے جانے چاہیے جن سے سڑک حادثات کا گراف ممکنہ حد تک کم کیا جا سکے ؟ عیا ں و بیا ں حقیقت یہ ہے کہ ہما رے یہا ں اکثر و بیشتر غلط ڈرائیونگ اور راہ گیر دونوں جاںگسل حا دثا ت کی مو جب بنتے رہتے ہیں۔ اس کے بین بین جب بہتر ٹر یفک پلا ننگ کا فقدان ہو ، ٹر یفک محکمہ کے عہدیدار احسا سِ ذمہ داری سے تہی دامن ہوں، علی الخصوص تیز رفتارڈرا ئیو نگ کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جارہاہو اور لائسنس کے اجرا ء میں غیر ذمہ داریوںکا عمل دخل ہو، سڑ کیں تنگ اور خستہ حال ہوں ، ٹریفک عملے میں ہفتہ وصولی کی وبا پائی جاتی ہو ، یہ سب اسبا ب و محرکات جب ایک جگہ جمع ہو ں تو سڑک حا دثات کا پیش آ نا کو ئی حیرا ن کن با ت نہیں۔ یہ ٹریفک سسٹم کی تباہ حالی کا ہی منہ بولتا ثبوت ہے کہ اب چاروں طرف لمبے لمبے ٹر یفک جا م لگنے کی روایت عام ہے۔ اسی بے ڈھنگی چال کا شاخسانہ ہے کہ سری نگر جموں شا ہراہ سمیت دیگر اہم سڑکیں شاہراہیںعوام الناس کے لئے موت کا ہو ل سیل پھندا بن چکی ہیں۔ جموں سر ی نگر ہائی وے پر گزشتہ پا نچ سات سال سے جو خو ف نا ک حادثا ت پے درر پے پیش آرہے ہیں،ان کو یا دکیجئے تو آج بھی دل تھر تھرکانپ اٹھے گا۔ بعینٖہ شہرو ں اورقصبہ جات کی مصروف سڑ کوں اور گلی کو چوں کی کہانی بھی اسی سے مشابہ ہے ۔ اس صورت حال کے لئے جہا ں حکو مت بری الذمہ قرارنہیںدی جاسکتی کیوں کہ اس کے پا س کو ئی عوام دو ستا نہ ٹر یفک پالیسی وضع کر نے کی فرصت ہی نہیں، وہاں ٹر یفک محکمہ سر تا پا اس بات کے لئے جواب دہی کے کٹہرے میں کھڑا ہو جاتا ہے کہ اس کی صفوں میں فرض شناسی نام کی ہر چیز عنقا ہے۔ بہر صورت روز روز سڑک حادثات کے اس ناگفتہ بہ سلسلے کو بد لنے کی خوا ہش اگر اربا ب ِ حل وعقد کے دل میں کہیں پنہا ںہے ،تو اس کے لئے متعلقہ ایجنسی کو گہری نیند سے جاگنا وقت کی اہم پکا ر ہے ۔ ایک واجبی عقل وفہم رکھنے والا انسان بھی تسلیم کر ے گا کہ کسی اصلا ح طلب نظا م کو ٹھیک ٹھاک خطوط پر چلا نے کے لئے اعلیٰ تر ین سطح پر کتنی ہی جاندا ر اور انقلابی ہدا یا ت دی جا ئیں یا زمینی حالات کا نقشہ بد لنے کے لئے کیسی ہی اچھی اور معقول حکمت عملی وضع کی جا ئے، یہ جب میدان عمل میں ایک کا غذ ی کا رروائی ثا بت ہو تو اس کا سکو پ صرف خیا لی جنت تک محدو د رہتا ہے۔ ٹر یفک نظا م میں بہتری لا نا ایک نا قا بل ِ التواء ضرورت بن چکی ہے،ا س بات سے کسی کو اختلاف کی مجال نہیں ہوسکتی لیکن اسے نیک تمنا ؤں سے یا متا ثر کن کا غذی ہدا یا ت جا ری کرنے سے با ل برا بر بھی ا حوال وکوائف میں سدھا رآ نے کی تو قع نہیں کی جا نی چا ہیے ،جب تک اصل مسئلے کا تیر بہدف حل نہ کیا جائے۔ اس حوا لے سے یہ سادہ حقیقت سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ اول برسوں سے وہیکل پا پو لیشن میں دن دو گنی ر ا ت چو گنی اضا فہ ہو رہا ہے ، دوم سڑ کیں اتنی تنگ اورخستہ حا ل ہیں کہ ان پر مشکل سے ہی تانگے دوڑیںپھر یں، سوم مصرو ف تر ین با زارو ں میں بیک وقت خو انچہ فروشوں ، ریڑ ھے بانو ں اور دوکانداروں کا بلا کسی پس و پیش کے قبضۂ نا جا ئز جماہوا ہے ،چہا رم ٹر یفک عملہ سڑکوں پر نظم و ضبط لا نے کے لئے تعداد کے اعتبا ر سے آ ٹے میں نمک کے برا بر بھی نہیں، پنجم ٹر یفک پولیس دوسرے سر کا ری اہل کاروں کی ما نند اوپری آمدنی کما نے کے چکر میں اپنے فرا ئض کی انجام دہی میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں،ششم چھو ٹے چھو ٹے بچو ں کو سڑ کو ں اور گلی کو چو ں میں بلا لا ئسنس موٹر بائک چلا نے کے ہلاکت آ فرین نتا ئج دیکھنے کے با وجو د متعلقہ حکام ٹس سے مس نہیںہوتے۔ یہ سب ٹر یفک نظا م کے وہ پھو ڑے پھنسیا ں ہیں جن کو دیکھنے کے لئے کسی دوربین کی قطعی حا جت نہیں۔ ان نقائص کو یہا ںگننے سے مرا دیہی ہے کہ ٹر یفک نظا م کا موثر علاج کرنے کے ضمن میں ان تمام بیماریوں کا تسلی بخش دوا دارو کر کے ہی یہ مقصد پو را کیا جا سکتا ہے کہ خو ن کے آنسو رُلادینے والے حادثات کا سلسلہ رک جائے گا ۔بصورت دیگر ہلاکتوںکا یہ سلسلہ رُکے گا نہ اس بلائے ناگہانی سے کبھی نجات پا نے کی اُمید کی جاسکے گی ،چاہے کتنے ہی فرض شناس بسنت رتھ اس کام کے لئے سعی و جہد کریں ۔