افسپا کالے قوانین کی فہرست میں ایک ایسا قانون ہے جو کہ بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں سے لے کے ریاست جموں و کشمیر پر ایک لمبے عرصے سے لاگو ہے۔ حال ہی میں بھارت سرکار کی وزارت داخلہ نے افسپا کو منی پور میں کاملاََ اور اروناچل پردیش کے کچھ علاقوں سے ہٹا دیا لیکن کشمیر سے اِس اندھے قانون کو ہٹانے کا کوئی ارادہ ہو ایسا دور دور تک نظر نہیں آتا باوجود اینکہ ریاست کی یکے بعد دیگرے حکومتوں نے اِس کے خاتمے کی کوششوں کی یقیں دہانی کرائی۔اِن حکومتوں میں وہ حکام بھی شامل رہے جن کا تعلق نیشنل کانفرنس سے تھا اور وہ بھی جو پی ڈی پی سے تعلق رکھتے تھے بلکہ آج کے دور کی پی ڈی پی جو کہ ایک کولیشن سرکار میں شامل ہے اِس معاملے میں پیش پیش رہی لیکن کسی کی یقیں دہانی بھی قابل اعتنا ء نہیں رہی اور افسپا آج بھی اپنی سیاہی لئے کشمیر میں لاگو ہے۔ منی پور اور اروناچل پردیش کی مانند پچھلے کئی سالوں سے کئی ایسے دور آئے جہاں یہ احساس اجاگر ہوا کہ جس مقصد کیلئے افسپا جیسے کالے قانون کو لاگو کیا گیا اُس کی کوئی جوازیت نہیں رہی یعنی حالات کی نہج اِس حد تک پُر امن رہی جہاں افسپا کو اٹھائے جانے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا جا سکتا تھا لیکن حالات کی پُر امن نہج کو نادیدہ لیا گیا۔آج بھی کشمیر کے کئی اضلاع باقی اضلاع کی نسبت پُر امن ہیں لیکن اروناچل پردیش کی مانند جہاں کچھ علاقوں سے افسپا اٹھایا گیا یہاں دور دور تک ایسے مقام کا سراغ نہیں ملتا جہاں افسپا اٹھائے جانے کا امکاں نظر آتا ہو۔
ریاست جموں و کشمیر میں میں لمبے عرصے سے جہاں ایک مزاحمتی تحریک چل رہی ہے وہی حقوق انسانی کی باز یابی کی ایک تحریک بھی چل رہی جس کا مدعا و مقصد ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کے لئے ایک ایسی حریت ِفکر کا حصول ہے جو اُن کے فطری رحجان کے عین مطابق ہو۔تاریخی انسانی گواہ ہے کہ ایک فطری رحجان کو دبانے میں کتنے ہی نا مناسب قوانین کا اطلاق ہو انجام کار یہ حق دیر یا سویر حاصل ہو ہی جاتا ہے۔اِس حق کا حصول کیسے ہو اِس پہ بحث کی گنجائش ہے ۔ آج کی سیاسی لغت میں مسائل کو حل کرنے کیلئے مذاکرات یا ڈائیلاگ کو ترجیح دی جاتی ہے اور وہ بھی ایک ایسے ڈائیلاگ کی جہاں ہر فریق میز مذاکرات سے ایسے انداز میں اٹھے جہاں کسی کو شکست کو احساس نہ ہو جہاں سب کو یہ احساس ہے کہ اُس کے ہاتھ کسی نہ کسی پہلو سے کسی نہ کسی انداز میں کچھ نہ کچھ مثبت آیا ہے ۔اِسے دور حاضر کی سیاسی لغت میں جیت جیت[win, win] کا نام دیا گیا ہے اور دور حاضر یا ایسا کہیں ماضی قریب کی تاریخ اِس کی گواہ ہے کہ کئی ممالک میں ایسے اتفاقات پیش آئے جہاں مسائل کو گفت شنید سے حل کیا گیا۔ قابل قبول حل تک پہنچنے سے پہلے حتّی المکان کوشش یہی رہنی چاہیے کہ کالے قوانین سے سیاسی فضا کو تاریک نہ کیا جائے اِس احساس کے ساتھ کہ ایسے قوانین کے اطلاق سے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور وقتاََ فوقتاََ بے قابو ہو جاتے ہیں ۔
23 مارچ 2009ء کے روز اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے حقوق انسانی نوانیتہم پلے [Navanethem Pillay]کے افسپا کی تردید میں دئے گئے بیاں کے جواب میں بھارت نے آئین ہند کی دفعہ 355 کا حوالہ دیاجس کے مطابق’’یونین (مرکزی حکومت) کا حق بنتا ہے کہ وہ ریاستوں کو خارجی حملات و داخلی فساد سے محفوظ و ماموں رکھنے کی تدابیر کرے تاکہ ریاستی امورآئین کے مطابق طے ہوتے رہیں‘‘ نوانیتہم پلے کا اعتراض یہ تھا کہ ’’افسپا ماضی کے نو آبادی دور کا قانون ہے جو دور جدید کے بین الا قوامی حقوق انسانی کے معیار پہ پوارا نہیں اترتا‘‘پلے کے اِس تردیدی بیاں کے جواب میں بھارت کے اٹارنی جنرل نے کہا کہ بین الاقوامی قوانین کا اطلاق علحیدہ پسندتحریکوںپہ نہیں ہو سکتا ۔اِس کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ بھارت جموں و کشمیر کی تحریک کو علحیدہ پسند تحریک مانتا ہے لہذا بین الاقوامی قوانین کے دائرے سے اُسے خارج ماننا چاہیے۔ بین الاقوامی شہری و سیاسی حقوق کے اتفاق نامے میں بھارت بھی ممبر کی حثیت سے شریک ہے البتہ جیسا کہ پہلے ہی مشخص ہوا اِس اتفاق نامے کے اطلاق کا وہ علحیدہ پسند تحریکوں کو مستحق نہیں مانتا ۔ جہاں تک کشمیر میں مختلف سیاسی احزاب و شہری تنظیموں کا تعلق ہے اُن کا ماننا ہے کہ ریاست کے بھارت سے ایک عارضی الحاق کو ادغام کا عنواں نہیں دیا جا سکتا بلکہ یہی بات بھارت نواز سیاستداں و وزیر اعلی اسبق عمر عبداللہ نے بھی 2010ء میں جموں و کشمیر اسمبلی میں دہرائی بنابریں علیحدہ پسندگی کا سوال ہی در پیش نہیں ۔ بھارت البتہ الحاق کو حتمی مانتا ہے۔
2009ء سے پہلے بھی 1991ء میں اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کی کمیٹی نے آئین ہند کے تحت ہی افسپا کے اطلاق پہ سوالیہ اٹھایا تھا جس کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ اِس کمیٹی کی رائے میں حتّی آئین ہند کے دائرے میں بھی افسپا کو جائز نہیں قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کی کمیٹی کے مد نظر شاید یہ حقیقت رہی کہ آئین ہند میں انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے اور افسپا اِن حقوق کی نفی ہے۔ اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کی کمیٹی نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ افسپا کو بین الاقوامی شہری و سیاسی حقوق کے اتفاق نامے کی دفعہ 4 کے مطابق کیسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟ دفعہ 4 کی مختلف شقوں کا جائزہ لینے کے بعد ہی اِس کا ادراک کیا جا سکتا ہے کہ بین الاقوامی کمیٹی کے نظریے کی بنیاد کیا تھی۔ دفعہ 4 کی شق نمبر ایک4:1)) دو (4:2) اور تین (4:3) کو در نظر رکھنا ہو گا۔ 4:1)) میں یہ مانا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے کسی بھی ممبر ملک کو مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے جس سے ملکی وجود کو خطرہ لا حق ہو ۔ اِس کا اعلان رسمی طور پر بھی ہو جائے تو ایسی صورت حال میں بھی وہ ممبر ملک جنہوں نے اتفاق نامے پہ دستخط کیا ہو صورت حال سے نبٹنے کیلئے اُسی حد تک اقدامات کریں گے جس حد تک کہ ضرورت ہوالبتہ یہ کسی بھی صورت میں معاہدے پہ دستخط کرنے والے ممالک قوانین ثانوی بین الملی کے تحت اپنی ذمہ واریوں سے اجتناب نہیں کریں گے اور رنگ و نسل،جنس،زباں،مذہب یا سماجی بنیاد کی بِنا پر امتیاز نہیں برتا جائے گا۔
(4:2) میں مختلف شقوں کاحوالہ دیا گیا ہے جن کی خلاف ورزی کو 4:1)) کے اطلاق کے وقت ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا ۔یہ شقیں ہیں6, 7, 8 (para I and 2), 11, 15, 16 and 18 ۔ (4:2) کی شق 6:1 کے تحت ہر شخص کو زندہ رہنے کا حق ہے اور اِس حق کا تحفظ قانوناََ فرض ہے اور کسی کو بھی اِس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا جبکہ شق7 میں آیا ہے کہ کسی کو بھی تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا،ظلم ،غیر انسانی و تذلیلی سلوک روا نہیں رکھا جائے گا۔شق (4:3) کے تحت معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ در صورت کہ 4:1)) کے اطلاق کی کسی بھی دستخط کرنے والے ملک کو ضرورت پیش آئے اپنے کئے گئے اقدامات سے متعلقہ ایجنسیوں یعنی اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کی کمیٹی کوبوسیلہ سیکرٹری جنرل با خبر رکھے اور اگر کسی شق کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو کس حد تک اور کس وجہ سے ہوئی ہے ؟ کشمیر میں کام کر رہی انسانی حقوق کی تنظیموں نے حتّی کہ حقوق انسانی کے ریاستی کمیشن نے جس کو ریاستی سرکار نے قائم کیا ہے سیکورٹی فورسز پر ایسے الزامات عائد کئے ہیں جو کہ (4:2) کی شق 6:1 اور شق 7 کی سریحاََ خلاف ورزی ہے البتہ افسپا میں تحقیق کیلئے مرکزی سرکار کی متعلقہ وزارتوں ، بھارتی افواج کی خلاف ورزیوں کی صورت میں وزارت دفاع اور سی آر پی ایف [CRPF] کی خلاف ورزیوں کی صورت میں وزارت داخلہ کی اجازت مطلوب ہے اور چونکہ یہ اجازت شاز و نادر ہی ملی ہے اسلئے مختلف شکایات کی تحقیق پایہ تکمیل کو نہیں پہنچی ہے۔
جسٹس بشیر الدین حقوق انسانی کے ریاستی کمیشن کے سابق سر براہ نے کئی سال پہلے اپنی اختتامی رپورٹ میں جسے نیوز لیٹر [Newsletter]کا عنواں دیا گیا ہے رقمطراز ہیں’’ افسپاکے تناظر میںمسلح افواج کے خلاف سنگین الزامات ہیں جس میں طاقت کا بیجا استعمال کیا گیا ہے۔بلا تردید حقوق انسانی کے ریاستی و قومی کمیشن کو نچلی سطح کے افسراں کے بارے میں در مورد بلاجواز گرفتاریاں ، حبس بیجا ،غیر انسانی و غیر اخلاقی سلوک ،تشدد و موت دوران حبس ، زنا بالجبر و نقلی مقابلوں کی شکایات موصول ہوئیں ہیں‘‘ شکایات کے ضمن میں جسٹس بشیر الدین کی اختتامی تحریر میں آیا ہے ’’بد قسمتی سے مرکزی حکومت کی اجازت جو اِن شکایات کی تحقیق لے لئے ضروری ہے وقت پہ حاصل نہیں ہوتی یا ملتی ہی نہیںچناچہ چھتی سنگھ پورہ،برک پورہ،کونن خوش پورہ،ہندوارہ میں زنا بالجبرجیسے واقعات کے بارے میںجو قانونی کاروائی ہونی چاہیے تھی ہوئی نہیں ہے‘‘ جسٹس بشیر الدین کا یہ ماننا ہے’’ایسا کرناعدم اعتماد کی دلیل ہے اور ایسا کرنے سے حکام کے خلاف جذبات امڈ آتے ہیں اور سماج کے اُن طبقات میں جو اُس طرف مائل ہوتے ہیں تشدد ی رحجان پیدا ہوتا ہے اور یہ ملک کے خلاف احساسات کے بھڑکنے اور عملی صف آرائی پہ منتج ہوتا ہے‘‘۔
جسٹس بشیر الدین نے ظاہر ہے اِن اختتامی جملوں میں جو رقم کیا ہے وہ کشمیر یا بھارت تک محدود نہیں بلکہ ایک وسیع دائرے پہ محیط ہے۔اِس سے اگر چہ ایک عمومی تجزیے کا نام دیا جا سکتا ہے لیکن ظاہر ہے اُنہوں نے کشمیر کے تجربات کو مد نظر رکھا جہاں اُن کا حقوق انسانی کے دائرے میں عمل دخل تھا۔ افسپاکے بارے میں جسٹس بشیر الدین تنہا جج نہیں بلکہ بھارت میں شمال مشرقی ریاستوں مخصوصاََ منی پور میں جسٹس جیون ریڈی کمیشن نے افسپا کے نفاذ کے خلاف رائے دی۔منی پور میں شہری تنظیموں کی ایجی ٹیشن کے بعدجسٹس جیون ریڈی کی قیادت میں ایک پنج ممبری کمیشن نے 6 جون 2005ء کے روز افسپا کو ہٹانے کی سفارش کی ، البتہ اُس زمانے میں وزیر دفاع پرناب مکھر جی نے ایک سرکاری کمیشن کی سفارش کو رد کرتے ہوئے یہ رائے دی کہ فساد زدہ علاقوں میں افسپا ہٹانے حتیٰ اُس میں ترمیم سے فوج موثر انداز میں کام نہیں کر سکتی ۔
سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ اپنے دور حکومت کے دوراں افسپا کو کچھ علاقوں سے ہٹانے پہ اصرار کرتے ہوئے نظر آئے۔وہ سرینگر،بڈگام،جموں و کٹھوعہ اضلاع سے افسپا ہٹانا چاہتے ہیں جہاں حالات مستحکم تھے لیکن اُن کو فوج کی مخالفت کا سامنا ہے حالانکہ اُن کے اصرار کے بعد سابقہ وزیر داخلہ چدمبرم کا یہ بیان بھی منظر عام پہ آیا کہ ’’عمر عبداللہ وہی کہہ رہے ہیں جس کا مرکزی کابینہ کی سیکورٹی سے متعلق کمیٹی نے سال گذشتہ کے ستمبر مہینے میں فیصلہ لیاتھا اور وزیراعلیٰ کے بیاں کو اُسی سلسلے کا جز ماننا چاہیے‘‘۔اُس کے بعد محتاط انداز میں اُنہوں نے کہا کہ’’ مزید مشاورت کی ضرورت ہو سکتی ہے‘‘۔چدمبرم کے بیان کے برعکس سابقہ وزیر دفاع انتھونی کا بیان واضح انداز میں افسپا ہٹانے کے خلاف ہے اور فوج کا یہ ماننا رہا کہ جن اضلاع میں افسپا ہٹانے کی تجویز ہے اُن علاقوں میں شدت پسند اپنا ڈیرہ ڈال کے فوج کیلئے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔یہ دہلی کی سابقہ سرکار یو پی ای(UPA)کی روش رہی جس سرکار کی سرغنہ کانگریس تھی اور جہاں تک حالیہ سرکار این ڈی اے(NDA)کا تعلق ہے جس میں بھاجپا سر کردہ جماعت ہے وہ شروع سے ہی ریاست جموں و کشمیر کی تئیں سخت روش کی قائل رہی ہے اور اُس پالیسی میں کوئی تغیر ہو بعید نظر آتا ہے لیکن اِس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ جہاں شمال مشرقی ریاستوں کے تئیں این ڈی اے(NDA) سرکار کا رویہ نرم ہے وہی ریاست جموں و کشمیر کے تئیں خصومت آمیز رویہ عیاں ہے حتّی کہ اُن اضلاع سے بھی افسپا ہٹانے کو غیر ممکن قرار دیا جا رہا ہے جہاں نسبتاـََ امنیت ہے ۔ یہ رویہ اروناچل پردیش کے برعکس ہے جہاں اُن علاقوں سے افسپا ہٹایا گیا جہاں امنیت ہے۔سیاسی طور پہ پرکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے مین اسٹریم سیاستدانوں میں جو بہ عرف عام قومی دھارا سے مطابقت رکھتے ہیں وہ دم و خم نہیں جو شمال مشرقی ریاستوں کے سیاستدانوں میں عیاں ہیں جنہوں نے بھاجپا کو اقتدار میں شریک تو کر لیالیکن خاطر خواہ رعایتیں بھی حاصل کر لیں جبکہ پی ڈی پی نے بھاجپا کو اپنی من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ دہلی کی وزارت داخلہ کی دوہری روش سے یہی ظاہر ہوتا ہے ۔
Feedback on: [email protected]