آر ایس ایس کا رنگ و روپ
کتاب میلے سے کتابیں ہٹوائیں
پچھلے دنوں قومی کونسل برائے ترقی اردو زبان کے زیر اہتمام کشن گنج میں کتاب میلہ لگا جس میں دہلی کے معروف پبلشر فاروس میڈیاکا اسٹال بھی تھا۔فاروس میڈیا نے آر ایس ایس اور بھگوا دہشت گردی کے بارے میں متعدد کتابیں اردو، ہندی اور انگریزی میں چھاپ لی ہیں جو کشن گنج میںمذکورہ پبلشر کے اسٹال پر دستیاب تھیں۔پبلشر کے اسٹال پر بھگوا ذہنیت کے لوگ ہر روز آکر احتجاج کررہے تھے کہ آر ایس ایس اور بھگوا دہشت گردی کے بارے میں کتابیں ہٹائی جائیں لیکن پبلشر کے نمائندے کوثر عثمان نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور بدستور کتابوں کو ڈسپلے کرتا رہا۔ کتاب میلہ ختم ہونے کے دودن قبل آر ایس ایس اور بھگوا ذہنیت کے بہت سے لوگ اسٹال پر آئے اور زور زبردستی کرنے لگے، کچھ تو کتابیں بھی زبردستی اٹھا کرلے گئے۔پھر وہ پولیس کو بھی بلا لائے جس نے شروع میں ان کی بات ماننے سے انکار کیا۔اسی طرح قومی کونسل برائے ترقی زبان اردو کے مقامی ذمہ داروں نے بھی شروع میں پبلشر کا ساتھ دیا لیکن جب آر ایس ایس کا دباؤ بہت بڑھ گیا اور تشدد کا خطرہ پیدا ہوگیا تو پولیس اور قومی کونسل کے نمائندوں نے پبلشر کے نمائندے کوثر عثمان سے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ آپ مذکورہ کتابوں کو ہٹالیں۔اس کے بعد اگلے دو روز تک پبلشر نے اسٹال پر اپنی سات کتابیں نہیں لگائیں بلکہ وہاں ایک اعلان لکھ کر رکھ دیا کہ یہ کتابیں آر ایس ایس کے دباؤ میں ہٹالی گئی ہیں۔ آر ایس ایس کے لوگوں نے پولیس میں ایف آئی آئی آر بھی درج کرانے کی کوشش کی جس کو پولیس نے یہ کہتے ہوئے رد کردیا کہ پبلشر دلی کا ہے، اس لئے وہیں مقدمہ درج کراؤ۔ آر ایس ایس حامیوں کو سب سے زیادہ اعتراض مہاراشٹر کے سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس ایس۔ایم۔مشرف کی کتاب "آر ایس ایس سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم" پر تھا جو کہ ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں دستیاب ہے۔
جموں وکشمیر میں فارسٹ ایکٹ نافذ العمل کریں
قانون کا نفاذ عوام کا بچاؤ
جموں کے کٹھوعہ علاقے کی مظلوم ومقتول بچی آصفہ کے بارے میں دہلی اقلیتی کمیشن کے صدر ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے خط لکھ کر وزیر اعلیٰ جموں وکشمیر محترمہ محبوبہ مفتی سے کہا ہے کہ ہم آصفہ کے ساتھ درندرانہ معاملے کے بارے میں بہت غمگین ہیں اور اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ متاثرہ خاندان کو مناسب معاوضہ دیا جائے لیکن صرف یہ اصل مسئلے کا حل نہیں ہے۔ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے وزیر اعلیٰ کشمیرکو اپنے خط میں لکھا کہ مذکورہ حادثہ در اصل علاقے سے بکروال قوم کو بھگانے کے لئے رچا گیا تھا کیونکہ جموں وکشمیر میں بکروال اورگوجر قوموں کو جنگلوں میں رہنے اور ان سے استفادہ کرنے کا قانونی حق حاصل نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ مقامی باشندے بلکہ مقامی اہلکار بھی ان کمزور قوموں کو ان کے علاقوں سے بے دخل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ اس مسئلے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی پارلیمنٹ کا ۲۰۰۶ میں وضع کردہ جنگلات سے مستفید ہونے والے شیڈولڈ ٹرائبز اور دوسرے مستفیدین کی حفاظت کا قانون پورے ہندوستان میں لاگو ہے جب کہ ریاست جموں وکشمیر میں یہ لاگو نہیں کیا گیا ہے۔ اس بنا پر جموں وکشمیر میںجنگلات میں رہنے والے اور ان سے تاریخی طورپر مستفید ہونے والے گروہوں کو قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے اپنے خط میں لکھا کہ جموں کے بکروال اور گوجر لوگوں کو اگر یہ قانونی تحفظ فراہم ہو جائے تو مستقبل میں بہت سی آصفاؤں اور ان کے خاندانوں کو تحفظ مل جائے گا۔
ثقافۃ الہند اور آزاد بھون لائبریری
سشما سوراج کے نام اپیل
اطلاعات یہ ہیں کہ وزارت خارجہ کے تابع انڈین کاؤنسل فار کلچرل ریلیشنز نے اپنا عربی مجلہ ’’ثقافۃ الہند‘‘ بند کردیا ہے اور اب مذکورہ ثقافتی ادارہ اپنے مرکزی دفتر آزاد بھون میں واقع لائبریری کو بھی بند کرنے کی تیاری کررہا ہے۔ اس سلسلے میں صدر دہلی اقلیتی کمیشن ڈاکٹر ظفرالاسلام نے وزیر خارجہ محترمہ سشما سواراج کو خط لکھا ہے کہ مذکورہ بالا دونوں فیصلے انڈین کاؤنسل فار کلچرل ریلیشنز کے لئے نقصان دہ ہیں۔ یاد رہے کہ وزارت خارجہ کے تابع یہ ادارہ مولانا آزاد کا قائم کردہ ہے اور دنیا بھر میں ہندوستانی ثقافت کی نشرواشاعت کا ذمہ دار ہے۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ مجلہ’’ ثقافۃ الہند‘‘ ساٹھ سال سے ہندوستان اور عالم عرب کے درمیان ایک پل کا کام کر رہاہے۔ عالم عرب ۲۳؍ ممالک پر مشتمل ہے جو بحراٹلانٹک پر واقع مراکش سے لے کر بحرعرب پر واقع سلطنت عمان تک پھیلا ہوا ہے جس پر ہمارا مغربی ساحل بھی واقع ہے۔ اس خطے کے ساتھ ہمارے ملک کے گہرے سیاسی، ثقافتی اور تجارتی روابط ہیں اور فی الوقت نہ صرف اس خطے میں ساڑھے ستر لاکھ ہندوستانی کام یا تجارت کر رہے ہیں بلکہ ہمارے پٹرول اور گیس کا معتد بہ حصہ بھی اسی خطے سے آتا ہے۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام نے مرکزی وزیر کو اپنے خط میں مزید لکھا کہ’’ ثقافۃ الہند‘‘ کا بند ہونا اس وسیع خطے میں ہمارے مصالح کے خلاف جائے گا۔ اس کے برعکس ہم کو اس علاقے کے ساتھ ثقافتی، ادبی اور فنی تعلقات بڑھانے کے لئے وہاں کے عوام کے ساتھ براہ راست تعلق قائم کرنا چاہئے۔ مکتوب نگارنے مرکزی وزیر سے پرزور اپیل کی کہ اس مسئلے پر دوبارہ غور کیا جائے تاکہ اتنا اہم مجلہ،جو ایک اہم خطے سے ہمارے تعلقات کو مضبوط بناتا ہے، جاری رہے۔ڈاکٹر ظفرالاسلام نے اپنے خط میں مزید لکھا ہے کہ آئی سی سی آر کی لائبریری کو ریسرچ اسکالرز اور عام قارئین کے لئے کھلا رہنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ اس لائبریری کے بارے میں خاص بات یہ ہے کہ مولانا آزاد کی ذاتی لائبریری ہی اس لائبریری کی اصل بنیاد بنی ۔
روہنگیا جھگیاں نذر آتش
ملزم قانون کے کٹہرے میں
دہلی اقلیتی کمیشن نے منیش چنڈیلا نامی شخص کے خلاف جنوبی دہلی کے ڈی سی پی کو نوٹس جاری کرکے پوچھا ہے کہ پولیس نے اس شخص کے خلاف کیا کارروائی ہے جس نے خود ٹویٹ کرکے ۵ ا؍ اپریل کو دو بج کر ۴۶ منٹ دوپہر دعویٰ کیا ہے کہ کنچن پورہ ، جنوبی دہلی، میں روہنگیا لوگوں کی جھونپڑیوں کو اسی نے آ گ لگائی تھی۔بزعم خود یہ شخص بھارتیا یوا جنتا مورچہ کاممبر ہے اور یوپی کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی کے ساتھ اس نے فوٹو کھنچوا رکھا ہے۔