تعفن زدہ
وہ تعفن زدہ لوگ تھے۔ انہوں نے ساری بستی میں بدبو پھیلا رکھی تھی۔ وہ جہاں سے بھی گذرجاتے سارے راستے بساند سے بھر جاتے۔ بستی کے عام لوگ ان سے ناراض بھی نہیں تھے۔ وہ جیسے اس کے عادی ہوچکے تھے۔۔ ۔ ان سے کبھی کسی نے یہ تک نہیں کہا کہ تم یہاں اتنی ساری بدبو کیوں پھیلارہے ہو۔ ان کے گندے وجود سے اٹھ رہی بدبو انہیں پریشان بھی نہیں کرتی تھی بلکہ و ہ اس لئے بھی ان کے تماشا بین بنے رہتے کہ کبھی انہیں بھی موقع ملے تو و ہ بھی ان گندے لوگوں کے ساتھ گندی ندی میں دوچار ڈبکیاں لگا دیں یاکم از کم ایک دو بار ہاتھ ہی دھو لیں۔
اب اگرمسئلہ تھا تو وہ بستی کے شریف لوگوں کا تھا لیکن ان کی تعداد بہت کم تھی۔انہیں یہ بدبو پریشاں تو کرتی رہتی لیکن بے بس ہونے کی وجہ سے کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ وہ صرف اپنی پکڑی اچھلنے سے بچنے کی فکر میں رہتے تھے۔
یہ لوگ عجیب قسم کی عقیدت رکھتے تھے۔ اپنے خداؤں کی خوشنودی کو جواز بنا کر اپنی ہوس کی تکمیل کے لئے یہ متعفن لوگ کسی بھی بستی میں گھس جاتے اور فردوس بریں سے ایک نازک سی معصوم سی پیاری سی زند ہ صورت کوبے جان مورت کی بلی چڑھانے کے لئے اٹھا لاتے۔ تعفن زدہ یہ لوگ شاید اپنے خدا کو بھی معتفن سمجھ کر پاک چیز کو میلا کر کے اسے بھی تعفن زدہ بناکر ہی بھلی چڑھاتے تھے۔ اس کے لئے وہ کئی کئی روز وحشی ناچ ناچتے رہتے اور اس معصوم کو میلا کرتے رہتے۔ جو روتی بلکتی رہتی۔ وہ جتنا بلکتی یہ اتنا زیادہ ناچ اٹھتے ۔ اوراپنے خداؤں کے سامنے اس معصوم کی عصمت، اس کی روح اور اس کے جسم کو تارتار کرتے رہتے۔
حالانکہ ان کی عبادت گاہیں بہت اونچی تھیں اور کشادہ بھی۔ لیکن وہاں رکھے خدا ؤں کو وہ اپنی مرضی سے اپنی پسندسے خوش کرنا چاہتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ کائینات کا وجود شہوانیت کا مرہون منت ہے۔ اور ان کے سارے خدا شہوات کے متلاشی ہیں۔تاہم ان کی اس بدصورت قربانی اور جہالت سے شایدان کے خدا بھی گھبرا اٹھتے اور اس معصوم کی روح قبض ہوجاتی۔۔۔
خالی پیٹ
غریب مزدور پر ظلم ڈھا رہے ہو اور یہ بے چارہ خاموشی سے تمہارا ہر ستم سہ رہا ہے۔۔۔ برداشت کررہا ہے۔تم اسے دکھ پہ دکھ دیئے جارہے ہو اوریہ تمہارے سامنے احتجاج بھی نہیں کرتا ۔ تم سمجھ رہے ہو کہ یہ منہ میں زبان ہی نہیں رکھتا ۔۔۔ اس کے بازو شل ہوگئے ہیںاس لئے ہاتھ نہیں اٹھا تا ۔۔۔ اس کے ناتواں کندھوں پر بوجھ کے اوپر بوجھ ڈالتے جا رہے ہو اوریہ سمجھتے ہو کہ اسے درد ہی نہیں ہوتا ۔
ستم کی بھی حدہوتی ہے، یہ غربت کے دلدل میں پھنسا ہے اور تم اس کواور دبا رہے ہو، اور ڈبورہے ہو۔ دس بائی بارہ فٹ کھولی میں ٹھونسے ہوئے یا سیلن زدہ کرائے کے کمرے میں قیدیوں کی طرح زندگی گذارنے پر مجبور یہ آدمی کیسے زندہ ہے ، وہ سب تم اچھی طرح سے جانتے ہو۔۔۔ ایک کونے میں پڑی اس کی خارش زدہ ماں کسمسا رہی ہے۔۔۔ برآمدے میں کھانستا باپ ہانپ رہا ہے۔۔۔ ٹاٹ سے لپٹے باتھ روم میں ٹوٹی ہوئی ٹونٹی ہاتھ میں لئے اس کی بیوی ننگی نہائے کیا اور نچوڑے کیا کے مصداق ڈر ڈر کرجسم کا ایک حصہ چھپا کر دوسرا حصہ دھورہی ہے۔۔۔ اس کے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں۔ یاس اور ناامیدی سے دروازے پر نظریں لگائے بیٹھے ہیں۔۔۔ اور یہ گھر کااکیلا کمائو آدمی جوچہرے سے ہی کمزور اور لاغردکھ رہا ہے، یہ دن بھر غریبی کے تانے سنتے سنتے، دھونس دبائو اور گالیاں کھاکھا کے اپنے خون پسینے میں تر گھر لوٹ رہا ہے۔ جیب میں ماں کی خارش کے لئے تیل کی چھوٹی بوتل، باپ کے لئے سستا تمباکو، بچوں کے لئے دو الگ الگ پیروں کے چپل، ایک تھیلی میں آٹا سبزی ۔۔۔۔۔ اورچڑھی آستین کے اندر چھپائے اپنی ا ٓسودگی کا ایک کنڈوم ۔۔۔ یہ ہے ایک غریب کی زندگی جس کے ذمہ دار تم ہو۔۔۔ صرف تم ۔۔۔۔۔
اب چپ نہیں رہوں گا۔ ا ٓج اس کے سامنے جاتے ہی یہ سب کہہ دوں گا۔ وہ یہ فیصلہ کرکے ایک عزم کے ساتھ اس کے سامنے جا کر کھڑا ہوگیا ۔ ۔۔۔۔ لیکن ایک لمحہ کے ہزارویں حصے میں اس کے سارے منتشر خیالات اُڑن چھو ہوگئے ۔۔۔ وہ بڑی عاجزی کے ساتھ سجدے میں گر گیا اور گڑگڑانے لگا۔
ـ’’ میرے مولیٰ میرا کہا سنا معاف فرما۔ تم تو جانتے ہو خالی پیٹ انسان کیا کیا نہیں سوچتا۔ جو کچھ سوچتا ہے وہ برا ہی سوچتا ہے۔ پر تم تو دلوں کے بھید جاننے والے ہو۔ اور بڑے معاف فرمانے والے ہو۔ مجھے بھی معاف فرما۔‘‘
اسلا م آباد،موبائل نمبر9419734234