مرکزی حکومت نے مغل روڈ کو قومی شاہراہ کادرجہ دینے پر اصولی طور پر اتفاق کیاہے اور حکام کے مطابق آئندہ مہینوں اس پر ٹنل کی تعمیر کاکام شروع کردیاجائے گا۔مغل شاہراہ کی اہمیت سے ریاست کی کوئی بھی حکومت انکار نہیں کرسکتی اور ہر ایک کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ یہ شاہراہ واقعی جموں اور کشمیر صوبوں کے درمیان رابطے کیلئے ایک بہترین متبادل ثابت ہوسکتی ہے ۔چونکہ جموں اور سرینگر کے درمیان واحد رابطہ سڑک کی حالت رام بن سے بانہال تک انتہائی خراب اور خستہ ہے اور پچھلے کئی عرصہ سے سڑک کے اس حصے میں جہاں ٹریفک جام روز کا معمول رہاہے وہیں پسیاں اور چٹانیں گرآنے کا سلسلہ بھی لگاتار جاری رہتاہے، جس کی وجہ سے اس روڈ پرسفر کرنے والے مسافروں کو مشکلات کاسامناکرناپڑتاہے اور ان کی زندگی تک کو ہمیشہ خطرہ لاحق رہتاہے ۔ایسی صورتحال میں مغل شاہراہ ایک بہترین متبادل ثابت ہوسکتا ہے، جس کا ثبوت2014کے سیلاب کے بعد کے حالات ہیں جب جموں سرینگر شاہراہ پر ٹریفک بند ہوگئی تو وادی کشمیر کا بقیہ دنیا کے ساتھ رابطہ صرف مغل شاہراہ کے ذریعہ ہی ممکن ہوسکا ۔واضح رہے کہ 84کلو میٹر طویل اس شاہراہ کی وجہ سے خطہ پیر پنچال کے عوام کا وادی کے ساتھ براہ راست رابطہ قائم ہواہے اور جہاںپہلے راجوری پونچھ سے کشمیر جانے کیلئے دو دن کا سفر طے کرناپڑتاتھا وہیں اب موسم گرمامیںلوگ تین سے چار گھنٹوںمیں یہ سفر طے کرلیتے ہیں ۔خطہ پیر پنچال کیلئے یہ روڈ ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے بغیر خطے کی تعمیروترقی کا تصور ہی مشکل ہے ۔اگر مرکزی حکومت کی طرف سے اس تاریخی روڈ کو قومی شاہراہ کو درجہ دے کر اس پر واقعی ٹنل کی تعمیر کاکام شروع ہوتاہے تو اس سے نہ صرف خطہ پیر پنچال کی تعمیروترقی کیلئے نئی راہیں ہموار ہوںگی بلکہ جموں سرینگر شاہراہ پر انحصار کم ہوگا جس سے اس روڈ پر ٹریفک کے دبائو میں کمی واقع ہوگی ۔قابل ذکر ہے کہ خطہ پیر پنچال کے لوگوں کی یہ مانگ رہی ہے کہ مغل روڈ پر چھتہ پانی سے ززی ناڑ تک ٹنل کی تعمیر عمل میںلائی جائے تاکہ یہ روڈ سال کے بارہ مہینے کُھلا رہ سکے ۔ موسم سرما کے دوران روڈ پر پیر گلی اور اطراف و اکناف میں کئی کئی فٹ برف جمع ہوجاتی ہے اورٹنل کی تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے یہ روڈ چار سے پانچ مہینے کیلئے بندہوکر رہ جاتی ہے، جس دوران خطے کے لوگوں کو کشمیر آنے جانے کیلئے پھراسی پرانے راستے کا انتخاب کرناپڑتاہے جو جموں سے ہوکر گزرتاہے ۔شاہراہ پر ٹنل کی تعمیر کا مدعا سیاسی جماعتوں کا انتخابی منشور بھی رہاہے اور موجودہ حکمران اتحاد نے بھی اپنے کم از کم مشترکہ پروگرام میں اس بات کا اعلان کررکھاہے کہ مغل روڈ پر ٹنل کی تعمیر عمل میںلائی جائے گی ۔حالانکہ اس سے قبل بھی ریاستی سرکار کی کوششوں سے مرکزی حکومت نے ٹنل تعمیر کرنے کی حامی بھرلی تھی تاہم ابھی تک اس سلسلے میں کوئی پیشرفت نہیں دکھائی گئی ۔ اب ایک بار پھرمرکز نے اصولی طور پر ٹنل کی تعمیر پر اتفاق کیاہے اور امید کی جانی چاہئے کہ اس اصولی اتفاق پر عملی اقدامات کرنے میں تاخیر نہیںہوگی اور موسم صاف ہوتے ہی ٹنل کی تعمیر کاکام شروع کردیاجائے گا۔ ریاستی اور مرکزی حکومت کو چاہئے کہ وہ ان غیبی طاقتوں، جو اس منصوبے کے ہمیشہ مخالف رہے ہیں، کے دبائو میں نہ آکرمغل روڈ کو قومی شاہراہ میں تبدیل کرنے کیلئے فوری اقدامات کریں اور اس روڈ کی تاریخی و موجودہ اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے خطوں کے درمیان روابط کا بہترین متبادل بنایاجائے ۔