گاندربل// بڈی گام امام صاحب شوپیان میں اتوار کو جاں بحق جنگجوئوں میں محض 36گھنٹے قبل ہتھیار اٹھانے والاکشمیر یونیورسٹی میں تعینات اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد رفیع بٹ ولد عبدالرحیم ساکن ژھندن گاندربل بھی تھا۔وہ جمعہ کو یونیورسٹی سے نکل کر لاپتہ ہوگئے تھے اتوار شوپیان جھڑپ میں جاں بحق ہوگئے۔سوشالجی میں پی ایچ پی ڈی حاصل کرنے کے بعد محمد رفیع یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر تعینات ہوئے ۔32 سالہ اسسٹنٹ پروفیسر شادی شدہ تھے۔پروفیسرکی لاش 2 بجے انکے گھر لائی گئی، جہاں ہزاروں افراد نے ان کی نماز جنازہ گورنمنٹ مڈل سکول چھندنہ کے گراؤنڈ میں ادا کی۔ نماز جنازہ جماعت اسلامی کے امیر جماعت سرینگر بشیر احمد لون کی سربراہی میں ادا کی گئی ۔بتایا جاتا ہے کہ انکے دو قریبی رشتہ دار بہت پہلے اسی طرح کی جھڑپوں کے دوران جاں بحق ہوچکے ہیں۔ڈاکٹر محمد رفیع بٹ نے شوپیان جھڑپ کے دوران اپنے والد کو آخری مرتبہ فون کرکے معافی مانگی اور جھڑپ میں جاں بحق ہوگیا۔لاپتہ ہونے کے بعد رفیع کی یہ پہلی کال تھی۔انکے والد نے کہا کہ اتوار علی الصبح اسکے فون کی گھنٹی بجی اور رفیع بات کرنے لگا۔انہوں نے والد سے کہا ’’ مجھے بیحد افسوس ہے کہ میں نے آپکا دل دکھایا ،یہ میری آخری کال ہے، میں اللہ سے ملنے جارہا ہوں‘‘۔مرحوم کا والد عبدالرحیم جماعت اسلامی گاندربل کاسرکردہ رکن ہے اور محکمہ امور صارفین میں ملازم تھا۔ ڈاکٹر محمد رفیع اپنے پیچھے والد، والدہ، بڑا بھائی امتیاز احمد، اور اہلیہ چھوڑ گیاہے ۔وہ بچپن سے ہی اسلامی طرز زندگی کا حامل تھا۔پانچ سال قبل انکی لال بازار سرینگر میں شادی ہوئی لیکن وہ اولاد سے محروم رہے۔ جمعہ یونیورسٹی سے نکل کر اپنی اہلیہ جومیکے گئی ہوئی تھی سے آخری مرتبہ ملنے بھی گیا تھا، وہی سے اپنی والدہ سے بھی فون پر بات کی تھی ۔پروفیسر بڈی گام میں جب فورسز کے نرغے میں آیا توپولیس نے پروفیسر کے اہلخانہ کو اپنے فرزند کو سرینڈر کر نے پر آمادہ کر نے کے لئے کہا اور انکے والد فیاض احمد اور بہن بھی شوپیاں کے لئے نکلی اور جوں ہی فیاض احمد بٹ اپنے اہلخانہ کے ہمراہ اپنے گھر سے 14کلومیٹر بوٹہ کدل سرینگرکے نزدیک پہنچے تو انہیں اطلاع ملی کہ ان کا بیٹا شوپیاں معرکہ آرائی کے دوران جا بحق ہوا جس کے بعد اہلخانہ نے واپس گاندر بل کی جانب کوچ کیا اور اس کی نعش کا انتظارکر نے لگے ۔فیاض احمد بٹ نے کہا کہ وہ اپنے بیٹے پر اس وقت سے نظر رکھ رہے تھے جب انہوں نے 18سال کی عمر میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر جانے کی کوشش کی تھی اور اس وقت پولیس نے انہیں پکڑ کر اہل خانہ کے حوالے کیا تھا ۔