یکم مئی کو جہاں ساری دنیا شدومد سے یوم ِ مزدوراں منا رہی تھی ، وہیں جموں و کشمیر میںایس ایس اے ٹیچرس نے اس دن کو بوجوہ ’’ یوم ِ سیاہ‘‘ کے طورمنایا۔انہوں نے حکومت کی توجہ اپنے حل طلب مسائل اور ناقابل برداشت تکالیف کی جانب مبذول کرانے کے لئے یہ راستہ اختیار کیا ۔ سوشل میڈیا سے یہ صراحت بھی ہوئی کہ ان کم نصیب اساتذہ نے بعض جگہ اپنے اسکولوں میں سیاہ جھنڈے لہرائے تاکہ ارباب ِ حل وعقد خواب خرگوش سے جاگ جائیں ۔ پچھلے کئی سال سے یہ اساتذہ کرام وقفہ وقفہ سے حکومت کے خلاف احتجاج کرتے چلے آ رہے ہیں تاکہ ان کی بپتا سنی جائی۔ حکومت نے اب تک کوئی شنوائی نہ کی باوجودیکہ کہ اس نوع کی بتکرار کارروائی سے نہ صرف اساتذہ کرام کی ساکھ داؤ پر لگ گئی بلکہ طالب علموں کی لکھائی پڑھائی پر بھی اس کے مضر اثرات مرتب ہوئے ۔ اس بارے میںاگر زمینی صورت حال کا مشاہدہ بہ نظر غائر کیا جائے تو یہ حقیقت اَزبر ہوگی کہ کوئی اُستاد یا اُستانی یہ نہیں چاہے گی کہ اسکول چھوڑ کر سڑکوں پر دھرنے دیںیانعرہ بازیاں کریں ،مگر جب حکومت ان کی سنی ا َن سنی کر ے تو کیا مخصوص زمرے کے یہ اساتذہ کرام ایسا کرنے کے لئے مجبور نہیں کئے جارہے ؟ ایس ایس اے کے اساتذہ کرام نفسیاتی لحاظ سے کافی تنائو کے شکار ہوتے ہیں کیونکہ انہیں بر وقت محنتانہ ادا نہ ہونے سے ان کے واسطے ہزارہا مسائل جنم لیتے ہیں ،ان میں سے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان کا جینا مکمل طور مقامی دوکانداروں اور قرض خواہوںکے رحم وکرم پر منحصر ہے۔کہیں کہیں ان بے چاروں کے لئے مالی مسائل انتہائی سنگین صورت اختیار کر تے ہیں ، حتیٰ کہ قرضہ نہ چکاپانے کی وجہ سے اکثر اساتذہ کرام گھر سے باہر نکلنے میں دقتیں محسوس کر تے ہیں،کچھ ایک اساتذہ کرام کی عزت سرِ بازار خراب ہوتی رہتی ہے،بہت سارے اساتذہ کے پاس گھر کے اہم مصارف پورا کر نے کے لئے درکار پیسہ نہ ہو تواُن پر مہنگائی کے اس زمانے میں کیا بیت رہی ہوگی،اس کا تذکرہ کرنے کے لئے الفاظ کم پڑتے ہیں ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بہت سارے اساتذہ کرام کے یہاں بیمار گھر والوں کے علاج ومعالجہ کے لئے یا اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات کے واسطے پیسہ ندارد ہو کیا کہئے ؟ان تمام وجوہ سے ایس ایس اے ٹیچرس ذہنی تنائو کے شکار نہ ہوں تو اور کیا ہوگا ؟ بنابریں یہ اساتذہ کرام آئے روز سڑکوں پر آنے کے لئے مجبور ہوجاتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے اب تک ان کی تنخواہیں وقت پر واگذار ہونا محض ایک بے تعبیر خواب ہی ہے ۔ اس ضمن میں اپنا نظام دُرست کر نے کی بجائے حکومت مختلف قسم کے رولز کا اجراء کر کے بدقسمت اساتذہ کو ہر طرح سے مشکلات میں ڈال رہی ہے۔
حکومت سے اس بابت پوچھئے تو یہ صرف متعلقہ تعلیمی اسکیم میں مر کزی اور ریاستی حکومت کے مابین عدم تال میل کا عذر ِ لنگ تراشے گی ، ٹھیک ہے لیکن یہ تو بتایئے اس میں اساتذہ کرام کی کیاغلطی ہے ؟ محکمہ تعلیم ان اساتذہ کرام کی تقرری کے احکامات میں صاف صاف درج کر تی ہے کہ آپ کو پانچ سال بعد جنرل ٹیچروں کی صف میں مستقل کیا جائے گا، بس اسی ایک اُمید آرٹی ٹیچر پندرہ سو سے تین ہزار کے مشاہرے پر نوکری قبولتے ہیں لیکن یہ معیاد گزرنے کے بعد بھی جب ان کے ساتھ ایسا بُرا برتائو کیا جائے تو یہ محکمہ تعلیم کے ماتھے پرکلنک کا ٹیکہ ہے ۔ اس مسئلے کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ایس ایس اے ٹیچروں کوجنرل لائن ٹیچرس کی حمایت آج تک کبھی بھی نہ ملی تاکہ یہ سب مل کر اپنی اصولی جدوجہد کو اور زیادہ موثر کر نے میں کا میاب رہتے۔ کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ جب آرٹی اپنے مشاہرے کا مطالبہ لئے سڑکوں پر امڈتے ہیں تو ان کے ا پنے ہم پیشہ جنرل لائین ٹیچر ان کی حمایت میں دوبول بھی نہیں بولتے ۔ جب کہ عقل وفہم اور انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ مصیبت کی گھڑی میں یہ لوگ مسائل کی زد میں تڑپ رہے اپنے ہم پیشہ ٹیچروں کی اخلاقی مدد کے لئے پیش پیش رہتے ۔ خیر حکومت ِوقت کو اب بلا تاخیر ان اساتذہ کرام کی مانگوں کو سنجیدگی سے لے کر کوئی منصفانہ اور باوقار فیصلہ لینا چاہیے، کم از کم ان کی تنخواہیں باقاعدگی سے ماہانہ واگزارہونی چاہیے ، اور جان لینا چاہیے کہ یہ انسانی بحران بھی ہے اور ایک درد سر بھی ہے ۔جب آپ ان کی جائز مانگوں کو مان لیں گے تو یہ اساتذہ نہ صرف اسکولوں میں اپنے فرائض تندہی سے انجام دیں گے بلکہ سماج میں عزت سے جی سکیں گے ۔ ا س کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہزاروں طلبہ کا مستقبل خراب ہوگا نہ کلاسوں کی بجائے مدرسین کو سڑکوں پر آنا پڑے گا۔اُمید ہے کہ اس بار حکومت آر ٹی ٹیچروں کو نااُمید نہیں کر ے گی بلکہ ان کے مسئلہ کی جانب ہمدردانہ نظر التفات کر کے بار بار کا یہ جنجال ختم کرے گی ۔
رابطہ 09469734681