کشمیر کی بگڑی ہوئی صورتحال کے دم بدم نت نئے پہلو سامنے آرہے ہیں جہاں سنجیدہ فکر سماجی طبقے پریشان حال ہیں، وہیں حکمران حلقوں کی بے عملی ایک انتہائی نازک صورتحال کو فروغ دے رہی ہے۔ دو روز قبل نارہ بل میں پیش آئے واقع، جو جنوبی بھارت سے تعلق رکھنے والے ایک سیاح کی موت کا سبب بنا، ہمارے سیاستدانوں ، خواہ وہ مین اسٹریم سے تعلق رکھنے والے ہوں یا علیحدگی پسند خیمے سے یا پھر نئی دہلی کے اقتداری طبقے سے ہوں،کےلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔ کیونکہ اس طرح کی صورتحال منضبط سماجی سوچ کو اپنے دھار ے سے بھٹکا کر بے لگامی کی ایک ایسی سرزمین کی جانب دھکیل سکتی ہے، جہاں کسی کےلئے کسی کو قابو میں رکھنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوسکتا ہے۔ ملک اور ریاست کےسیاسی سوچ کی تشکیل کرنے والے جب تک اپنے سیاسی مسلکوں اور مفادات سے ماوراء ہو کر مثبت رویۂ اختیار کرتے ہوئے مسئلہ کے بنیادی محرکات اور اُن سے پیدا ہونے والے مختلف پہلوئوں کی منصفانہ جانچ پر کھ کرکے ایک ایسا ماحول تیار نہ کریں کہ جس میں سبھی فریق ایک دوسرے کو سمجھنے کے اہل ہوسکیں، اس نوعیت کے واقعات، جنکی کسی بھی جمہوری سماج میں کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے، پیش آنے کا اندیشہ برقرار رہیگا۔ ظاہر بات ہے کہ سیاحت کا شعبہ ریاست کی معیشت کا بنیادی نہ صحیح ایک اہم شعبہ ضرور ہے۔لہٰذا اس طرح کے واقعات پیش آنے سے اس شعبے اور اس سے وابستہ طبقوں کا متاثر ہونا یقینی ہے۔لیکن اس سے اہم بات یہ ہے کہ یہاں سیر سپاٹے یا کسی کام کی غرض سے آنے والا کوئی شخص تشدد کی بھینٹ کیوں چڑھے؟ حالانکہ اس طرح کی روایات کی یہاں کوئی تاریخ نہیں رہی ہے، حتیٰ کہ نوے کی دہائی میں بھی، جب کشمیر کا چپہ چپہ جل رہا تھا اور 2008میں امرناتھ یاترا ایجی ٹیشن کے دوران یا اس کے بعد بھی سیاحتی شعبے اور یاترا سے جڑے طبقوں کے ساتھ کبھی بھی مجموعی طور پر چھیڑ چھاڑ کے واقعات پیش نہیں آئے۔ اگرچہ چند اکا دکا واقعات ضرورپیش آئے، لیکن بہ ایں ہمہ اُن پر سماج کی جانب سے مجموعی برہمی کا اظہار ایک مثبت اجتماعی سوچ کا عکاس رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومتی حلقوں اور انکے ہوا خواہوں کی جانب سے اُن واقعات کو بھی اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کرنے میں کوئی کسر اُٹھائے نہیں رکھی گئی۔نارہ بل میں پیش آیا واقع کسی بھی عنوان سے کشمیر کی سماجی سوچ کا حصہ نہیں ہوسکتا، لہٰذا کشمیری سماج کی جانب سےصف بندیوں کے آر پار اسکی مذمت کی جارہی ہے۔اس واقع سے مہلوک سیاح نوجوان کے لواحقین کو جو دُکھ ہوا ہوگا، غالباً کشمیریوں سےزیادہ وہ درد کوئی محسوس نہیں کرسکتا، کیونکہ یہاں آئے روز عام لوگوں کو ایسے ہی درد و کروب سے گزرنا پڑتا ہے۔ حکومتی حلقوں کی جانب سے اس واقع پر بیان بازیاں ہو رہی ہیں لیکن اُن سے یہ سوال کیا جانا چاہے کہ کیا اُن پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ وہ ایسی سیاسی فضاء پیدا کریں جس میں سبھی فریقوں کے مل کر بیٹھنے کی گنجائش ہو اور حالات میں بہتری کی راہ تلاش کرنے کےلئے ایک مثبت فضاء قائم ہو۔ یہ بات حوصلہ افزاء ہے کہ مزاحمتی خیمے کی جانب سے کُھل کر اس واقع کی مذمت کی گئ ہے اور اس طرح اُن سیاسی حلقوں کےلئے یہ گنجائش باقی نہیں رہی ہے، جو عام طور پر پتھرائو اور ایسے واقعات کےلئے مزاحمتی جماعتوں کو ذمہ دار ٹھہرائے رہتے ہیں۔ من حیث المجموع یہ حکمران طبقے کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے تاریخی پس منظر کے دائرے میں افہام و تفہیم کا ماحول پید اکرنے کےلئے مرکزی حکومت پر دبائو پید اکرنے کی کوشش کرے تاکہ سبھی سیاسی حلقوں کو اُنکی اپنی سیاسی سپیس میں رہ کر کسی دھونس دبائو کے بغیر کام کرنے کا موقع ملے ۔ کم ازکم شہری ہلاکتوں کے امکانات کا سدباب کرنے کےلئے سبھی فریقین کو ایک ایسا مثبت راہ عمل اختیار کرکے آگے بڑھنا چاہئے، جس میں سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی گنجائش باقی نہ رہے اور ناربل جیسے واقعات کا اعادہ نہ ہو۔